www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاھوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بھت ھی طمراق اور سخت متکبرانہ لھجے میں میری طرف یہ کھتے ھوئے آگے بڑھا:

تم اھل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ھی نھیں دیتے ھو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پھلے ان کوپڑھ لیتے ھواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظھر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں)پڑھتے ھو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نھیں ہے۔
مذکورہ اعتراض کا جواب:
میں نے فوراََ اسے یہ جواب دیا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کھنا کہ ظھر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن اور سنت رسول(ص) کے خلاف ہے۔اگر آپ کھیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظھار کرتے ھوئے کھا اگرتمھارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔
پھلی دلیل:قرآن کی واضح و صریح آیت
قرآن مجید کی ظاھری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:
"اقم الصلاہ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر اَن قرآن الفجرکان مشھودا"(۱)
(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز (ظھر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوں کی) گواھی ھوتی ہے۔
آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں:
۱۔ " دلوک الشمس"( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظھروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔
۲۔ "الیٰ غسق الیل"(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔
۳۔ "قرآن الفجران قرآن الفجرکان مشھودا"، اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گیا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں۔
یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ھوتا ہے۔
دوسری دلیل: سنت رسول(ص)
پیغمبر اکرم(ص) سے بھت زیادہ ایسی روایات وارد ھوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظھر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاھے وہ جمع تقدیمی ھوجیسے ظھر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظھر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ھو،جیسے نماز ظھر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پھلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔
اھلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم(ص) سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ھوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں:

النووی کی صحیح مسلم جلد۵ ص۲۱۳،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ھوئی ہیں:
۱۔ یحیٰ بن یحیٰ نے ھمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قراٴت کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کھتے ہیں :رسول خدا(ص) نے نماز ظھروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے۔
۲۔احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوں نے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کھتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کھتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظھرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کھا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم(ص) نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کھا :میں نے یھی سوال ابن عباس سے کیا تو انھوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر اپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نھیں کرنا چاھتے تھے۔
۳۔ ابو الربیع الزھرانی نے حمابن زید سے،انھوں نے عمر بن دینار سے،اور انھوں نے جابر بن زید سے ،اور انھوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں ظھروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں۔
۴۔ بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہےکہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم(ص) نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔(۲)
۵۔ جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کھا :کہ پیغمبر اکرم(ص) نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں۔(۳)
۶۔ ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظھر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کھتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر(ص) نے ایسا کیوں کیا ؟تو انھوں نے جواب دیا پیغمبر چاھتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔(۴)
۷۔ نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظھر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ ادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ھو۔(۵)
۸۔ نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم(ص) نے بغیر کسی عذر کے نماز ظھر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انھوں نے مدینہ میں پیغمبر(ص)کی اقتداء میں نماز ظھرو عصر کے آٹھ سجدوں کو پے در پے ادا کیا ہے۔(۶)
۹۔ عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انھوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کھتے ہیں "پیغمبر اکرم (ص) نے ھمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظھر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دیاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر(ص)نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنھوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی(ص) کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سھولت وآسانی سے کسی ایک فرد ھی کو فائدہ پھونچے"۔(۷)

