www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

801378
جو شخص اسلام کو قبول کرے گا ،اوراسکافرماں بردارھو گا ، قرآن کی تلاوت کرے گااور اسے حفظ کرے ھر سال بیت المال سے دو سو دینار عطاکیاجائے گا اور اگر دنیا میں نہ مل سکے تو روز قیامت ۔ کہ جس دن اسے زیادہ ضرورت ھو گی اس کو دیا جائے گا ۔ (حضرت علی علیہ السلام)

اھمیت
خود قرآن کی اپنی خصوصیات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس کے بارے میں مسلسل سفارشیں سبب بنیں کہ یہ کتاب لوگوں کی پوری زندگی میں رچ بس گئی ۔ اس زمانے کے مومنوں کے پاس سوائے قرآن کے کوئی دوسری کتاب نہ تھی اور تلاوت کرناحفظ کرنا اور پڑھانا فقط اسی سے مخصوص تھا ۔
حفظ قرآن ، مسلمانوں کے درمیان ھمیشہ ایک رسم اور اھم عبادت کے عنوان سے رائج تھا یھاںتک کہ چھپائی کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد بھی حفظ قرآن نے اپنے مقام کو محفوظ رکھا ۔ یہ کام قرآن اور اس کے حفظ کی عظیم منزلت کے زیر سایہ تحقق پذیر ھوا ، ایسی منزلت کہ جس کو مندرجہ ذیل مختلف زاویوں سے مورد تحقیق قرار دیا جا سکتا ھے ۔

قرآن
قرآن نے کتاب خدا کو یاد رکھنے کے بارے میں صرف ایک جگہ بات کی ھے ۔ جھاں پر فرماتا ھے ” و اذکرن ما یتلی فی بیوتکن من اٰیات اللہ و الحکمة ان اللہ کان لطیفا خبیرا “ ان حکمت اور آیات الٰھی جن کی تمھارے گھر وں میں تلاوت کی جاتی ھے کو یاد رکھو ( جان لو کہ ) بیشک خدا مھربان اور ھر چیز سے آگاہ ھے “
”ذکر“ اس آیت میں ”نسیان “ (فراموشی ) کے مقابلے میں حفظ اور یاد رکھنے کے معنی میں ھے۔ خدا وند متعال نے اس آیت میں اور اس سے قبل کی آیات میں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کچھ وظائف معین کئے ھیں جنمیںسے آخری وظیفہ اس آیت میں بیان ھوا ھے ۔
قرآن ان کو سفارش کرتا ھے کہ جو بھی کلام الٰھی تمھارے گھروں میں نازل ھوتا ھے اس کو یاد رکھو اور ان کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پھناؤ ۔
یہ آیت در واقع حفظ قرآن کی قدر و قیمت کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتی ھے ۔
آیت کی مخاطبین ، ازواج رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھیں لیکن چونکہ شریعت کی اساس ، حفظ قرآن و حفظ سنت پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھے لھذا آیت کا مخاطب در واقع کوئی خاص گروہ نھیں ھے بلکہ تمام مسلمان ھیں جو قرآن و سنت سے تمسک اور اس کے حفظ میں شریک ھیں ۔

احادیث
معصومین علیھم السلام کے اس بارے میں بھت زیادہ اقوال ھیں اور مختلف موقعوں پر اپنے مخاطبین کے ایمان و آگاھی کے اعتبار سے اس کی طرف اشارہ کیاگیا ھے ۔
دینی پیشواؤں کے اقوال بتاتے ھیں کہ حفظ قرآن اتنا اھمیت رکھتا ھے کہ بھت سے معنوی مقامات بغیر اس کی مدد کے ھاتھ نھیں آسکتے ۔
ان میں سے بعض مقامات مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔فرشتوں کے ساتھ ھمنشینی
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں : وہ حافظ قرآن جوقرآن پر عمل کرے ،پیغام رسان اور نیک کردار فرشتوں کا ھم نشین ھو گا کچھ لوگوں نے اس روایت کو آیھٴ ” بایدی سفرة “ کے ذیل میں ذکر کیا ھے اور معتقد ھیں کہ ”سفرة“ ( سفراء ) سے مراد حفاظ ، قراء ، کتّاب قرآن ( قرآن لکھنے والے ) اور وہ دانشور حضرات ھیں جو ھر زمانے میں آیا ت الٰھی کو شیطانوں کی دستکاری سے محفوظ رکھتے ھیں یہ تفسیر صحیح نھیں معلوم ھوتی کیونکہ خدا وندعالم فرما رھا ھے کہ : آیات الٰھی نیک کردار پیغام رسانوں کے سپرد کی گئی ھیں ، اور روایت سے پتا چلتا ھے کہ حافظ حضرات سفراء الٰھی کے ھم نشین ھیں ۔ نہ خود سفراء ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ، حافظین و مفسرین کی سفراء کے ساتھ ھمراھی اور ھم نشینی پر گواہ ھے بے شک جب دانشور حضرات اور حافظ حضرات ، فرشتوں اور حاملین وحی جیسا کام انجام دیں گے تو ان کے ساتھ ایک مقام و مرتبے میں جگہ پائیں گے ۔

