www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

606144
۱۳رجب کائنات کی اس عظیم ھستی کی ولادت با سعادت کا دن ہے کہ جس کے بارے میں عبداللہ ابن عباس کھتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ اگر درخت قلم بن جائین اور سمندر سیاھی بن جائیں، جن حساب کرنے والے ھوں اور انسان لکھنے والے ھوں تو پھر بھی علی ابن ابی طالب علی (ع) کے فضائل کا احصاء اور شمار نھیں کر سکتے۔
جب مولائے کائنات کی ولادت کا وقت قریب ھوا تو فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس آئیں اور عرض کیا، پروردگارا میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے اپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر ایمان رکھتی ھوں۔ پروردگارا تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچے کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔ ابھی ایک لمحہ ھی نھیں گزرا تھا کہ کعبہ کی دیوار عباس ابن عبدالمطلب اور یزید ابن تعف کی نظروں کے سامنے شکافتہ ھوئی فاطمہ بنت اسد داخل ھوئیں اور دیوار دوبارہ مل گئی۔ بی بی تین دن تک دنیا کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور اسی دوران ۱۳رجب کو خانہ کعبہ ھی میں مولا کی ولادت ھوئی۔ یہ مولا کو اللہ تعالی نے عظیم شرف عطا کیا ہے، اس سے پھلے نہ کوئی بیت اللہ میں پیدا ھوا ہے اور نہ ھی کوئی بعد میں پیدا ھو گا۔ اس مناسبت سے تمام اھل اسلام کی خدمت میں مبارک پیش کرتے ہیں۔
حضرت علی (ع) اور پیغمبر اکرم (ص﴾
حضرت علی (ع) کی تربیت ایک خاص انداز میں خود پیغمبر اکرم (ص) نے فرمائی اور اللہ کے دین کی نصرت کے لئے آنحضرت(ص﴾ نے ان کو خود تیار کیا، یھی وجہ ہے کہ شیعہ اور سنی سب کے نزدیک مولا کے لئے ایک خاص عقیدت پائی جاتی ہے۔ صحابہ کرام مشکل حالات میں حضرت علی (ع) ھی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام(ص﴾ نے امت کے سامنے جیسے علی (ع) کے فضائل بیان کئے ہیں ایسے کسی اور کے بیان نھیں کئے۔ پیغمبر اسلام(ص﴾ کی وہ احادیث جو علی (ع) کی شان میں ہیں وہ امت مسلمہ کے ھاتھوں ایک بھت بڑا علمی، فکری اور عقیدتی ذخیرہ ہیں۔
ایثارو فداکاری حضرت علی (ع﴾
بچپن، نوجوانی و جوانی کے تمام مراحل میں، آغاز بعث سے لیکر وفات رسول تک، علی (ع) کا کوئی لحظہ ایسا نھیں ہے کہ جو رسول اور اسلام کی خدمت میں نہ گزرا ھو۔ ہر وقت حق و عدالت کو برپا کرنے کی کوشش کی، اسلامی قوانین اور قرآن مجید کے احکام کے نفاذ کے لئے کس قدر مشرکین و کفار کے ساتھ مقابلہ کیا ، مختلف میدانوں میں اپنی جان کو خطرات میں ڈالا۔ جب کسی میدان میں کوئی جانے کے لئے تیار نھیں ھوتا تھا تو اس میں بھی جانے کے لئے ابو طالب کا یھی بیٹا علی (ع) ھی ھوا کرتا تھا۔ حالات کی سختی اور مشکلات، پھاڑوں کی سختی سے بھی زیادہ سخت تھیں لیکن مولا تمام حالات میں ثابت قدم اور دوسرے افراد کو بھی ھمیشہ حوصلہ دیا کرتے تھے۔ حضرت علی (ع) نے اپنا سب کچھ یعنی وقت، زندگی حتٰی اپنی تمام مادی، معنوی قوتوں کو اسلام کی راہ اور حق و حقانیت کی ترویج میں خرچ کیا۔ آج دنیا میں جو انسانی اور دینی اقدار زندہ ہیں وہ امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، حتی آج جو اسلام زندہ ہے اور روز بروز قوی ھو رھا ہے یہ سب سدالانبیاء کے لائے ھوئے دین پر علی (ع) و اولاد علی (ع) کی قربانیوں اور اس راہ میں کئے ھوئے ایثار کی بدولت ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی سادہ زیستی کا تمام مسلمانان عالم کیلئے نمونہ عمل ھونا:
حضرت علی (ع) کی حیات طیبہ مسلمانان عالم کے لئے نمونہ عمل ہے۔ مولا امیر (ع) کی ذاتی زندگی ھو یا خاندانی زندگی، اجتماعی زندگی ھو یا حکومت کے دوران کی زندگی ھر جگہ پر اقامہ دین حق نظر آتا ہے۔ جب اسلامی سلطنت کہ جس کی سرحدیں مکہ و مدینہ سے نکل کر عراق، ایران، مصر و افریقہ تک پھنچ چکی ہیں، اس دوران علی (ع) کی سادہ زیستی کا کمال یہ ہے کہ عام اور عادی شخص کی طرح زندگی گزار رھے ہیں، آنحضرت کا لباس، کھانا، سواری اور مکان بالکل سادہ اور معاشرہ کے معمولی افراد کی طرح ھوتا ہے۔ البتہ من و عن آج اس طرح کی زندگی گزارنا تو ناممکن ہے لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ھماری زندگی کی سمت اسی طرف ھو کہ جس طرف علی (ع) کی ہے، یعنی کم از کم ھماری زندگی کے اندر اپنے مولا کی زندگی کی جھلک ضرور ھونی چاھیئے۔
کیا آج یہ سوچنے کا مقام نھیں ہے کہ اس زمانے میں:
اکثر مدارس کے استاد یا پرنسپل کی زندگی میں علی (ع) کی زندگی کی جھلک ظاھر نھیں ھوتی، ایسا کیوں ہے؟ کسی تنظیم کے عھدہ دار یا سیکرٹری و صدر و رئیس کی زندگی بجائے سادہ زیستی کے تجدد اور تجمل گرائی کی طرف کیوں مائل ہے؟ اسلامی ممالک کے عھدہ داران و وزراء رسول اللہ کے اس خلیفہ حق کی سیرت کو کیوں نھیں اپناتے؟ جبکہ انھیں مدارس و تنظیموں میں بعض واقعا ایسے افراد بھی ہیں اور ان کو میں قریب سے جانتا ھوں کہ انھوں نے مولا کی زندگی کو نمونہ بناتے ھوئے انتھائی سادہ زندگی اختیار کی ہے۔ ان کا لباس، ان کی زندگی، ان کا مکان سادہ ھوتا ہے، کوئی بینک بیلنس نھیں ھوتا، کرائے کے مکان میں زندگی گزارنا لیکن ان سب کے باوجود ھمیشہ حق اور دین حق کے استحکام اور پرچار میں اپنے زمانے اور علاقے و منطقہ میں سب سے اعلٰی اور آگے ھوا کرتے ہیں۔ اسی سادگی کے اندر ارادے بھت بلند ہیں انھوں نے دین اسلام کے لئے اپنے آپ کو ایسے ھی لگا دیا ہے جیسے علی (ع) اپنے ماننے والوں سے چاھتے ہیں، لیکن ایسے افراد کی تعداد بھت کم ہے کہ جنھیں زیادہ سے زیادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حضرت علی (ع) و بندگی خدا:
علی (ع) کی زندگی کا ھر لمحہ اللہ تعالی کی رضا کے لئے صرف ھوتا تھا لیکن اس کے باوجود عبادت و بندگی علی (ع) و اولاد علی (ع) اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا اندازہ امام زین العابدین (ع) کے اُس جملہ سے لگا سکتے ہیں کہ جو آپ نے اس شخص کے جواب میں فرمایا کہ جس نے پوچھا کہ مولا آپ اس قدر عبادت کر کے اپنے آپ کو اتنی زحمت میں کیوں ڈالتے ہیں، اس قدر زھد، اس قدر عبادت، اس قدر روزہ تو یہ سب کیوں ایسا ہے آپ تو امام ہیں، تو آپ نے فرمایا اگر تو امیرالمومنین (ع) کی عبادت و بندگی کو جانتا ھوتا تو یہ سوال مجھ سے نہ کرتا۔ علی (ع) کا ھمیشہ اللہ کی ذات پر بھروسہ ھوتا اگر آج باقی افراد تو اپنی جگہ پر، صرف طلاب دینیہ اور علماء کرام ھی بندگی خدا ھی کو اپنا شعار بنا لیں اور اس پر کاربند رھیں تو پھر بھی بھت جلد معاشرہ کے اندر تبدیلی لائی جا سکتی ہے، لیکن طلاب اور علماء ھی علی (ع) کی سیرت کو چھوڑ کر علی (ع) کے زمانے کے بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی طرح دنیا داری میں غرق ھو جائیں، بینک بیلنس پہ لگ جائیں، مکان پہ مکان خریدنے اور بنانے لگیں، اقرباء پروری کا شکار ھو جائیں تو وھی ھوتا ہے جو آج ھو رھا ہے۔
دس سے تیرہ سال کی عمر کے نوجوانوں کے لئے علی (ع) کی زندگی کا اسوہ ھونا:
