www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

342860
ان دنوں فضائیں عطرِ یادِ مصطفیٰ سے معطر ہیں، ذکر نبیؐ رحمت کی محفلیں سجی ہیں، محبوب خدا کی محبت کے گیت گائے جا رھے ہیں، احمد مجتبیٰ کی ولادت باسعادت کے روز کی خوشی میں زمین و آسمان عاشقان مصطفیٰ کے ساتھ شریک ہیں اور درود و سلام کے زمزمے ھر طرف سنائی دے رھے ہیں۔ ان دنوں اللہ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ امت مصطفیٰ درود و سلام بھیجنے میں کچھ زیادہ ھی ھم آھنگ ھوگئی ہے اور ھونا بھی چاھیئے چونکہ پوری کائنات نبی کریم پر درود و سلام بھیجتی ہے۔
چنانچہ سنن ترمذی میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:"میں نبی اکرم﴿ص﴾ کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ھم مضافات شھر کی طرف نکلے تو جو بھی پھاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتا السلام علیک یا رسول اللہ کھتا۔" (حدیث ۶۲۶۳) نبی کریم﴿ص﴾ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ رحمت للعالمین ہیں، سارے جھانوں کے لئے رحمت ہیں، سارے زمانوں کے لئے رحمت ہیں، سب سرزمینوں کے لئے رحمت ہیں اور سب مخلوقات کے لئے رحمت ہیں۔
آپ کے بارے میں ارشاد الٰھی ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:۹۵۱)"یعنی یہ اللہ کی رحمت کا ایک مظھر ہے کہ آپ ان کے حق میں بھت نرم ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل ھوتے تو یہ آپ کے اردگرد سے چھٹ جاتے، پس آپ ان کی غلطیاں معاف کر دیں، بلکہ ان کے لئے اللہ سے مغفرت بھی طلب کریں، مزید یہ کہ انھیں مسائل میں شریک مشورہ بھی رکھیں۔"
اللہ تعالیٰ نے آپ کی سیرت اور روش حیات کو اسوہ حسنہ قرار دیا، یعنی خوبصورت نمونہ۔ یھاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حسن اور خوبصورتی انسانوں کو جذب کرتی ہے، جبکہ بدصورتی سے ھر انسان گریزاں ھوتا ہے۔ گویا آپ کے وجودِ ذیجود میں جاذبیت ھی جاذبیت ہے۔
آپ کے بارے میں قرآن حکیم ہی کا ارشاد گرامی ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ(القلم:۴) "اور بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں۔" آپ جیسے تھے، آپ کی خواھش تھی کہ آپ کے ماننے والے بھی اسی سانچے میں ڈھل جائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ ان کا اسوہ حسنہ اپنائیں، گویا یھی کھنا چاھا ہے کہ ان کے ماننے والے ان کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ اگرچہ یہ امر بھت عظیم ہے اور اس تک رسائی کسی کے بس میں نھیں، لیکن ھماری زندگی کے لئے رخ متعین کر دیا گیا ہے۔ ھمیں بھرحال انھی کے راستے پر چلنا ہے۔ اب یہ ھر کسی کی طلب، آرزو، استطاعت، کوشش اور توفیق پر منحصر ہے کہ کوئی آپ کی کس قدر قربت حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے: وَ قُو لُو ا لِلنَّاسِ حُسنًا(البقرہ:۳۸)"اور انسانوں سے خوبصورت پیرائے میں بات کرو۔"
جب کسی سے بحث و مجادلہ کی نوبت آئے تو بھی اچھے سے اچھا انداز اختیار کرو: وَ جَادِلھُم بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ(النحل:۵۲۱) بلکہ اس سے بھی بڑھ کر رحمن کے بندوں کی صفات بیان کرتے ھوئے فرمایا گیا ہے: الَّذِینَ یَمشُونَ عَلَی الاَرضِ ھونًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الجٰھلُونَ قَالُوا سَلٰمًا(الفرقان:۳۶)"یہ لوگ زمین پر نرم روی سے چلتے ہیں اور جاھل لوگ جب ان سے خطاب کرتے ہیں تو انھیں سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔" یہ ساری باتیں اگر سچی ہیں اور ضرور سچی ہیں تو پھر ھمیں دیکھنا پڑے گا کہ ھم نبی رحمت﴿ص﴾ کی کیسی امت ہیں اور ان کے کیسے ماننے والے ہیں۔ کیا ھم بھی اپنے گھر والوں کے لئے شفیق اور مھربان ہیں، جیسا کہ نبی کریم تھے اور کیا ھم جب اپنے گھر سے باھر قدم رکھتے ہیں تو رحمت بن کر نکلتے ہیں یا زحمت بن کر، ھم دوسروں کے لئے شفقت اور مھربانی کا پیغام لے کر روانہ ھوتے ہیں یا سختی و ترش روئی کا مظاھرہ کرتے ہیں۔ ھمارے لھجوں میں نرمی ھوتی ہے یا سختی، ھمارے چھرے متبسم ھوتے ہیں یا خشن! ھمیں تو فرمایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کھو بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ سلام میں پھل کرو، نبی کریم﴿ص﴾ کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ آپ ھمیشہ سلام میں پھل کیا کرتے تھے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کھتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﴿ص﴾کی ھر سنت پر عمل کیا ہے، لیکن ایک پر نھیں کرسکا اور وہ یہ کہ آپ ھی ھمیشہ سلام میں پھل کرتے رھے، میں کوشش کے باوجود کبھی سلام میں پھل نھیں کرسکا۔
اگر ھم چاھتے ہیں کہ ھمارا دین پوری دنیا پر غالب آجائے تو پھر ھمیں اخلاق محمدی کو اپنانا ھوگا۔ مسلمان پوری دنیا میں جھاں جھاں ہیں، انھیں اپنے وجود سے، اپنے برتاﺅ سے، اپنی زبان سے، اپنے چھرے سے اور اپنی رفتار سے رحمت کا پیغام دینا ھوگا۔ ھمیں رحمت کی علامت بننا ھوگا۔ آج انسانیت مسلمان نما جن درندوں کے ھاتھوں زخم خوردہ ہے، بدقسمتی سے وہ اپنے آپ کو مسلمان کھلواتے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا پر اسلامی حکومت اور اسلامی خلافت قائم کرنا چاھتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے لئے اسلامی اخلاق ناگزیر ہے۔ ھمیں یہ معلوم ھونا چاھیے:
جو دلوں کو فتح کر لے وھی فاتحِ زمانہ
ھمیں ملکوں کو فتح کرنے کی فکر ترک کرکے دلوں کو فتح کرنے کی حکمت اختیار کرنا ھوگی۔ ھمارے ھاتھوں سے اگر خود مسلمان ھی اتنے نالاں ھوں کہ الامان الحفیظ کی صدائیں بلند کر رھے ھوں تو ھم غیر مسلموں کے لئے رحمت کے پیامبر کیسے بن سکتے ہیں۔
قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئے ھمیں رسول اللہ کی سیرت کو سمجھنا ھوگا۔ آج ھم کوئی ایک آیت لے کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نکل کھڑے ھوتے ہیں۔ ھمیں دیکھنا چاھیئے کہ آپ نے پورے قرآن حکیم کو سامنے رکھ کر مختلف قوموں، ملتوں، گروھوں اور لوگوں سے کیسا برتاﺅ کیا۔ آپ نے میثاق مدینہ میں بت پرستوں اور اھل کتاب کو بھی شریک کیا۔ آپ نے حبشہ کے مسیحی حاکم کو سچا اور عادل قرار دیا۔ آپ نے قتل و خون سے بچنے کے لئے اپنے لھو کے پیاسوں سے صلح کی۔ آپ نے نجران کے مسیحیوں کو امان نامہ لکھ دیا۔ اگر ھم اپنے مسلمانوں کے لئے ھی امان کے قائل نھیں تو غیروں کے لئے ھماری سنگدلی کا کیا عالم ھوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ ھو، داعش ھو یا ان کی مثال کوئی اور گروہ ان میں سے کوئی بھی رحمت کا پیامبر نھیں، یہ تو بشریت کے لئے زحمت اور اذیت کے پیامبر ہیں۔ یہ نبی رحمت کے نمائندے نھیں۔ جس کے وجود سے رحمت جھلکتی ھوگی اور جس کی زبان سے محبت چھلکتی ھوگی، وھی نبی رحمت کا نمائندہ ھوگا۔
ھمارے نبی نے غیروں کو بھی امن و سلامتی کا پیغام دیا، جب تک کوئی آپ پر حملہ آور نہ ھوا، آپ نے تلوار نیام سے نھیں نکالی، آپ ھی پر قرآن کریم کی یہ آیات اتری ہیں، جن میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بے گناہ قتل کر دیا، اس نے گویا ساری انسانیت کا خون بھا دیا:مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَیرِ نَفسٍ اَو فَسَادٍ فِی الاَر ضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا(المائدہ:۲۳)
مسند احمد ابن حنبل میں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر آنحضرت﴿ص﴾ نے سب حاضرین سے سوال کیا کہ کیا میں تمھیں بتاﺅں کہ مومن کون ھوتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا: من امنہ الناس علی اموالھم وانفسھم، والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ(حدیث۸۵۹۳۲) "جس سے سب انسانوں کے اموال اور ان کی جانیں محفوظ ھوں اور مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ھاتھ سے انسان سلامت رھیں۔" آئیے ان تعلیمات کی روشنی میں ھم آپس میں اور ساری انسانیت کے لئے رحمت ھو جائیں، کیونکہ ھم نبی رحمت﴿ص﴾ کے ماننے والے ہیں۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh