www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

120774
اسلامی جمھوریہ ایران کے وزیر تعلیم، کوگنیٹیو سائنس ریسرچ سینٹر کے اراکین، سائنسدانوں، محققین اور ممتاز اسکالروں نے رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ھم نے اس ملاقات کے تناظر میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد علمی بنیادوں پر ھونے والی پیشرفت پر اجمالی نگاہ ڈالی ہے، اس ترقی کو اعداد و شمار میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
رھبر انقلاب اسلامی نے کوگنیٹیو سائنس ریسرچ سینٹر کے اراکین، سائنسدانوں، محققین اور ممتاز اسکالروں سے خطاب میں مختلف سائنسی میدانوں بالخصوص علم طب، اقتصاد اور معاشرتی علوم پر کوگنیٹیو سائنس کے اثرات کا ذکر کیا اور ان علوم میں زیادہ سے زیادہ پیشرفت و ترقی کے لئے بغیر کسی توقف کے دن رات کوششیں جاری رکھنے کی تاکید کی۔ رھبر انقلاب اسلامی نے کھا کہ ملک کی سائنسی ترقی کی رفتار میں توقف یا سستی نھیں آنی چاھیئے۔
انھوں نے کھا کہ گذشتہ بیس سال میں ملک میں سائنسی ترقی و پیشرفت کی رفتار اطمینان بخش رھی ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کھا کہ ایران میں تیز رفتار علمی اور سائنسی ترقی کا یہ عمل آئندہ بیس سے تیس برسوں بلکہ طویل عرصے تک جاری رھنا اور ترقی کی اس رفتار کی تقویت ھونی چاھیئے۔ ان کا مزید کھنا تھا کہ اس رفتار میں سست روی نھیں آنی چاھیئے بلکہ خدا پر توکل اور اس کی نصرت پر اعتماد کرتے ھوئے خلوص نیت کے ساتھ علمی و سائنسی ترقی کی رفتار بڑھانے کی کوشش کرنی چاھیئے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی گذشتہ چالیس سالہ کارکردگی میں علم و ٹیکنالوجی میں سامنے آنے والی ترقی و پیشرفت نھایت اھمیت کی حامل ہے، کیونکہ انقلاب اسلامی سے پھلے ایران سائنس و ٹیکنالوجی میں دوسرے ممالک سے بھت پیچھے تھا اور اسے دوسرں کی علمی پیشرفت پر ھی بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ علمی میدان میں پسماندگی کی یہ ثقافت اھل ایران کے لیے ایک تکلیف دہ طعنے سے کم نہ تھی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی ایک نئی ثقافت نے جنم لیا اور یوں اس شعبے میں بھی ایک علمی انقلاب وقوع پذیر ھوا۔
گذشتہ چند برسوں میں تو رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے علمی ترقی کو ایک نصب العین قرار دیتے ھوئے soft power اور علمی جھاد کو نئی نسل کے لئے ضروری قرار دیتے ھوئے اس پر بھرپور توجہ دی نیز اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کا عزم بالجزم کیا۔ انقلاب کے بعد کی علمی ترقی کا انقلاب سے پھلے کے دور سے موازنہ کیا جائے تو انسان حیران و پریشان ھو جاتا ہے۔
انقلاب سے پھلے بڑی عمر کے افراد میں ناخواندگی کی شرح 70 فی صد تھی، صرف 40 فی صد ایرانی بچے اسکولوں تک پھنچ پاتے تھے اور اس وقت خواندگی کی شرح 100 فی صد کے قریب ہے۔ تعلیم بالغان کے ادارے نے ناخواندگی کو ختم کرنے کے لئے انقلابی اقدامات انجام دیئے ہیں۔ تعلیم بالغان کے ادارے نے نہ صرف بڑی عمر کے افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا بلکہ ان کو پیشہ وارانہ تربیت دے کر مختلف شعبوں میں ماھر بنا دیا ہے۔ اس اقدام نے ان پڑھ افراد کو بھی ایک مفید شھری میں تبدیل کر دیا ہے۔
