www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

713920
کچھ حضرات معصومین علیھم السلام کی ولادت کے لئے ظھور کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو درحقیقت ایک قسم زیادہ روی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات کے موافق نھیں ہے۔ ذیل میں چند مثالیں تشنگان دانش کے پیش خدمت ہیں:
منقول ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام مسجد کوفہ میں زخمی ھوئے تو صعصعہ بن صوحان آپ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کچھ سوالات پوچھے اور جوابات وصول کئے دیکھئے:
"... قال: أنت أفضل أم عيسى بن مريم؟ فقال: عيسى كانت امه في بيت المقدس فلما جاء وقت ولادتها سمعت قائلا يقول: اخرجي، هذا بيت العبادة لا بيت الولادة، وأنا امي فاطمة بنت أسد لما قرب وضع حملها كانت في الحرم، فانشق حائط الكعبة وسمعت قائلا يقول لها: ادخلي، فدخلت في وسط البيت وأنا ولدت به، وليس لأحد هذه الفضيلة لا قبلي ولا بعدي...؛
صعصعہ نے کھا: آپ بھتر ہیں یا عیسی بن مریم علیہ السلام؟ فرمایا: عیسی علیہ السلام کی ماں بیت المقدس میں تھی اور جب عیسی(ع) کی ولادت کے آثار نمودار ھوئے ھاتف سے آواز آئی ہے مریم! بیت المقدس سے نکل جاؤ، [اور اپنے بچے کو بیت المقدس کی حدود سے باھر جنم دو] کیونکہ یہ عبادت کا مقام ہے نہ کہ بچہ جننے کی جگہ؛ جبکہ میری والدہ فاطمہ بنت اسد کے ھاں جب میری ولادت کے آثار ظاھر ھوئے ـ جبکہ طواف کعبہ میں مصروف تھیں، دیوار میں دراڑ پڑ گئی اور سنا کہ ھاتف ندا دے رھا ہے: "خانہ خدا میں داخل ھوجاؤ"، میری والدہ داخل ھوئیں اور میں بیت اللہ کے وسط میں متولد ھؤا، اور کسی کو بھی مجھ سے پھلے اور میرے بعد یہ فضیلت نصیب نھیں ھوئی"۔
حوالہ: اللمعة البيضاء فی شرح خطبه الزهراء، التبريزي الأنصاري، ص220؛ الإمام علي بن أبي طالب علیه السلام، أحمد الرحماني الهمداني، ص 368 – 370.
۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "وَأَنَا وُلِدتُ في المحل البعيد المرتقى"؛ فرمایا: اور میں ایک بلند مرتبہ مقام پر پیدا ھؤا۔
حوالہ: الفضائل، فضل بن شاذان بن جبرئيل القمي، ص 80؛ الإمام علي بن أبي طالب علیه السلام، أحمد الرحماني الهمداني، ص370، ح19.
۔ ابن شاذان اپنی کتاب "الفضائل" میں لکھتے ہیں:
"حدثني الشيخ الفقيه (أبو الفضل شاذان بن جبرئيل القمي) قال حدثني الشيح محمد بن أبي مسلم بن أبي الفوارس الدارمي، وقد رواه كثير من الأصحاب حتى انتهى إلى أبي جعفر ميثم التمار قال بينما نحن بين يدي مولانا علي بن أبي طالب علیه السلام بالكوفة وجماعة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله محدقون به كأنه البدر في تمامه بين الكواكب في السماء الصاحية إذ دخل عليه من الباب رجل طويل علية قباء خز أدكن متعمم بعمامة أتحمية صفراء وهو مقلد بسيفين فدخل من غير سلام ولم ينطق بكلام فتطاول الناس بالأعناق ونظروا إليه بالآماق وشخصوا إليه بالأحداق ومولانا أمير المؤمنين علي بن أبي طالب علیه السلام لا يرفع رأسه إليه فلما هدأت من الناس الحواس فحينئذ أفصح عن لسانه كأنه حسام جذب من غمده، ثم قال أيكم المجتبى في الشجاعة، والمعمم بالبراعة، والمدرع بالقناعة، أيكم المولود في الحرم، والعالي في الشيم، والموصوف بالكرم؟
«فعند ذلك رفع أمير المؤمنين علیه السلام رأسه إليه فقال له علیه السلام يا مالك يا أبا سعد بن الفضل بن الربيع بن مدركة ابن نجيبة بن الصلت بن الحارث بن الأشعث بن السميمع الدوسي سل عما بدا لك؟ ... [8]»؛ اس کے بعد سر کو اٹھایا اور فرمایا: ای سعید بن فضل بن ربیع بن مدرکة بن نخبة بن صلت بن حرث بن اشعث بن ابی سمیمع؛ ابوجعفر میثم تمار کھتے ہیں: ھم کوفہ میں اپنے مولا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے اور صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی ایک جماعت رات کی تاریکی میں چمکتے ستاروں کی طرح ـ جنھوں نے دمکتے چاند کا احاطہ کیا ھوتا ہے ـ امیرالمؤمنین(ع) کے کے گرد اکٹھے ھوگئے تھے، کہ اسی وقت ایک بلند قامت مرد خزّ کی گھرے رنگ کی قبا زیب تن کئے ھوئے، سر پر زرد رنگ کا پھولدار عمامہ سجائے، دو شمشیریں باندھے ھوئے، سلام کئے بغیر داخل ھؤا؛ کچھ بھی بولے بغیر؛ پس لوگوں کی گردنیں اس کی کھنچ گئیں، آنکھیں اس کے اوپر ٹھر گئیں اور سب اس کے سامنے کھڑے ھوگئے؛ جبکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام سر نھیں اٹھا رھے تھے اور توجہ نھیں دے رھے تھے۔ جب سب کے حواس پرسکون ھوئے تو وہ شخص نیام سے نکلتی ھوئی چمکتی تلوار کی مانند خاموشی کو توڑ کر گویا ھؤا اور کھا: اے لوگو! تم میں سے وہ کون شخص ہے جو شجاعت میں برگزیدہ، فصاحت کا تاج سر پر سجائے ھوئے اور قناعت کا جامہ زیب تن کئے ھوئے ہے؛ کعبہ میں پیدا ھؤا ہے اور شرافت میں عالی مرتبہ، اور سخاوت اور کرم سے موصوف ہے؟ ۔۔۔ چنانچہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے مالک، اے ابا سعد بن فضل بن ربیع بن مدرکہ بن نجیبہ بن صلت بن حارث بن اشعث بن سمیمع الدوسی، پوچھ لو جو کچھ تمھیں پیش آیا ہے۔۔۔
حوالہ: الفضائل، فضل بن شاذان بن جبرئيل القمي، ص2-7؛ نوادر المعجزات، محمد بن جرير الطبري، ص34؛ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج40، ص75، ح113؛ احقاق الحق و ازهاق الباطل، نورالله بن السيد شريف الشوشتري، ج8، ص726.
۔ آخری بات یہ کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ایک زیارتنامے میں ھم سب پڑھتے ہیں:
"الْمَوْلُودِ فِى الْكَعْبَةِ؛ سلام ھو آپ پر اے وہ جو کعبہ میں پیدا ھوئے"۔
حوالہ: المزار الكبير، ابن المشهدي، الشيخ ابو عبدالله محمد بن جعفر، ص256-257، زیارت نمبر 10، تحقيق: جواد القيومي الاصفهاني، مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة: الأولى 1419ه‍
بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج97، ص302.
۔ 10 رجب امام جواد علیہ السلام کا یوم ولادت ہے اور مفاتیح میں ماہ رجب کے اعمال کے پانچویں حصے میں واردہ دعا میں پڑھتے ہیں:
"اَللّهُمَّ اِنّى اَسئَلُكَ بِالْمَوْلُودَيْنِ فى رَجَبٍ، مُحَمَّدِ بْنِ عَلىٍّ الثانى وَابْنِهِ عَلِىِ بْنِ مُحَمَّدٍالْمُنْتَجَبِ؛ اے معبود! میں تجھ سے سوالی ھوں ماہ رجب کے دو مولودوں "محمد بن علی الثانی اور علی بن محمد نقی علیھما السلام" کے صدقے۔۔۔"۔ ۔ امام رضا علیہ السلام نے امام ابو جعفر محمد بن علی التقی الجواد علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں فرمایا: "هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَي شِيعَتِنَا مِنْهُ؛ یہ وھی مولود ہے جو ھمارے پیروکاروں کے لئے اس سے زیادہ عظیم مولود پیدا نھیں ھؤا"۔ (الکافی، ج1، ص 321﴾
۔ چنانچہ جو مؤمنین ولادت کو ظھور بولتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے امام کے کلام کی پیروی کریں اور وھی بولیں جو انھوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے۔ ھمیں ان سے ایک قدم بھی آگے بڑھانے کی اجازت نھیں ہے۔
بقلم: فرحت حسین مھدوی

Add comment


Security code
Refresh