www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

درس وبحث کاطریقہ

آپ کے درس دینے کاطریقہ حوزہ کے دوسرے استادوں اوردرس خارج کھنے والوں سے الگ ہے ،جیسے آپ کے اصول کے درس کی خصوصیت ذیل میں بیان کی جارھی ہے ۔

۱۔ بحث کی تاریخ کاذکر:

اصول کی شناخت اوراس کی بنیادی چیزیں ،جوشایدایک فلسفی مسئلہ ہے جیسے سھولت وآسانی مشتق اوراس کے ترکیبات ھوں یاعقیدتی وسیاسی، جسیے تعادل وتراجیح کی بحث، جس میں آپنے بیان کیاہے کہ حدیثوں کااختلاف ،اس زمانے کے فکری اورعقائدی جھگڑوں ،کشمکشوں اورائمہ کے زمانے کے سیاسی حالات کانتیجہ تھا اس بارے میں تھوڑی سی تاریخی معلومات بھی ھمیں اس مسئلہ کے افکارونظریوں کے حقیقی پہلوؤں تک پھنچادیتی ہے۔

۲۔ حوزوی اورجدیدفکرکاسنگم:

کتاب کفایةکےمولف نے،معانی الفاظ کی بحث کے ضمن میں،معانی الفاظ کے بارے میں اپنے نظریات کوجدیدفلسفی نظریہ کےتحت،جس کانام "نظریہ تکثرادراکی" ہے اورجوانسانی ذھن کی استعدادوخلاقیت پرمبنی ہے،بیان کیاہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ انسان کاذھن ایک بات کودوالگ الگ شکلوں میں تصورکرسکتاہے: ایک کومستقل طورپردقت ووضاحت کے ساتھ ، اسے اسم کھاجاتاہے اوردوسرے کوغیرمستقل طورپرکسی دوسری چیزکی مددسے اسے حرف کھتے ہیں ، اورجب"مشتق" کی بحث شروع کرتے ہیں توآپ زمان کواس فلسفہ کی نظرسے دیکھتے ہیں جومغربی دنیامیں رائج ہے اور اس بارے میں بھی اظھارخیال کرتے ہیں کہ زمان کومکان سے روشنی اوراندھیروں کے لحاظ سے الگ کیاجاناچاھئے ،صیغہ "امراورتجری" کی بحث میں سوشیالسٹس کے نظریوں کوذکرکرتے ہیں ۔جنکا ماننا ہے کہ بندے کی سزاکامعیاراللہ کی نافرمانی ہے اوریہ حالت پرانے انسانی سماج کی طبقہ بندی اورتقسیم بندی پرہے جس میں آقا،غلام،بڑے ،چھوٹےکافرق پایاجاتاتھا۔درحقیقت یہ نظریہ اس پرانے سماج کے باقیات میں سے ہے جوطبقاتی نظام پرمبنی تھا ، نہ کہ اس قانونی نظام پرجس میں عام انسان کے فائدوں کی بات کی جاتی ہے۔

۳۔ ان اصول کااھتمام جو فقہ سے مربوط ہیں :

لہذاایک طالب علم بھی علماء کی دقیق اورپیچیدہ فقھی بحثوں کو،جن کاکوئی علمی اورفکری نتیجہ نھیں ھوتا، دیکھ سکتاہے جیسے وہ بحثیں جووضع کے بارے میں کی جاتی ہیں کہ کیاوضع ایک امرتکوینی ہے یااعتباری، یاایک ایساامرہے جوتعھدوتخصیص سے متعلق ہے، یاوہ بحثیں جوعلم کے موضوع اورعلم کے موضوع کی تعریف کے ذاتی عوارض کے بارے میں ھوتی ہیں اور انھیں جیسی کچھ دیگر چیزیں جو بیان کی جاتی ہیں ، لیکن جوکچھ آیة اللہ العظمی سیستانی کے درسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ موصوف محکم اورمضبوط علمی مبنا کوحاصل کرنے کے لیے سخت محنت وزحمت کرتے ہیں خاص طور پر روش استنباط اور اصول کی بحثوں میں ، جیسے اصول عملی، تعادل وتراجیح ،عام وخاص وغیرہ کے متعلق جوبحثیں ہیں۔

۴۔ جدت :