انقلاب سے پھلے اسکولوں کی تعداد 4700 تھی، جبکہ اس وقت ایک لاکھ اسکول ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رھے ہیں۔ اسلامی انقلاب سے پھلے یونیورسٹی طلباء کی تعداد ایک لاکھ چون ھزار تھی اور یونیورسٹیاں بھی چند بڑے شھروں تک محدود تھیں۔ اس وقت ملک بھر میں 119 یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز ملک کے کونے کونے میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رھے ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے علاوہ 550 پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور پیام نور کے نام سے 550 اوپن یونیورسٹیاں بھی علمی خدمات انجام دے رھی ہیں۔
اس کے علاوہ آزاد اسلامی یونیورسٹیز کے نام سے ملک بھر کے مختلف حصوں میں 385 ادارے کام کر رھے ہیں۔ 274 ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ و کالج بھی مختلف شعبوں میں اپنی تعلیمی خدمات انجام دے رھے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں 45 لاکھ یونیورسٹی طلباء تعلیم حاصل کر رھے ہیں۔ انقلاب سے پھلے کی صورت حال سے موازنہ کیا جائے تو طلباء کی تعداد میں 29 گنا اضافہ ھوا ہے۔ 1979ء میں مختلف شعبہ جات میں 396 تعلیمی ادارے تھے جبکہ اس وقت یہ تعداد مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تین ھزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
معروف عالمی ادارے "سایمگو" یعنی Scimgo Journal and country Rank نامی ادارے کی 1996ء سے 2015ء تک رپورٹ کے مطابق سائنس و ٹیکنالوجی میں ایران، دنیا میں 53 ویں نمبر سے 16 ویں نمبر پر آگیا ہے۔
ایٹمی انرجی کے شعبے میں 83 ویں نمبر سے 11 نمبر پر آگیا ہے
نانو ٹیکنالوجی میں 57 سے 16 ویں نمبر پر آگیا ہے
بائیو ٹیکنالوجی میں 56 سے 14 ویں نمبر پر آگیا ہے
ائیر و اسپیس میں 43 سے 11 ویں نمبر پر آگیا ہے
میڈیکل کے شعبے میں 54 سے 19 ویں نمبر پر آگیا ہے
کیمسٹری میں 48 سے 11 ویں نمبر پر آگیا ہے۔
اسلامی جمھوریہ ایران 2017ء میں نئی ایجادات کرنے والے 25 ممالک میں سے پھلے نمبر پر آیا ہے اور اس کی ترقی کی شرح 8.9 فی صد تھی۔ مختلف علمی موضوعات پر تحقیقی مقالات اور علمی پیپرز لکھنے کے حوالے سے سایمگو نے 2017ء میں جو رپورٹ پیش کی تھی، اس میں فزکس اور اسٹرانومی میں ایران مغربی ایشیا میں اول اور دنیا میں تیرھویں نمبر پر آیا ہے۔
ایران گذشتہ بیس سالوں میں سات اسلامی ملکوں میں نئی سائنسی ایجادات کے حوالے سے سرفھرست رھا ہے، ان سات اسلامی ملکوں کا دنیا کے پچاس اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں میں سے انتخاب کیا گیا تھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کے بیس ممالک میں ایران کا 16 واں نمبر ہے۔ مختلف علمی مقالات، سائنس و ٹیکنالوجی میں ایجادات اور جدید تھیوریز پیش کرنے کے حوالے سے ایران نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ایران کے ریسرچ اسکالرز گذشتہ بیس سالوں میں انقلاب سے پھلے کی علمی پیشرفت کے مقابلہ میں 50 گنا زیادہ تحقیقی کام اور ریسرچ جرنلز میں اپنے مقالات شائع کروا چکے ہیں۔ نیچر انڈکس نامی معروف انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے گذشتہ عشرے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقی میدان میں 22 فی صد سالانہ ترقی کی شرح سے دنیا کے مختلف ممالک میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے۔ انجینرنگ کے شعبے میں ایران کی علمی پیشرفت دوسرے تمام ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ ایران نے سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید شعبہ جات من جملہ بائیو، نانو، ریکور ایبل انرجی، ائیرو اسپیس، مائیکرو الیکٹرانک اور اسٹیم سیلز میں قابل ستائش ترقی کی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود نانو ٹیکنالوجی کے حوالے سے 5۔