۲۔ بزرگان امت کی لیسٹ میں جگہ پانا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں ” میری امت کے شرفاء ، قاری ، حافظ اور شب زندہ دار لوگ ھیں “ ۔

۳۔ عذاب الٰھی سے محفوظ رھنا
امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ھیں :” قرآن کی تلاوت کرو اور اسے یاد رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دل کو عذاب نھیں کرے گا جس میں قرآن ھو “۔
قرآن حفظ کرنا اور اس کے ساتھ مانوس رھنا ، انسان کو وحی الٰھی پر عمل کرنے اور معارف قرآن سے بھرہ مند ھونے کی راہ پر لگادیتا ھے ، جس کے نتیجے میں وہ جھنم کی آگ سے محفوظ رھتا ھے ۔

۴۔ دل کا آباد ھونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں : ” جس شخص کے اندر قرآن کا کچھ حصہ ( کوئی سورہ یا آیت ) بھی نہ ھو وہ ویران گھر کی طرح ھے ۔
جس طرح ویران گھر لوگوں کی نظر میں کوئی قدر و قیمت نھیں رکھتا اسی طرح آیات الٰھی سے خالی دل ، خدا کے نزدیک کوئی وقعت نھیں رکھتا ۔
شرافت کی بنیاد اور انسانوں کی قدر و قیمت ، تقویٰ اور قرآن کے ساتھ انس رکھنا ھے ۔ روح جسم کی طرح غذا کی محتاج ھے اور اس کی غذا قرآن اور معارف الٰھی ھیں وہ دل جو کلام خدا سے بے بھرہ ھو ، مردہ اور ویران گھر کی طرح ھے ۔

۵۔ مغفرت الٰھی کا شامل حال ھونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص قرآن کو حفظ سے پڑھے اور خیال کرے کہ خدا اس کو نھیں بخشے گا وہ ان لوگوں کی فھرست میں ھو گا جو آیات الٰھی کا مذاق اڑاتے ھیں “۔

۶۔ دو گنا اجر
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : ” جو شخص قرآن سیکھنے کی کوشش کرے اور حافظے کی کمزوری کی وجہ سے بہ مشکل حفظ کر سکے اس کے لئے دگنا اجر ھے ۔ ( ایک اجر ،حفظ کا دوسرا سختی کو تحمل کرنے کا )

۷۔ شفاعت کی قبولی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اتنا قرآن پڑھے کہ اسے یاد ھو جائے خدا اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کی شفاعت اس کی خاندان کے ایسے دس افراد کے سلسلے میں قبول کرے گا جن پر جھنم واجب ھو گی ۔
قرآن مومنوں کے حق میں شفاعت کر ے گا اور ان کو جنت تک لے جائے گا ، حافظ اور حامل قرآن بھی قرآن کے مانند ، شفاعت کی طاقت رکھتا ھے ۔
البتہ حافظو ں کی شفاعت ، قرآن کی شفاعت سے الگ ھے ۔
قران کی شفاعت عمومی ھے لیکن حافظوں کی محدود ھے ، صرف اپنے خاندان کی اور وہ بھی فقط ھاتھوں کی انگلیوں کی تعداد کے برابر قبول ھو گی ۔

۸۔ جنت کا سب سے اونچا مقام ( آخری درجہ )
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” جنت کے درجات اتنے ھیں جتنی قرآن کی آیتیں ، جب اھل قرآن جنت میں داخل ھوگا اس سے کھا جائے گا :پڑھو اور اوپر جاؤ کہ ھر آیت کا ایک درجہ ھے پس حافظ قرآن سے اونچا درجھ، کوئی نھیں ھے ۔

۹۔ انبیاء جیسا ثواب پانا
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :” بلا شبہ ، خدا کے نزدیک بھترین بندے بعد از انبیاء علماء ھیں اس کے بعد قرآن کے قاری اور حافظ ، یہ لوگ انبیاء کی طرح دنیا سے جائیں گے انبیاء کے ساتھ قبور سے نکلیں گے انھیں کے ساتھ پل صراط سے گزریں گے اور انھیں جیسا ثواب پائیں گے ۔

سیرت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کے نزدیک قاریان و حافظان قرآن کا ایک بھت اھم مقام تھا ، یہ حضرات ان افراد کا نھایت احترام کرتے تھے نیز ان کی مادی و روحانی مدد بھی فرمایا کرتے تھے ۔اس سلسلے میں ان دو حضرات کی سیرت کے بعض نمونے مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔ سزاؤں میں تخفیف
پیغمبر اسلام(ص) اورحضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں اگر کوئی حافظ قرآن ھوتا تھا تو سزائیں کرکے بخش دی جاتی تھی ۔ ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر چوری کا اعتراف کیا ۔ حضرت نے سوال کیا : کیا قرآن سے متعلق کچھ جانتے ھو ؟ اس نے کھا : سورہ ٴ بقرہ حفظ کیا ھے ۔ امام نے فرمایا : اس سورے کو حفظ کرنے کی بناء پر میں تمھارا ھاتہ نھیں کاٹوں گا ۔
اشعث نے کھا : اے امیر المومنین ! کیا حد الٰھی کو جاری نھیںکریں گے ؟ حضرت نے فرمایا : تم نھیں جانتے ھو ۔ اگر کوئی گواہ کسی شخص کے خلاف گواھی دے دے تو امام کو حق نھیں ھے کہ حد الٰھی کو جاری نہ کرے لیکن اس شخص نے خود اپنی زبان سے اپنے جرم کا اعتراف کیا ھے اورکسی نے اس کے خلاف گواھی نھیں دی ھے اور اگر کوئی گواہ کسی کے جرم کے خلاف گواھی نہ دے تو امام کو حق حاصل ھے کہ مجرم کے جرم کو بخش دے ۔
آج بھی بعض اسلامی ممالک میں سزاؤں میں تخفیف کر دی جاتی ھے ۔ ایران اور پاکستان میں بھی حافظ قرآن کی سزا میں تخفیف کر دی جاتی ھے ،نہ فقط تخفیف بلکہ مخصوص تخفیف کی جا تی ھے ۔

۲۔ مھر کے طور پر حفظ قرآن
صدر اسلام میں قرآن کے احترام اور اس کے حفظ کی اس قدر اھمیت تھی کہ کسی سورے کو حفظ کر لینا ھی بیوی کا مھر قرار دے دیا جاتا تھا ۔ سھل بن سعدی کھتے ھیں : ایک عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئی اور کھا : میں نے خود کو خدا اور اس کے رسول(ص) کے حوالے کر دیاھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مجھے کسی عورت کی ضرورت نھیں ھے ۔
ایک شخص نے رسول اسلام (ص)سے کھا : یا رسول اللہ اس عورت کی شادی مجھ سے کر دیجئے ۔
رسول اسلام(ص) نے سوال کیا : مھر کے لئے تمھارے پاس کیا ھے ؟
اس نے کھا : کچھ نھیں
رسول(ص) نے سوال کیا : کیا ایک انگوٹھی بھی نھیں ھے ؟
اس نے کھا : نھیں
آپ نے فرمایا : کیا قرآن حفظ کیا ھے ؟
اس نے کھا : فلاں فلاں سورہ یاد ھے ۔
رسول اسلام (ص)نے فرمایا : میں تمھاری شادی اس عورت سے کر رھا ھوں اس شرط کے ساتھ کہ تم نے جتنے سورے حفظ کئے ھیں اپنی بیوی کو بھی حفظ کرادو گے ۔

۳۔ اجتماعی امور میں حفظ قرآن کی اھمیت
صدر اسلام میں اھم اور بڑے اجتماعی امور میں تقدم کا معیار قراٴ ت اور حفظ قرآن تھا ۔ رسول اسلام(ص) حافظوں اور قاریوں کو امام جماعت اور سردار لشکر کی حیثیت سے متعین فرمایا کرتے تھے ۔
اگر کوئی مسلمان دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قرآن حفظ ، جمع یا تلاوت کر لیتا تھا تو اس کو حق تھا کہ وہ دوسروں کو اپنے حکم کا تابع بنا لے اور نماز جماعت پڑھا دے ۔
جنگ احد میں جب شھیدوں کو دفن کیا جا رھا تھا تو اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جو شخص زیادہ قرآن حفظ کئے ھوئے ھوتا تھا اسے پھلے دفن کرتے تھے یا حضرت حمزہ کے قریب دفن کرتے تھے ۔ ایک دفعہ رسول اسلام(ص) نے کچھ افراد کو کھیں بھیجنے سے قبل ان سے سوال کیا : تم میں سے کون شخص زیادہ قرآن حفظ کئے ھوئے ھے ؟
ایک شخص جو ان سب میں جوان تر تھا ، بولا : میں سورھٴ بقرہ اور دوسری چند آیتوں کا حافظ ھوں ۔ رسول اسلام(ص) نے فرمایا : جا ؤ ! یہ شخص تم سب کا رھبر ھے ۔
سب لوگوں نے کھا یہ جوان لڑکا تو ھم سب سے چھوٹا ھے ۔
رسول (ص)نے فرمایا : وہ سورھٴ بقرہ کا حافظ ھے ۔ اس لئے وہ تم سب کا لیڈر ھے ۔
رسول اسلام (ص)کے زمانے میں حفظ قرآن کی اھمیت اس قدر تھی کہ عام غلام جو حافظ قرآن ھوئے تھے دوسرے لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے ۔ جب مھاجروں نے مدینے کی طرف ھجرت کی تھی تو ابو حذیفہ کا غلام سالم اپنے حفظ اور عمدہ قراٴت قرآن کی وجہ سے ان سب کا اما م جماعت تھا ۔