حوزہ کے بھت سے استادوں میں تخلیق کافن نھں پایاجاتاہے لہذا وہ ھمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کتاب یارسالہ پرتعلیقہ یاحاشیہ لکھے، بجائے اس کے کہ اس پربحث کریں، لھذاھم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے استادصرف موجودااستادوں کے نظریوں پربحث کرتے ہیں یاففھم؟یااس شکل پردواشکال واردھوتے ہیں اوران دواشکالوں میں غورکرناچاھئے، جیسی عبارتوں میں مشغول کرلیتے ہیں۔

۵۔ مشرکوں کے ساتھ نکاح جائز ہے :

آیة اللہ سیستانی اس قاعدہ کوجیسے قاعدہ "تزاحم"کہتے ہیں اورجسے فقھاء واصولین صرف ایک عقلی ،عقلائی قاعدہ مانتے ہیں ،قاعدہ اضطرارکے ضمن میں جوایک شرعی قاعدہ ہے اوراس کے بارے میں بھت سی نصوص کاذکرھواہے ،جیسے(ھروہ چیزجسے اللہ نے حرام کیاہے ،اسے ھی مضطر کے لیے حلال کیاہے) کوحلال جانتے ہیں لہذا قاعدہ اضطراراصل میں وھی قاعدہ تزاحم ہے، یایہ کی فقھاء واصولین بھت سے قاعدوں کوفضول میں طول دیتے ہیں جیسے جوکچھ قاعدہ لاتعادمیں دیکھنے میں آتاہے کہ فقھا ء اسے نص کی وجہ سے نمازمیں سے مخصوص مانتے ہیں جبکہ آیة اللہ سیستانی اس حدیث"لاتعادالصلاة الامن خمس"کومصداق کبری مانتے ہیں جونمازاوربھت سے مختلف واجبات کوشامل ہے اوریہ کبری روایت کے آخرمیں موجودہے، "ولاتنقض السنة الفریضہ" لھذاجوکچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ نمازمیں بھی اوراس کے علاوہ بھی واجبات سنت پرترجیح رکھتے ہیں جیسے ترجیح وقت وقبلہ ،اس لیے کہ وقت اور قبلہ واجبات میں سے ہے نہ کہ سنت سے۔

۶۔ اجتماعی نظر :

کچھ فقھاء ایسے ہیں جومتن کاتحت اللفظی ترجمہ کرتے ہیں یادوسرے لفظوں میں یہ کھاجائے کہ وہ وسیع معنی کوبیان کر نے کے بجائے خودکومتن کے حروف کاپابندبنالیتے ہیں ۔ کچھ دوسرے فقھاء ان حالات پربحث کرتے ہیں جس میں وہ متن کھاگیاہے تاکہ ان باتوں سے آگاہ ھو سکیں جن کی وجہ سے اس متن پراثرھواہے ،جیسے اگرپیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث پرغوروفکرکریں جس میں آپنے (خیبرکی جنگ میں)پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیاہے ھم دیکھتے ہیں کہ کچھ فقھاء اس حدیث کے ایک ایک حرف پرعمل کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس حدیث کے مطابق پالتوگدھے کے گوشت کوحرام قراردیتے ہیں، جبکہ ھمیں ان حالات پربھی توجہ دینی چاھئے جن میں یہ حدیث بیان کی گئی تھی تاکہ پیغمبراسلام (ص) کی اس حدیث کوبیان کرنے کے اصلی اوربنیادی مقصدتک پھنچاجاسکے اوروہ یہ ہے کہ خیبرکے یھودیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے ھتھیاراوراورفوجی سازوسامان کی سخت ضرورت تھی جبکہ اس زمانے میں جس میں مسلمانوں کے حالات اچھے نھیں تھے اوراسلاح کو ڈھونے کے لیے چارپایوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذر یعہ نھیں تھااس لیے ھم اس نتیجہ پرپھنچتے ہیں کہ اس حدیث سے مرادایک حکومتی پابندی تھی جس میں ایک ایسی مصلحت تھی جس کی ان دنوںضرورت تھی،اس لیے اس طرح کا حکم صادرھوا لھذااس حدیث کوحکم یاحلال وحرام کے طورپرنھیں لیناچاھئے۔

۷۔ استنباط میں علم ودرایت کاھونا:

