www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

804733
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واقعہ اھل ایمان کی دیرینہ آرزو تھی۔ قرآن کریم میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کا یہ جملہ نقل ھوا ہے: "رَبَّنا وَ ابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ" (سورہ بقرہ، آیت 129)۔ معروف عالم دین اور مفسر قرآن کریم علامہ طباطبائی ﴿رح﴾ فرماتے ہیں کہ اس دعا سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی مراد پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت تھی جیسا کہ خود پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "میں ابراھیم (ع) کی دعا کا نتیجہ ھوں" (تفسیر المیزان، جلد 1، صفحہ 432)۔
بعثت سے پہلے بھی جب مشرکین عرب یھودیوں سے لڑائی کرتے اور انھیں اذیت و آزار پھنچاتے تو یھودی انھیں خبردار کرتے ھوئے کھتے تھے: جب ھمارا وہ نبی مبعوث ھو گا جس کی بشارت توریت میں دی گئی ہے اور اسی توریت کے بقول وہ مدینہ کی طرف ھجرت کرے گا تو ھمیں اس ذلت اور آپ عربوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے گا۔" قرآن کریم یھودیوں کے اس عمل کی جانب اشارہ کرتے ھوئے فرماتا ہے: "وَ کانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ کَفَرُوا" [اور اس سے پہلے تم خود کافروں پر فتح کی نوید دلاتے تھے کہ اس کی مدد سے دشمنوں پر غلبہ پاو گے] (سورہ بقرہ، آیت 89)۔
بعثت، ایک عالمی سطح کا پیغام
قرآن کریم نے ھرگز حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے "پیغمبر اسلام" کا لفظ استعمال نھیں کیا بلکہ انھیں "رسول اللہ" کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ھوتا ہے: "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ" (سورہ فتح، آیت 29)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت محمد (ص) تمام بنی نوع انسان کیلئے مبعوث ھوئے ہیں۔ خداوند متعال فرماتا ہے: "وَما أَرْسَلْناکَ إِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاس‏" [اور ہم نے تمھیں نبی بنا کر نھیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے] (سورہ سبا، آیت 28)۔ نبی مکرم حضرت محمد (ص) کی بعثت کا مقصد تمام قومی اور لسانی محدودیتوں کو ختم کر کے انسانوں کی روح میں تقوی کا نور ڈالنا تھا۔
جیسا کہ خود پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "بُعِثْتُ‏ إِلَى‏ الْأَحْمَرِ وَ الْأَسْوَدِ" [میں سیاہ اور سفید کیلئے مبعوث کیا گیا ھوں] (تفسیر نورالثقلین، جلد 4، صفحہ 336)۔ حضرت محمد مصطفی (ص) کی بعثت اور دیگر انبیاء کی بعثت میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ انبیاء صرف اپنی قوموں کیلئے بھیجے گئے تھے جبکہ حضرت محمد (ص) تمام دنیا کے انسانوں کیلئے مبعوث ھوئے ہیں۔
بعثت، خودشناسی اور منافقت سے مقابلے کا پیغام
انبیاء الھی کی اھم ترین ذمہ داری جھالت اور منافقت کا خاتمہ تھا۔ جیسا کہ خود نبی اکرم (ص) نے مبعوث ھوتے ھی منافقت اور فریبکاری کا پردہ چاک کرتے ھوئے نجات دھندہ کے جھوٹے منتظرین کا حقیقی چھرہ برملا کر ڈالا۔ "وَ کانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا کَفَرُوا بِه" [۔۔۔۔۔۔جب ان کے پاس یہ کتاب اور پیغمبر، جسے وہ پہلے سے اچھی طرح جانتے تھے، آئے تو اس کے منکر ھو گئے] (سورہ بقرہ، آیت 89)۔ لفظ "کانو" سے ظاھر ھوتا ہے کہ مدینہ میں آباد یھودی آنحضور (ص) کی مدینہ ھجرت سے بھت عرصہ پہلے سے مسلسل یہ آرزو کیا کرتے تھے اور ان کا یہ اقدام تمام عرب مشرکین میں مشھور ھو چکا تھا لیکن جیسے ھی پیغمبر اکرم (ص) مبعوث ھوئے اور مدینہ ھجرت کی تو انھوں نے آپ (ص) کی نبوت کا انکار کر دیا۔ (تفسیر المیزان، جلد 1، صفحہ 334)۔
درحقیقت بعثت تمام ایسے افراد کیلئے ایک عظیم درس ہے جو منجی عالم بشریت امام مھدی (عج) کے ظھور کا انتظار کر رھے ہیں۔ بعثت ایک ایسی کلاس ہے جھاں سے ھمیں خودشناسی کا سبق ملتا ہے۔ ھم خود کو پھچان کر ھی حقیقی کمال اور سعادت تک پھنچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ مولائے متقیان امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "یُثِیرُوا لَهُمْ‏ دَفَائِن العُقولِ" [خداوند متعال نے مسلسل انبیاء کو بھیجا تاکہ انسانی عقل میں چھپے ھوئے خزانے آشکار کر سکیں۔" (نھج البلاغہ، خطبہ 1)۔
بعثت، قوموں کی اتحاد کی جانب واپسی
آیات قرآن کریم کی روشنی میں انبیاء مبعوث ھونے سے پہلے تمام انسان ایک قوم تھے لیکن مستکبرین کی جانب سے ھر چیز پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ظلم و ستم کے باعث انسانوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ھو گیا اور وہ کئی قوموں میں بٹ گئے۔ لھذا خداوند متعال نے انبیاء کو بھیجا تاکہ وہ انسانوں میں دوبارہ اتحاد اور وحدت پیدا کر سکیں۔ ارشاد خداوندی ہے: "کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ" (سورہ بقرہ، آیت 213)۔ لھذا انبیاء کے اھداف میں سے ایک ھدف تمام انسانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت ایجاد کرنا ہے۔ وہ انسانوں کو شیطانی اوھام اور خیالات سے نجات دلا کر انھیں آب حیات تک پھنچانے آئے ہیں۔ ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) بھی اتحاد بین المسلمین کو بہت زیادہ اھمیت دیتے تھے۔ لھذا ھم پر بھی واجب ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت اور بھائی چارہ قائم کریں۔
جیسا کہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای فرماتے ہیں: "شیعہ اور سنی مسلمانوں کو آپس میں متحد رھنا چاھئے کیونکہ جب بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ھو گا اسلام دشمن عناصر ان پر غالب آ جائیں گے۔"
خدا ان شاءاللہ ھمیں ایسا دن دکھائے جب تمام مسلمان رسول اکرم (ص) کے مقدس نام اور اسلام کے پرچم تلے بھائی چارے اور محبت سے مل کر رھیں اور کسی کو اس کے عقائد کی بنیاد پر کافر قرار دے کر امت مسلمہ سے دور نہ کیا جائے۔
تحریر: حجت الاسلام والمسلمین محمد حسین مختاری

Add comment


Security code
Refresh