www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

305224
رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کو راہ نجات دکھا کر اسے جینے کا سلیقہ سکھایا۔ مبعوث بہ رسالت ھونے سے پہلے بھی حیات اقدس کا ایک ایک سانس انسانیت کی بقاء اور نظام الھیٰ کے قیام کے لیے وقف کر دیا اور جب آپ مبعوث بہ رسالت ھوئے تو مشن الھیٰ میں ایک نئی جھت پیدا کرکے اس مشن کو کھٹن اور مشکل حالات کے بیچ پایہ تکمیل تک پھنچایا۔ کفار و مشرکین کی جانب سے ذھنی و جسمانی اذیتوں کا جھال بچھایا گیا، لیکن آپ نے پامردی اور بھادری کے ساتھ سامنا کرکے مقصد رسالت حاصل کیا۔ دنیا میں روایت رھی ہے کہ کوئی بھی کام انجام دینے کے بعد اس کا اجر لیا جاتا ہے، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول گرامی اسلام کو اس عظیم الشان کام (لوگوں کی ھدایت و رھبری) کے لیے رسول اسلام (ص) سے مخاطب ھوکر فرما "اے رسول کہہ دیجئے کہ مجھے اجر رسالت نہیں چاھیئے، سوائے قرابت داروں سے محبت" صاف لفظوں میں یوں کہا جائے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھم سے محبت اھلبیت کا تقاضا کیا ہے، قرآن و سنت کے رو سے اھل بیت علیھم السلام سے محبت و الفت رکھنا ھمارا فرض ہے، کیونکہ ھم اجر رسالت کے مقروض ہیں۔
پس اگر ہم نے اس فریضہ سے منہ موڑ لیا، گویا ہم نے قرآن و سنت سے صاف انکار کر دیا۔ لھذا کسی بھی طرح سے مسلمان کا حق نھیں بنتا کہ اپنے آپ کو مسلمان کہے اور امت محمدی (ص) کا دم بھرے، لیکن محبت اھلبیت سے روگردانی اختیار کرے۔
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلمان ھونے کے دعویداروں نے اھلبیت رسول (ص) کے ساتھ کیسا دل دلسوز اور بدترین سلوک کیا۔ نادان مسلمانوں نے ان عظیم الشان الہیٰ ھستیوں کی قدر و منزلت کتنی کی، کتنی محبت و عقیدت کا اظھار کیا۔ ہاں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعد از وفات بھی ان عظیم الشان ھستیوں کے ساتھ عداوت، حسد، کینہ اور بغض کا سلسلہ تمام نھیں کیا۔
8 شوال 1345 ھجری کا وہ تاریک اور بدنصیب دن اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امت اسلامیہ کی صف میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر ایک گروہ جو ابوجھل اور یزید ملعون جیسے بدترین، ظالم و فاسق افراد کا کردار آج بھی نبھا رھا ہے۔ ان حالات میں عالم اسلام کے ذمہ داروں اور نام نہاد ٹھیکہ داروں کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا، خاموش رھنا اور ان ملعون، شیطان اور درندہ صفت افراد کو بھرپور تعاون دینا مسلمانی کی دعویداری کا پول کھولتا ہے اور منافقت کا پردہ فاش کرتا ہے۔
تاریخی شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ صدر اسلام کے عھد میں جنت البقیع مسلمانوں کا ایک اھم اور مقدس مقام شمار ھوتا تھا۔ یہ وہ عظیم المرتبت قطعہ اراضی تھی، جھاں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے آباء و اجداد، اھلبیت الطاھرین، امھات المومنین، صحابہ، تابعین، علماء اور محدثین کی ایک کثیر تعداد مدفون ہیں۔
جنت البقیع مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی مشرقی سمت واقع ہے، پہلی صدی ھجری سے یہاں مسلمان اپنی اموات کو دفن کرتے آئے ہیں، یہ جگہ خود رسول اسلام نے منتخب کی ہے۔ اھل تشیع کے علاوہ اھل تسنن کی تاریخی کتابوں میں بھی اس مقدس مقام کی قدر و منزلت بیان ھوئی ہے۔
شیعہ و سنی مورخین کا اس روایت پر اتفاق ہے کہ رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شب جمعہ بقیع جا کر وہاں مدفون افراد کے لیے دعا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں اور بھی بہت ساری روایات موجود ہیں۔
1205 ھ تاریخ کا وہ بدترین دور تھا، جب سرزمین حجاز پر ایک ایسا ٹولہ نمودار ھوا، جنھوں نے توحید کے نام پر اھلبیت اطھار و اولیائے کرام کی دشمنی کا بیچ بویا۔ شرک و بدعت کی آڑ میں اھلبیت طاھرین اور اولیائے کرام کے حرموں کو منھدم کیا۔ نہ صرف منھدم کیا بلکہ اس کو اپنے نرغے میں لے کر وھاں فاتحہ پڑھنے، دعا و استغفار پر بھی روک لگا دی۔ بوکھلائے ھوئے اس ٹولے نے 1217ھ میں طائف پر چڑھائی کی اور 1220ھ میں مدینہ پر حملہ کرکے روضہ رسول (ص) کو مسمار کرنے کی کوشش کی۔ سلطنت عثمانی کے سلطان محمود دوم نے مصری گورنر محمد علی پاشاہ کو یہ ٹولہ نابود کرنے کا حکم دیا، علی پاشاہ نے اس ٹولے کو 1222ھ میں نابود کیا، جس کے بعد مسمار شدہ آثار کو دوبارہ تعمیر کروایا گیا۔
ان درندوں نے ایک مرتبہ پھر اس سرزمین پر سر نکال کر مزار اقدس کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ متعدد بار حملے کیے، لیکن 8 شوال 1345ھ کا وہ غمناک اور سیاہ ترین دن جب ایک مرتبہ پھر اس دھشتگرد ٹولے نے جنت البقیع پر بزدلانہ حملہ کرکے ائمہ اطھار کے روضہ اقدس کو مکمل طور مسمار کر دیا۔
8 شوال کا یہ دن دھشتگردی کا بدترین دن تھا۔ اس دن دھشتگردوں نے رسول اسلام (ص) اور آل رسول کے ساتھ کھل کر عدوات، حسد اور دشمنی کا اظھار کیا۔ دھشتگردوں کا یہ اقدام درواقع قرآن و سنت کا صاف انکار تھا اور یہ بزدلانہ حملہ جنگ خندق، احد، بدر، حنین، جمل اور جنگ خیبر وغیرہ کے بدلہ کی عکاسی کر رھا تھا۔ دھشتگردوں کی رگوں میں ان کفار و مشرکین کے خون نے چکر کھایا، جن کفار و مشرکین کو رسول اسلام (ص) اور مولائے کائنات نے ایک ایک کرکے حساب لے کر واصل نار کیا تھا۔
انھدام جنت البقیع کے پیچھے ایک لمبی داستان کارفرما ہے، اس کارروائی کے ماسٹر مائنڈ کو دشمنی اگر تھی تو وہ صرف اور صرف خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزھرا (س) کے گھرانے سے تھی۔ حاسدوں نے خانوادہ اھلبیت کے ساتھ بے انتھا حسد کیا، جب جی نھیں بھرا تو بے دردی کے ساتھ جنت البقیع کو منھدم کر دیا۔
افسوس صد افسوس کہ اس ظالم و جابر ٹولے نے جو بھی کیا، اسلام کے نام پر کیا۔ توحید کے نام پر نعرہ تکبیر کے ساتھ کیا اور ملت اسلامیہ کے ٹھیکہ داروں نے اپنی بدنصیب آنکھوں سے اس ظلم و بربریت کا نظارہ کیا۔ کسی نے آہ تک نہ کی۔ خادم الحرمین الشرفین کے لمبے چوڑے القاب والے ٹھیکہ داروں نے پچاسی سالوں میں خاتون جنت لخت جگر رسول اکرم (ص) کے مرقد اطھر پر چراغ تک نہ جلانے دیا۔
غور طلب بات ہے کہ پچاسی سال مکمل ھونے کے بعد بھی جنت البقیع پر حرم مطھر تعمیر نہ ھوسکا۔ مسلمانوں کی غیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرزمین وحی پر عالیشان مندر تعمیر کیے گئے، لیکن رسول اسلام کی بیٹی، رسول کا نواسہ کھلے آسمان تلے، مسلمانوں کی بے غیرتی اور ظالمانہ رویہ پر افسوس کا اظھار کر رھے ہیں۔ اگر وائٹ ھاوس پر حملہ ھو رھا ہے تو ان بے غیرت مسلمانوں کو برداشت نھیں ھو رھا ہے، اس موقعہ پر شیطان بزرگ کے ساتھ ھمدردی و یکجھتی کا اظھار کر رھے ہیں، لیکن جنت البقیع کی ویرانی پر خوش و خرم نظر آرھے ہیں۔ آج سے چند سال قبل مشرق وسطیٰ میں داعش نامی دھشتگرد تنظیم کا وجود عمل میں لایا گیا، یہ 8 ربیع الاول 1345ھ کی دھشتگردی کی ایک کڑی ہے۔ بدنام زمانہ داعش عراق و شام میں انھدام جنت البقیع کی روایت دھرانے کے لیے بنائی گئی تھی۔
اس کا واضح ثبوت حضرت حجر بن عدی ہے، جن کا مرقد مسمار کرکے ان لعینوں نے صحابی رسول کو قبر سے نکالا۔ اسی طرح دیگر مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی گئی۔ لیکن ایران، عراق اور شام کی سرزمینیں، سرزمین سعودی نہیں تھی، یہاں اسلام کے جانباز سپاھیوں نے انہیں چن چن کر ڈھیر کر دیا اور ناپاک عزائم رکھنے والے اس گروہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر صفایا کر دیا۔ عزیزان محترم یوم انھدام جنت البقیع کوئی معمولی واقعہ نہیں، بلکہ اس دن دھشتگردوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب کو مجروح کر دیا۔ رسول کی لخت جگر، رسول کا نواسہ اور دیگر ائمہ اطھار کھلے آسمان تلے صدائے استغاثہ بلند کر رھے ہیں۔ اس دن تمام فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ھونے کی ضرورت ہے اور متحد ھوکر جنت البقیع پر حرم تعمیر کرنے لیے مطالبہ کرنا ہے، اس کے لیے عالمی سطح پر ریفرنڈم کروانے کی ضرورت ہے اور آل سعود پر دباؤ ڈال کر عالیشان حرم تعمیر کروانا ہے۔ "نصر من اللہ و فتح قریب"
تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی

Add comment


Security code
Refresh