آیة اللہ العظمی سیستانی کا نطریہ یہ ہے کہ ایک فقیہ کوعربی زبان اور قواعد میں ماھر ھونا چاھئے ۔ ساتھ ھی ساتھ عربی نثر و نظم اورحقیقت مجازکے استعمال سے بھی مکمل طورپر واقف ھونا چاھئے تاکہ متن کوموضوع کے اعتبارسے سمجھ سکے،اسی طرح اھلبیت علیھم السلام کی حدیثوں اوران کے راویوں پر پوری طرح سے تسلط ھونا چاھئے اس لیے کہ علم رجال کی معرفت ھرمجتھدکے لیے واجب وضروری ہے ۔ اسی طرح آپ کے کچھ نظریے ایسے ہیں جومنحصربہ فردہیں اورمشھورسے کافی مختلف ہیں ، جیسے ابن غزائری اور ان کی کتاب کے بارے میں موصوف کی رائے مشھورسے مخ ت لف ہے آپ کی نظرمیں وہ کتاب ابن غزائری کی ہی ہے اورغزائری، نجاشی اورشیخ وغیرہ سے زیادہ قابل اعتمادہے ۔ آپ کایہ بھی مانناہے کہ کسی حدیث کو مسندیامرسل قرارد ینے اور راوی کی شخصیت کو معین کرنے کے لیے، طبقات کی روش پراعتمادکرنا چاھئے اور یھی روش مرحوم آیة اللہ بروجردی کی بھی تھی۔۔

۸۔ مختلف مکتبوں کے درمیان مقایسہ:

ھم سب جانتے ہیں کہ اکثراساتذہ ایک مکتب یاعقیدہ کونظرمیں رکھ کرکسی موضوع،کی تحقیق یامطالعہ کرتے ہیں ، لیکن آیة اللہ سیستانی کی روش اس سے مختلف ہے۔ مثلاجب وہ کسی موضوع پرتحقیق کرتے ہیں توحوزہ مشھدو حوزہ قم اور حوزہ نجف اشرف کے درمیان مقایسہ کرتے ہیں ۔ وہ مرزا مھدی اصفھانی (قدس سرہ) جومشھدکے ایک مشھور عالم ہیں ،آیة اللہ بروجردی(قدس سرہ) ، جو حوزہ علمیہ قم کی فکرکا سمبل ہیں اور اسی طرح حوزہ علمیہ نجف کے مشھورمحققوں جیسے آیة اللہ خوئی اورشیخ حسین حلی(قدس سرہ ) کے نظریوں کوایک ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر اس طرح بحث ھوتی ہے تو اس کے سارے گوشے اورنکتے ھمارے سامنے اچھی طرح واضح ھوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کی فقھی روش میں بھی چندخوبیاں پائی جاتی ہیں جوحسب ذیل ہیں:

۱۔ شیعہ اور دیگر مذاھب کی فقہ کے درمیان مقایسہ:

اس لیے کہ اس زمانے میں ، ھمارا اھل سنت کے فقھی افکارسے آگاہ ھونا بھت ضروری ہے، جیسے موتامالک اورخراج ابویوسف اوراس جیسی دوسری کتابوں سے ، تاکہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے آئمہ کے مقصداوراس کے بارے میں اھل سنت کے نظریہ کوسمجھاجاسکے۔

۲۔ کچھ فقھی بحثوں میں،دورحاضرکے قوانین کاسھارا:

جیسے کتاب بیع وخیارات کی بحث میں ،کچھ فقھی مناسبتوں کی وجہ سے عراق،مصر اور فرانس کے قانون کاسھارالیتے ہیں۔ اس لئے کہ اس زمانے کے قانون کے اسلوب کو جاننے کے بعد انسان کوبھت سے تجربے حاصل ھوتے ہیں، جب دور حاضرکے قانون کے ذریعے فقھی قواعد کی تحلیل کی جاتی ہے اور ان دونوں میں مطابقت  پیدا کیا جاتا ہے تو بحث کے تمام اھم نکتے روشن ھوجاتے ہیں۔

۳۔ ھمارے اکثرعلماء ان فقھی قاعدوں پرجوبزرگوں سے ھم تک پھنچے ہیں،کوئی ردوبدل نھیں کرتے ہیں:

اس قاعدہ کی بنیاد پرمسلمانوں کو یہ حق ہے کہ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے کبھی کسی دوسرے اسلامی مسلک کے قوانین کی اتباع کرسکتے ہیں (چاھے وہ قوانین اس کے اصلی مسلک کے مخالف ھی ھو) لیکن آیة اللہ سیستانی اس کوقبول نھیں کرتے ۔ بلکہ وہ مذھب اور اس کے قوانین کو دوسرے مذاھب سے زیادہ لائق احترام و ضروری سمجھتے ہیں جیسے یہ قاعدہ "لکل قوم نکاح" یعنی ھرمذہب میں نکاح اورشادی کی اپنی مخصوص رسمیں ھوتی ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh