www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

705938
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بھن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔
آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ھوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشھور تھیں۔﴿١﴾ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشھور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انھیں امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ھی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بھت مانوس تھیں، انھیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بھرہ مند ھوئیں۔
اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یھی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اھلبیت علیھم السلام مدینہ میں داخل ھوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاھتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شھر سے باھر گئے ھوئے تھے۔ انھوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاھتے تھے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انھیں واپس کر دیئے۔ وہ بھت خوش ھوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باھر نکلتے ھوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ھوگئی۔ انھوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بھت خوش ھوئے اور تین بار کھا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عمر بھت کم تھی، لھذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاھر کرتا ہے۔﴿۲﴾
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطھر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انھیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ھوئی۔ امام علیہ السلام نے انھیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اھلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انھوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ھاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کسی کو معلوم نہ ھو اور چھپی رھے۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شھر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ھمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عھد کے قصد سے عازم سفر ھوئیں، راستہ میں جب ساوہ پھنچیں لیکن چونکہ وھاں کے لوگ اس زمانے میں اھلبیت کے مخالف تھے، لھذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ھمراھیوں میں سے بھت سارے افراد شھید ھوگئے۔﴿ُ۳﴾
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا غم و الم کی شدت سے مریض ھوگئیں اور شھر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شھر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ھمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ﴿۴﴾۔ اس طرح حضرت وھاں سے قم روانہ ھوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ھوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ھاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو اھل قم نے گلبارن کرتے ھوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔﴿۵﴾
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شھر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ھمیشہ مشغول عبادت رھیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رھیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰھی کے ساتھ بسر فرمائے۔
جس جگہ آج حرم مطھر حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پھچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پھنایا گیا۔ پھر انھیں اسی جگہ لایا گیا، جھاں پر ابھی ان کی قبر مطھر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ھوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرھیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رھے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ ناگھان صحرا میں سے دو سوار آرھے ہیں۔ انھوں نے اپنے چھروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انھیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نھیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطھر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انھوں نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاھر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔﴿٦﴾
امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ﴿ّ۷﴾۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے مختلف روایات نقل ھوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛﴿۸﴾۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین علیہ السلام کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ھم اھل بیت علیھم السلام کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ھمارے تمام شیعہ بھشت میں داخل ھوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بھشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اھل بھشت ھوگا"﴿۹﴾۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ھم پلہ نھیں ہے۔"
امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتھا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ھمارے تمام شیعیان بھشت میں داخل ھو جائیں گے۔"
منابع:
1۔ منتھی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اھل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی

Add comment


Security code
Refresh