7 فیصد سائنسی تحقیقات ایران کے پاس ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی ایت اللہ سید علی خامنہ ای نانو ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی و پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں کہ بعض علوم مثلاً نانو ٹیکنالوجی جو جدید سائنسی علوم میں شامل ہے، دنیا میں کسی نے بھی ھماری مدد نھیں کی ہے اور نہ کر رھے ہیں اور آئندہ بھی نھیں کریں گے۔ ھم اس میں بھت آگے ہیں۔ ھمارے نوجوان سائنس دان، محققین اور ریسرچ اسکالر اس شعبے میں کام کر رھے ہیں۔ یہ محنت کر رھے ہیں، مشقت کر رھے ہیں اور انھوں نے قابل ذکر ترقی و پیشترفت کی ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی مزید فرماتے ہیں کہ بدقسمتی سے سائنس و ٹیکنالوجی میں ھمارے ملک کا ماضی درخشاں نھیں ہے، ھم دوسروں سے بھت پیچھے تھے، غیروں کے تسلط کے دور میں ایران سائنس و ٹیکنالوجی کے قافلے سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس پسماندگی کا ازالہ ھونا چاھیئے۔ ھمیں موجودہ ترقی پر قانع نھیں ھونا چاھیئے۔ ھمیں مطلوبہ ھدف تک پھنچنے میں مزید محنت و کوشش کی ضرورت ہے۔
ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے 2017ء کے او آئی سی کے سربراھی اجلاس میں نالج بیسڈ کمپنیوں کی ترقی و پیشرفت کے بارے میں کھا تھا کہ ایران میں جدید اور متوسط ٹیکنالوجی کے نتیجے میں بننے والی مصنوعات کی برآمد میں 1۔5 ارب ڈالر سے 12۔1 ارب ڈالر اضافہ ھوا ہے۔
ایک اور شعبہ جس میں ایران کی ترقی و پیشرفت قابل ذکر ہے، وہ سیٹلائٹ کے شعبے میں ایرانی سائنس دانوں کی روز افزوں کامیابیاں ہیں۔ ایران کے ائیرو اسپیس شعبے کے سربراہ مرتضیٰ براری کا کھنا ہے کہ ایران دنیا کے ان نو ملکوں میں شامل ہے، جو سیٹلائیٹ کے شعبے میں خود کفیل ہیں اور وہ سٹلائیٹ کا مکمل سرکل اور سائیکل خود بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحقیقاتی سیٹلائیٹ سے لیکر فضا میں بھیجے جانے والے سیٹلائیٹ کی تیاری اور لانچنگ کی تمام تر ٹیکنالوجی ایران کے مقامی سائنس دانوں کی مرھون منت ہے اور ایران سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی میں خود کفالت کے درجے پر فائز ہے۔
ایران اسلامی انقلاب کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے اس درجے پر پھنچا ہے کہ اب وہ سیٹلائٹ بنانے اور بھیجنے والے ممالک کے کلب میں شامل ھوچکا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا کے محدود ممالک کے پاس ہے جبکہ ایران اپنے چند سیٹلائیٹ فضا میں روانہ کرچکا ہے اور ایران کے بنے ھوئے یہ سیٹلائیٹ زمیں کے مدار میں موجود نھایت اھم ڈیٹا بھی روانہ کر رھے ہیں۔
ایران ائیر اسپیس کے کلب میں شامل پانچ نئے ملکوں میں سے ایک ہے۔ سیٹلائیٹ کے شعبے میں خود کفالت کی اھمیت اس لیے بھی اھم ہے کہ آج کی جدید دنیا میں سیٹلائٹ وسیع معلومات کا منبع ہے، لھذا اسے انسانیت کی تیسری آنکھ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جو ممالک اس ٹیکنالوجی سے محروم ہیں، انھیں "اندھے ممالک" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ایران زندہ مخلوقات کو بھی فضا میں روانہ کرچکا ہے۔ اسی طرح ان سیٹلائیٹ سے نہ صرف متعلقہ تصاویر اور ڈیٹا وصول کر رھا ہے بلکہ فضائی معلومات کے حصول کے لئے ایک باقاعدہ اسپیس اسٹیشن بھی قائم کرنے میں کامیاب ھوچکا ہے۔
عالم اسلام سے متعلق مکتوب علوم کے مرکز (Islamic World Science Citation Database) "آئی ایس سی" کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمھوریہ ایران نے علمی میدان میں معیاری کام کی بدولت پھلا مقام حاصل کر لیا ہے۔ عالم اسلام سے متعلق علمی مرکز "آئی ایس سی" کے سربراہ "محمد جواد دھقانی" نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ "آئی ایس سی" کے معیار پر پورے اترنے والے علمی مقالے اس مرکز کو موصول ھونے والے بھترین مضامین کا صرف ایک فیصد شمار ھوتے ہیں کہ جس کی شرح نمو ایران میں انیس فیصد تھی، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ان کا کھنا تھا کہ سنہ دو ھزار پندرہ میں "آئی ایس سی" کو ایران سے موصول ھونے والے علمی مقالے تعداد کے لحاظ سے دو ھزار چودہ کی نسبت آٹھ فیصد زیادہ تھے، جس کے پیش نظر ایران عالمی سطح پر تیسرے مقام پر تھا۔
عالم اسلام سے متعلق علمی مرکز (Islamic World Science Citation Database) "آئی ایس سی" کے سربراہ "محمد جواد دھقانی" نے بتایا کہ ان کا ادارہ ایران اور دیگر اسلامی ملکوں میں کام کر رھا ہے اور اس حوالے سے علاقے کے دیگر ملکوں اور اسلامی ممالک خصوصاً ملیشیا، پاکستان، عراق، افغانستان اور عمان کے ساتھ تعاون ھماری ترجیحات میں شامل ہے۔

رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای صرف ایران میں علمی پیشرفت پر تاکید نھیں فرماتے بلکہ آپ نے کئی موقعوں پر عالم اسلام کے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مسلمانوں کو سب سے آگے ھونا چاھیئے، اسی حوالے سے گذشتہ سال مئی میں ایک وفد سے خطاب کرتے ھوئے رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ عالم اسلام میں علمی تحریک کو مھمیز دینے اور امت مسلمہ کو دوبارہ علمی اور تھذیبی طاقت بننے کی ضرورت ہے، تاکہ دشمنان اسلام اور امریکی حکام اسلامی ملکوں کے سربراھوں کو ڈکٹیٹ نہ کرسکیں کہ انھیں کیا کرنا اور کیا نھیں کرنا چاھیئے۔
رھبر معظم اسلامی نے عالم اسلام کے درمیان اتحاد و یکجھتی اور تمام علوم میں پیشرفت کی سنجیدہ تحریک کے آغاز کو وقت کی اھم ترین ضرورت قرار دیا۔ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج عالم اسلام میں بیداری پیدا ھوگئی ہے اور مغرب کی جانب سے اسے جھٹلانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ بیداری، اسلام کی جانب رجحان میں اضافے کا راستہ ھموار اور تابناک مستقبل کی نوید دے رھی ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے علمی پسماندگی کو عالم اسلام پر بیرونی تسلط کی اھم ترین وجہ قرار دیتے ھوئے فرمایا، مغربی دنیا نے برسوں کی پسماندگی کے بعد عالم اسلام کی علمی ترقی و پیشرفت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے، اپنی دولت اور علمی، فوجی، سیاسی اور تشھیراتی طاقت میں اضافہ کیا اور آخر کار اپنی سامراجیت کے ذریعے اسلامی ملکوں کو موجودہ صورتحال سے دوچار کر دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اسلامی ملکوں کے خلاف مغربی طاقتوں کی منہ زوری اور بھت سے مسلم حکمرانوں کی جانب سے عالمی منہ زوروں کی تابعداری کی جانب اشارہ کرتے ھوئے فرمایا کہ ان حالات کو اسلامی ملکوں کی علمی پیشرفت کے ذریعے تبدیل اور عالم اسلام کو ایک بار پھر تھذیب انسانی کی چوٹیوں تک پھنچایا جاسکتا ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے ایران کی علمی پیشرفت کو ایک کامیاب نمونہ اور رول ماڈل قرار دیتے ھوئے فرمایا کہ ھم علم و دانش کی سرحدوں کو عبور کرنے تک اس راستے پر گامزن رھیں گے اور مغربی ملکوں کے برخلاف ایران اپنے علمی نتائج، تجربات اور ترقی کے فوائد دوسرے اسلامی ممالک کو منتقل کرنے لیے آمادہ ہے۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

Add comment


Security code
Refresh