www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ح) صحیفہ کے سمندر کا ایک قطرہ ‏

عرض ہؤا کہ صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اعتقادی پہلو بھی ہیں۔ امام علیہ السلام نے دعاؤں کے ضمن میں سیاسی امور – خاص طور پر امامت اور امت کی رہبری کے امور – بھی موضوع سخن بنائے ہیں:

‏‏1۔ امام سجاد علیہ السلام دعاء نمبر 20 (یعنی دعائے مكارم الاخلاق) میں فرماتے ہیں: ‏

«خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر درود بھیج  اور مجھے ان لوگوں کے مقابل طاقت و قوت عطاکر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ عناد و عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کاسہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی کرتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔» (۱۷) ‏

دعاء کا یہ حصہ در حقیقت اموی حکومت اور عبدالملک کے عُمّال، خاص طور پر مدینہ کے والی «ہشام بن اسماعیل مخزومی‏» کے ظلم و تشدد اور اس کی دھمکیوں کے مقابل امام علیہ السلام کی شکایت پر مشتمل ہے؛ یہی اس دعاء کا سیاسی پہلو ہے۔ ‏

‏2۔ صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعاء – جو عیدالاضحی اور روز جمعہ کی دعاء ہے – کچھ یوں ہے: ‏‏«بار خدایا! یہ مقام و منزلت [یعنی خلافت اور امت کی امامت جو نماز جمعہ اور نماز عید اور اس کے خطبات پڑھنا بھی اس عہدے سے وابستہ ہے اور امام و خلیفہ ہی کو مختص ہے] تیرے خاص جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے ہے اور یہ مراکز اور ادارے تیرے امناء کے لئے مخصوص ہیں؛ [جن کو تو نے مقام اعلی عطاء کیا ہے مگر [اموی خلفاء جیسے] ستمگروں اور ظالموں نے غیر حق ان پر قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں غصب کر رکھا ہے ۔۔۔» یہاں تک کہ فرماتے ہیں: «تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء مغلوب و مقہور ہوچکے ہیں [ور خاموشی پر مجبور ہوچکے ہیں] جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردئیے گئے ہیں؛ تیری کتاب معاشرے کے روزمرہ امور سے باہر کرکے رکھ دی گئی ہے؛ تیرے فرائض اور واجبات تحریف کا شکار ہوچکے ہیں اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سنت و سیرت ترک کردی گئی ہے۔

بارخدایا! اولین و آخرین میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کے دشمنوں اور ان کے اتباع اور پیروکاروں اور ان کے اعمال پر راضی و خوشنود ہونے والوں پر لعنت بھیج اور انہیں اپنی رحمت سے دور فرما۔۔۔۔» (۱۸) ‏اس دعاء میں امام سجاد علیہ السلام صراحت کے ساتھ امامت اور امت کی رہبری کی بات کرتے ہیں جو کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے لئے مختص ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ عہده ظالموں اور ستمگروں نے غصب کررکھا ہے اور اس طرح «بنو امیہ کی حکمرانی کی شرعی اور قانونی حیثیت کی نفی فرماتے ہیں حتی که اس دعاء میں دیگر خلفاء اولین کی مشروعیت پر بھی تنقید کرلیتے ہیں۔ ‏

‏3۔ دعائے عرفہ (سینتالیسویں دعاء﴾ میں فرماتے ہیں:

«پروردگارا! درود بھیج خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ کے پاک ترین افراد پر جنہیں تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کے نفاذ کے لئے منتخب کیا ہے اور انہیں تو نے اپنے علوم کے لئے خزانہ دار، اپنے دین کے لئے نگہبان، روئے زمین پر اپنا جانشین اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قراردیا ہے اور اپنی ہی مشیت سے انہیں ہر قسم کی پلیدی اور رجس سے یکبارگی کے ساتھ پاک و مطہر فرما دیا ہے۔۔۔

بارخدایا! تو نے ہر زمانے میں ایک امام کے ذریعے اپنے دین کی تائید فرمائی ہے اور اس کو تو نے اپنے بندوں کے لئے رہبر و پرچمدار اور کائنات میں مشعل ہدایت قرار دیا ہے، بعد از آں کہ تو نے اس کو غیب کے رابطے کے ذریعے اپنے آپ سے مرتبط و متصل کردیا ہے اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قراردیا ہے اور اس کی پیروی کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے اور تو نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کریں اور تو نے ہی مقرر فرمایا ہے کہ کوئی بھی ان سے سبقت نہ لے اور ان سے آگے نہ چلے، اور کوئی بھی ان کی پیروی میں پیچھے نہ رہے [اور ان کی حکم عدولی نہ کرے]۔۔۔»(۱۹) ‏

امام علیہ السلام نے اس دعاء میں رہبران الہی اور خاندان نبوت کے ائمہ کے کردار اور خاص مقام و منزلت سمیت ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت دقیق الفاظ اور جملات کے ذریعے اس زمانے کے حکمرانوں کی حاکمیت کی شرعی و قانونی حیثیت کو ہدف قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ حکومت کی مشروعیت [قانونی و شرعی جواز] اوند متعال کے انتخاب سے حاصل ہوتی ہے زور و طاقت کے ذریعے اور حتی که عوامی بیعت کے ذریعے نہیں۔۔۔