۱۰۔ البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ھریرہ نے کھا: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے۔(۸)
۱۱۔ الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر(ص) نے مدینہ میں ظھر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول (ص)نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ھو۔(۹)
تیسری دلیل: فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے
ھر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کھا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظھر کی فضیلت اور اس کے استحباب کا وقت " سورج کے زوال کے بعد جب شاخص کا سایہ اُس کے برابر ھو جائے"۔اسی طرح "نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ھو جائے"۔
روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے یعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کھا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نھیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ھو جائے)بجا نہ لائے۔
لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔
جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ھوئی ہے: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظھر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھو ں نے جواب دیا: پیغمبر(ص) چاھتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ھو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔(۱۰)
دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اس طرح ہے:
الف: نماز ظھرو عصرکا مخصوص وقت
نماز ظھر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظھر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ھونے سے پھلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ھی بجا لائی جا سکے ۔
نماز ظھر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ھوتے ھی ظھر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظھر و عصر کا مشترک وقت شروع ھو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ھو جانے کے ساتھ ھی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ھو جاتا ہے۔ان ھی اوقات سے ھم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔
پس اگرنماز ظھر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظھر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پھلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی "جمع بین الصلاتین " کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ھوتا ہے:
"اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر اَن قرآن الفجرکان مشھوداََ"(۱۱)
(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز (ظھر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوں کی) گواھی ھوتی ہے۔
چوتھی دلیل:
پیغمبر اکرم (ص)کا فرمان ہے:"صلّوا کما اُصلّی"نماز کو میرے طور طریقے پر بجالاؤ۔ رسول اکرم(ص) کے قول ،فعل،اورتقریر(محضررسول(ص) میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول(ص) اس کا مشاھدہ کرنے کے بعد خاموش رھیں) کو سنت رسول(ص) کھا جاتا ہے۔ھر وہ بات جو پیغمبر(ص) کی زبان اقدس سے جاری ھو،اور ھر وہ کام جس کو رسول(ص) انجام دیں اور ھر وہ چیز جو پیغمبر(ص) کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ھو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول(ص) کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ حدیث میں پیغمبر(ص) نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ھوں۔
پیغمبر(ص)کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ھمیں ملتی ہے۔
لھذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) سے منقول تیس سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر(ص)نےاپنی نمازوں کوجمع بین الصلاتین کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوھریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اھل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ھوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقھاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ھونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :
پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظھر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں) ایوب نے کھا کہ پیغمبر(ص) نے شاید ایسا بارش ھونے کی وجہ کیا ھو؟جواب میں کھا گیا ممکن ہے ایسا ھی ھو۔(۱۲)
اس منقولہ روایت میں ھم واضح طور پر اس چیز کا مشاھدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاھیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاھتے تھے،لھذٰا "لعلہ فی لیلة مطیرة"کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر(ص) نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ھو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بھت سی روایات واضح طور پر دو نمازوں کے جمع کے جواز کو بیان کر رھی ہیں،اَور جناب ایوب یہ چاھتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّہ فی لیلة مطیرة)کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ھونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص)نے ایسا کیا ہے ۔
جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بھت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رھا ہے(لعلّہ فی سفرِِو مطرِِ)کہ شاید پیغمبر(ص) نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ھو؟تو جواب دیا: ھاں شاید ایسا ھی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاھدہ کیا ۔لیکن ھم تو پیغمبر اعظم(ص) کے واضح و روشن حکم پر عمل کریں گے،اور ان کا واضح و روشن حکم وھی جواز جمع بین الصلاتین ہے جو یقینی حکم ہے اور یم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر یقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔
یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر ایل سنت کے علماء مبتلاء یونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدیتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :
"ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا"(۱۳)
جو تم کو رسول(ص) دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رھو۔
مثلاََ اھل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رھی ہیں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:
اگر ھم لفظ "الغسق"کے ظاھر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ھوئے اس کا معنیٰ "الظلمة" رات کی تاریکی اور اندھیرا مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔
۱۔ زوال کا وقت،۲۔ مغرب کا اول وقت،۳۔ فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظھر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لھذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ھو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ھوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظھرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ھر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رھی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ھو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نھیں لھذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔(۱۴)
اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت "اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل․․․․"سے مطلقاََ نماز ظھر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظھار کیاہے اورپھر اچانک ھی اپنی رائے یہ کھتے ھوئے تبدیل کردی کہ"الاّ انہ دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز؟"
(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رھی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ھو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نھیں ہے لھذاجمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)۔
ھم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول(ص) کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سھارا لے رھے ہیں؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول(ص) دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رھی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم(ص) نے عملی طور پرایسا نھیں کیا؟لھذا فخر رازی کا یہ اجتھاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتھاد قرآن اورسنت رسول(ص) کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتھاد در مقابل نصّ ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ سورہ اسراء آیت ۷۸۔
۲۔ صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۳۔
۳۔ صحیح بخاری ج۱ص۱۱۳۔
۴۔ سنن ترمذی ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷ باب ،ما جاء فی الجمع۔
۵۔ سنن نسائی ،ج۱ ص۲۹۰باب الجمع بین الصلاتین۔
۶۔ سنن نسائی ج۱ ص۲۸۶ ،باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم۔
۷۔ مصھف عبد الرزاق ج۲ ص۵۵۲،حدیث ۴۴۳۸۔
۸۔ مسند البزار ج۱ ،ص۲۸۳،حدیث ۴۲۱۔
۹۔ المعجم الکبیر الطبرانی ،ج۱۰ ص۲۶۹،حدیث ۱۰۵۲۵۔
۱۰۔سنن ترمذی ،ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷باب ما جاء فی الجمع۔
۱۱۔ سورہ اسراء ،آیت ۷۸۔
۱۲۔ صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۰،باب تاخیر الظھر الی العصر۔
۱۳۔ سورہ حشر ،آیت ۷۔
۱۴۔ تفسیر رازی ،الکبیر ،ج۲۱،۲۲۔ص۲۷۔
 

Add comment


Security code
Refresh