www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

748822
روزہ بھی اسلام کے دیگر احکام کی طرح کسی حکمت اور مصلحت کے تحت واجب کیا گیا ہے۔ متعدد روایات کے اندر مختلف تعبیرات میں روزہ کی حکمت اور مصلحت کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: اخلاص اور خود سازی
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
’’ فرض الله الصیام تثبیتاً للاخلاص‘‘(۱)
خدا وند عالم نے روزہ کو واجب قرار دیا ہے تاکہ اخلاص کو ثابت کرے۔
روزہ دار نفسانی خواھشات سے پرھیز کرتے ھوئے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور عالم ملکوت سے معنوی رشتہ برقرار کرتا ہے اور حیوانی کاموں کو ترک کر کے اپنے اندر پاگیزگی اور طھارت پیدا کرتا ہے۔
اسی طریقے سے جسمانی اور مادی لذات سے دوری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مادی اور روحانی حرام لذتوں سے بھی دور رھتا ہے اور چونکہ روزہ ایسی عبادت ہے جو بظاھر نہ دیکھنے کی وجہ سے بھت کم ریاکاری اور دکھاوے کا شکار ھوتی ہے لھذا اس عمل میں زیادہ اخلاص پائے جانے کا امکان ہے۔
ب: جسمانی قوتوں کو متعادل کرنا
انسانی بدن کی مشینریاں پورا سال کام کرنے سے سست، کمزور اور بیماری کا شکار ھو جاتی ہیں۔ ان کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو انھیں صدمہ پھنچ سکتا ہے۔ اس وجہ سے خدا وند حکیم نے اپنے بندے کی صحت و سلامتی کی حفاظت کے لیے اور اس کے جسمانی قواہ کو متعادل رکھنے کے لیے روزہ کو واجب قرار دیا۔ رسول اسلام [ص] کی یہ حکمت آمیز حدیث اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے:
’’ صوموا تصحوا‘‘(۲)
روزہ رکھو صحت پاو۔
ج: حصول تقوی کی مشق
روزہ رکھنے کی تیسری حکمت تقوی اور پرھیزگاری کی مشق کرنا ہے مسلمان ماہ مبارک میں خواھشات نفسانی کو پورا نہ کر کے اپنے نفس پر قابو پانے کی مشق کرتے ہیں تاکہ پورا سال اس کی نامناسب خواھشات کے مقابلہ میں مقاومت کر سکیں۔ مثال کے طور پر روزہ دار حلال غذا کا استعمال نہ کر کے یہ مشق کرتا ہے کہ اگر نفس حرام غذا کی طرف ھاتھ بڑھائے تو اسے منع کر سکے۔ اپنی بیوی کے پاس نہ جا کر یہ مشق کرتا ہے کہ دوسروں کی ناموس کی طرف لذت کی نگاہ کرنے سے نفس کو بچا سکے۔ خدا اور اس کے رسول [ص] پر جھوٹ باندھنے سے پرھیز کر کے بدکلامی، غیبت، تھمت اور دیگر فضولیات سے اپنی زبان کو پاک رکھ سکتا ہے۔
تقوی کی مشق اور اس کے درجات میں اضافہ کے مسئلہ کی طرف قرآن کریم کی "آیت روزہ" میں واضح طور پر اشارہ کیا گیا ہے:
’’ لعلکم تتقون ‘‘ (۳)
شاید آپ تقوی اختیار کر لیں۔
د: فقراء اور اغنیا میں فاصلہ کا کم ھونا
بھوک اور پیاس کا احساس بھی روزہ کی ایک حکمت ہے یعنی مالدار لوگ پورا سال ناز و نعمت میں غرق رھتے ہیں اور جب بھی جس چیز کی خواھش کرتے ہیں ان کے پاس حاضر ھوتی ہے اگر ماہ رمضان نہ ھو تو انھیں کبھی بھی کسی فقیر کی یاد نہ آئے۔ وہ کھاں سے سمجھیں گے کہ بھوک کیا ھوتی ہے پیاس کسے کھتے ہیں؟ وہ جب ایک مھینہ بھوک اور پیاس کا احساس کریں گے تو انھیں فقیروں کی سال بھر کی بھوک اور پیاس کا احساس ھو گا۔ اور کسی حد تک وہ ان کے حال پر رحم کھائیں گے۔ امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: کیوں خدا نے روزہ واجب کیا ہے۔ فرمایا:
’’ لیجد الغنی مس الجوع فیعود بالفضل علی المسکین‘‘(۴)
تاکہ مالدار بھوک کا احساس کرے اپنی ضرورت سے زیادہ کو مسکین کی طرف لوٹائے۔
ھ: آخرت کی یاد
روزہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے امام رضا علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں اس سوال کے جواب میں کہ کیوں خداوند عالم نے روزہ کو واجب قرار دیا، فرمایا:
’’ لکی یعرفوا ألم الجوع و العطش فیستدلوا علی فقر الاخره ‘‘(۵)
تاکہ لوگ بھوک اور پیاس کے درد کو پھچانیں اور اس سے آخرت کی بھوک اور پیاس پر رھنمائی حاصل کریں۔
پیغمبر اکرم – صلی الله علیہ و آلہ وسلم – نے اپنے ایک خطبہ میں جو ماہ مبارک رمضان کے استقبال میں پیش کیا فرمایا:
’’۔۔۔۔ واذکروا بجوعکم وعطشکم فیه جوع یوم القیمه و عطشه ...‘‘(۶)
اس مھینہ میں تم اپنی بھوک اور پیاس کے احساس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔۔۔۔
حوالہ :
۱۔ بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحہ۳۶۸۔
۲۔ بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحہ ۲۵۵۔
۳۔ سورہ بقره (۲) ، آیہ ۱۸۳۔
۴۔ بحارالانوار ، ج ۹۶ ، صفحہ ۳۷۵۔
۵۔ بحارالانوار ، ج ۹۶، صفحہ ۳۹۶ ۔
۶۔ بحارالانوار ، ج ۹۶، صفحہ ۳۵۶۔

Add comment


Security code
Refresh