اس کلام مختصر کی حسن ختام کی عنوان سے سرحدوں کے محافظین کے لئے امام علیه السلام کی دعاء کے اقتباسات نقل کرتے ہیں جس میں امام علیہ السلام کی تنبیہات قابل غور ہیں: ‏

‏4۔ ستائیسویں دعاء میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں

بار خدایا! محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ اور آپ کی آل پاک پر درود و رحمت بھیج اور اپنی عزت کے صدقے مسلمين کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنا اور اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے سرحدی محافظین کو تقویت پہنچادے اور قوی بنا اور ان کے عطایا کو اپنی توانگری اور بے نیازی کے صدقے دو چند کردے۔ ‏

بارالہا! محمد و آل محمد پر درود بھیج اور سرحدوں کے محافظین کی تعداد میں اضافہ فرما ان کے ہتھیاروں کو مؤثر، ان کی شمشیروں کو تیز اور بُرّان قرار دے، ان کی حدود کی حفاظت فرما اور ان کے محاذوں کے حساس نقطوں کو مستحکم فرما؛ ان کے درمیان الفت اور تعاون قرار دے اور ان کے امور کی اصلاح فرما اور ان کی مشکلات و مسائل اپنی نصرت سے حل فرما اور صبر و استقامت کے ذریعے ان کو تقویت عطا فرما اور [دشمنوں کی چالوں اور ان کی مکاریوں کے مقابلے میں] انہیں باریک بینانہ چارہ جوئیاں سکھادے؛ دشمن کے ساتھ تصادم کے دوران دنیا کی دلفریبیان ان کے دل و دماغ سے نکال دے اور مال اندوزی و دولت اندوزی کی سوچ ان کے قلب و ذہن سے دور فرما۔۔۔ اور آخرت و بہشت کا عشق ان کا ہمدم و مانوس قرار دے۔۔۔ (۲۰) » ‏

حوالہ جات:

‏1) محمد بن یعقوب كلینی، اصول كافی، (تهران، مكتبة الصدوق)، 1381 ه۔ ق، ج‏1، ‏ص‏467، و شیخ مفید، الارشاد، (قم، مكتبة بصیرتی)، ص‏256۔ ‏

‏2) سید محمد رضا حسینی جلالی، تدوین السنه الشریفه، (مكتب الاعلام الاسلامی، ‏قم، 1418ق، ص‏151)۔ ‏

‏3) علی بن شعبه، تحف العقول، (بیروت، مؤسسة الاعلمی، 1394ق)، ص‏255۔ ‏

‏4) ابوالعباس نجاشی، رجال النجاشی، (قم، مكتبة الداوری)، ص‏116۔ ‏

‏5) الكافی، (دارالكتب الاسلامیه، 1366)، ج‏8، ص‏17۔ ‏

‏6) رجال النجاشی، ص‏157۔ ‏

‏7) رجال النجاشی، ص 115 - 116۔ ‏

‏8) آقا بزرگ تهرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، (تهران، المكتبة الاسلامیه)، ج‏15، ‏ص‏18 - 19۔ ‏

‏9) صحیفہ سجادیہ، ترجمه سید صدرالدین بلاغی، با مقدمه‏ای از آیت الله مرعشی ‏نجفی، (تهران، دارالكتب الاسلامیه)، ص‏9 مقدمہ۔ ‏

‏10) ر۔ ك: سلیمان بن ابراهیم قندوزی، ینابیع المودة، (نجف، مكتبۃ الحیدریۃ، 1384 ه۔ ‏‏1965 م) ج‏1 - 2، ص‏599۔ ‏

‏11) مقدمه آیت الله مرعشی بر صحیفه سجادیہ، (وہای مأخذ)، ص‏8 - 9، مقدمه۔ ‏‏12) وہی مأخذ، ص‏27 - 29 ‏بحارالانوار ج102 صفحه 114 و 115۔

‏13) الذریعه، وہی مأخذ، ج‏15، ص‏18 - 19۔ ‏

‏14) ینابیع المودة (وہی)، ص‏599۔ ‏

‏15) مقدمه آیت الله مرعشی نجفی بر صحیفه، (وہی)، ص‏46 مقدمه۔ ‏

‏16) الذریعه، (وہی)، ج‏3، ص 345 - 359۔ ‏

‏17) جییسے ترجمه الهی قمشه‏ای، فیض الاسلام، ابوالحسن شعرانی، محمد آیتی، و ‏ترجمه سید احمد فهری و حسین انصاریان و۔۔۔۔ ‏

‏18) وہی، ص‏345 - 359 و ر۔ ك: مقدمه آیت الله مرعشی نجفی، (وہی) ص‏33 - 35 ‏مقدمه۔ ‏

‏19) وہی، ص‏41 - 43۔ ‏

‏20) وہی، ص‏13 مقدمه۔ ‏

‏21) وہی، ص‏37 مقدمه، و ر۔ ك: مهدی پیشوایی، سیره پیشوایان، (قم، مؤسسه امام ‏صادق علیه السلام)، ص‏270 - 271۔ ‏

‏22) ینابیع المودة، (همان)، ص‏599 - 630۔ ‏

‏23) مقدمه آیت الله مرعشی بر صحیفه، (وہی)، ص‏43 - 45۔ ‏

‏24) صحیفه سجادیه، (وہی)، ص‏102 - 103۔ ‏

‏25) وہی، ص‏281 - 282۔ ‏

‏26) وہی، ص‏254 - 256۔ ‏

‏27) وہی، ص‏40 - 41، دعائے 41۔ ‏

Add comment


Security code
Refresh