حضرت علی (ع) کی عمر مبارک دس سال ہے جب پیغمبر اکرم (ص) اعلان نبوت کرتے ہیں، علی (ع) اس دس سال کی عمر میں بھی رسول اللہ کے لئے ایک عظیم سرمایہ ھوتے ہیں اور آنحضرت کے مورد اعتماد بنتے ہیں۔ تین سال کا رسول اللہ کا دعوت سری کا پروگرام اس کے تمام خدوخال مولا علی (ع) سے پوشیدہ نھیں ھوتے۔ جب تیرہ سال کے ھوتے ہیں تو دعوت ظاھری میں پھلی دعوت ذوالعشیرہ کا سارا پروگرام علی (ع) کے سپرد ھوتا ہے۔ اسی دعوت میں پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت پر تمام مشکلات کے باوجود آنحضرت کی نصرت و مدد کا وعدہ کرتے ہیں اور پھر زندگی کی آخری سانس تک اس وعدہ کی وفا کرتے ہیں۔ آج معاشرہ میں بلوغ تک پھنچنے سے پہلے کے سالوں میں نوجوانوں کے سامنے مولا کی زندگی کا یہ دور واضح اور روشن ھونا چاھیئے۔ اگر اس دور کو کسی نوجوان نے مولا کی سیرت کو اپناتے ھوئے اپنے سے اعلٰی کے سامنے جا کر، علماء کے پاس جا کر اپنی زندگی کو دین اور اعلٰی اھداف کی سمت میں لگا دیا تو بعد کی زندگی میں بھی کامیاب ھو سکتا ہے۔ جس نے اس عمر کو خراب کر دیا اس کے لئے آئندہ درست ھونا ممکن تو ہے لیکن بھت زیادہ مشکل ہے۔
تئیس سال یا اس سے اوپر کے افراد کے لئے علی (ع) کی زندگی کا نمونہ ھونا:
شب ھجرت علی (ع) کا ایثار اور قربانی ایسی ہے کہ جس پر خالق علی (ع) بھی ناز کرتا ہے اور علی (ع) کے اس ایثار کو دیکھنے اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو زمین پر بستر علی (ع) کے قریب بھیجتا ہے۔ اسے بیان کرنا آسان ہے لیکن اسی واقعہ کے تحت علی (ع) کی جرات، شجاعت و بصیرت کو درک کرنا کہ بغیر کسی خوف کے اپنے آپ کو اسلام اور دفاع رسول کے لئے پیش کر دینا یہ آسان نھیں ہے۔ کیا آج دین کے لئے، قرآن کے لئے خود علی (ع) و اولاد علی (ع) کے لئے ھم سب کو قربان ھونے کے لئے تیار نھیں ھونا چاھیئے۔
پچیس سالہ زندگی کا سخت ترین دور اور وحدت امت کی خاطر صبر کرنا:
علی (ع) کی زندگی کا یہ پچیس سالہ دور کہ جو پیغمبر اکرم (ص) کی وفات سے لیکر اپنی حکومت سنبھالنے تک کا زمانہ ہے انتھائی اھمیت کا حامل ہے۔ اس دور کو دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، سخت زمانہ ہے، علی (ع) پر بھت زیادہ مشکلات ہیں، بڑے بڑے لوگوں نے ساتھ دینا ترک کر دیا ہے بلکہ مخالفت پر آ گئے ہیں، بھت ساری بدعات کا معاشرہ میں رواج ھو رھا ہے، کیا علی (ع) جب لوگ ساتھ نھیں ہیں تو کیا دین کی بقا کے بارے میں کچھ نھیں کر رھے، نہ ایسا نھیں ہے، علی (ع) کی ذات سے نا ممکن ہے کہ وہ کچھ نہ کریں۔ علی (ع) نے اس دور میں بھی لوگوں کو معرفت خداوندی اور بندگی کا طریقہ سکھایا ہے۔ جب علی (ع) کو حکومت اس شرط پر پیش کی جاتی ہے کہ وعدہ کرے کہ کتاب خدا، سنت رسول اور سیرہ شیخین کے مطابق حکومت کرے گا۔ اگر وقتی طور پر بھی ان شرائط کو قبول کر لیتے ہیں تو حکومت مل سکتی ہے لیکن امام حق کا یہ جواب ھوتا ہے کہ کتاب و سنت کے مطابق تو عمل کرنا ہے لیکن میرے لئے سیرہ شیخین مھم نھیں ہے۔ صرف اس بات پر حکومت علی (ع) کو نھیں دی جاتی اور عثمان کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ ان تمام حالات پر امت اسلامی کی وحدت کے لئے صبر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: " فصبرت و فی العین قذی و فی الحلق شجا" یہ کوئی معمولی بات نھیں ہے، یہ کوئی شوخی اور مذاق بھی نھیں ہے۔ اس کے لئے مقام معظم رھبری فرماتے ہیں کہ قوت ارادی کی ضرورت ہے، ھمت اور شجاعت کی ضرورت ہے، قربانی اور ایثار کی ضرورت ہے۔ یہ صبر، یہ امت اسلامی کی بھلائی اور دین کا درد جو ہے انسان کو اتنا بلند کرتا ہے کہ پھر پستی اس کے قریب نھیں آ سکتی۔ خالق اکبر ھم سب کو امیرالمومنین﴿ع﴾ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: محمد اشرف ملک

Add comment


Security code
Refresh