۴ ۔بیت المال سے مسلسل امداد
قرآن مجید کے حافظ اور قاری اپنے مادی مسائل میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاص توجہ کے حامل تھے ۔ بیت المال سے ان افراد کو مخصوص حصہ ملتا تھے ۔
تاریخ میں موجود ھے کہ حضرت علی علیہ السلام قرآن مجید کی قراٴ ت کرنے والوں کو بیت المال سے دو ھزار دینار دیا کرتے تھے ۔

حفظ قرآن سے متعلق مشھور قارئین کے نظریات
مصر میں قاری قرآن اس شخص کو کھا جاتا ھے کہ فنون قراٴت و تلاوت قرآن مجید کا ماھر ھونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی ھوتاھے ۔ لھذا وھاں اگر کوئی لاکہ عمدہ اور دلنشین آواز سے قراٴ ت کرے لیکن حافظ قرآن نہ ھو تو اس کو قاری نھیں کھا جاتا ۔
ذیل میں قرآن اور حفظ قرآن سے متعلق دنیا کے مشھور و معروف قاریوں کے نظریات پیش کئے جا رھے ھیں :

۱۔ استاد احمد محمد بسیونی
استاد احمد محمد بسیونی فرماتے ھیں : ایک قاری قرآن کے لئے پھلا قدم حفظ قرآن ھے ۔ اگر کوئی حافظ قرآن ھو تو بھت عمدہ اور بھتر طریقے سے قراٴت قرآن کر سکتا ھے ۔ لھذا میں تمام قاریان قرآن کو مشورہ دوں گا کہ قرآن کریم ضرور حفظ کریں ۔ ایرانی قاری اسی لئے بھت عمدہ قراٴت کرتے ھیں ۔

۲۔ استاد محمد محمود طبلاوی
استاد طبلاوی فرماتے ھیں : قاری قرآن کی پھلی شرط حفظ کل قرآن ھے ،مصر کی الازھر یونیورسٹی میں شعبھٴ قراٴت قرآن میں اس کو شخص کو داخلہ نھیں مل سکتا جو حافظ کل قرآن نہ ھو ۔

۳۔ استاد شحات
استاد شحات کھتے ھیں : قاری قرآن ھونےکی بنیادی شرط حافظ قرآن ھونا ھے ۔ در حقیقت اس شرط کے پورا ھو جانے کے بعد کسی انسان میں قاری ھونے کی صلاحیت پیدا ھو پاتی ھے لھذا ضروری ھے کہ بچپنے میں تین یا چار سال سے ھی حفظ قرآن شروع کرا دیا جائے ۔

۴۔ استاد علی پرھیز گار
استاد پرھیز گار کھتے ھیں : متاسفانہ حفظ قرآن پر جس قدر توجہ دی جانی چاھئے تھی اتنی نھیں دی گئی در حالیکہ نو جوانوں اوربچوں میں حفظ قرآن کی صلاحیت اور قابلیت کی کوئی کمی نھیں ھے بلکہ یہ صلاحیت بھت زیادہ پائی جاتی ھے ۔
دوسری طرف حفظ قرآن کہ جس کا نتیجہ کلام الٰھی سے مانوس ھونا ھے ، کی اھمیت بھی کسی سے پوشیدہ نھیں ھے مخصوصاً اس وقت جب دنیا کی شیطانی طاقتیں مسلمان جوانوں کو اخلاقی فساد وغیر اخلاقی صفات و عادات میں غرق کر دینے پر تلی ھوئی ھیں ۔

Add comment


Security code
Refresh