www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے:" وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِاٴَبْصَارِھمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ "(۱) اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلا دیں گے۔

اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ کیا نظر بد کی کو ئی حقیقت ہے؟
بھت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مخصوص اثر ھوتا ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ممکن ہے وہ خراب ھوجائے یا نیست و نابود ھوجائے، یا اگر کسی انسان کو اس نگاہ سے دیکھ لے تو یاوہ بیمار یا پاگل ھوجائے۔
عقلی لحاظ سے یہ مسئلہ محال نھیں ہے کیونکہ آج کل کے متعدد دانشورں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی طاقت ھوتی ہے جس سے بھت کام لیا جاسکتا ہے، یھاں تک کہ اس کی تمرین اور ممارست سے اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے،"مقناطیسی نیند" (ہیپناٹزم Hypnotism )بھی آنکھ کی اسی مقناطیسی طاقت کے ذریعہ ھوتی ہے۔
آج جبکہ "لیزری شعاعیں"دکھائی نہ دینے والی لھریں ایسا کام کرتی ہیں جو کسی خطرناک اور تباہ کن ھتھیار سے نھیں ھوسکتا، تو بعض لوگوں کی آنکھوں میں اس طاقت کا پایا جانا جو مخصوص لھروں کے ذریعہ مد مقابل پر اثر انداز ھوتی ہے، تعجب کی بات نھیں ھے۔
متعدد لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ھم نے خود اپنی آنکھوں سے بعض لو گوں کی آنکھوں میں ایسی طاقت کا مشاھدہ کیا ہے جنھوں نے اپنی نظر سے انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔
لھذا نہ صرف اس چیز کے انکار پر اصرار کیا جائے بلکہ عقلی اور علمی لحاظ سے اس کو قبول کیا جاناچاھئے۔
بعض اسلامی روایات میں بھی ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے اجمالی طور پر اس چیز کی تائید ھوتی ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں بیان ھوا ہے کہ "اسماء بنت عمیس" نے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں عرض کی: جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں ان کے لئے "رقیہ" لے لوں ("رقیہ"اس دعا کو کھتے ہیں جو نظر لگنے سے روکنے کے لئے لکھی جاتی ہے اور اس کا تعویذ بنایا جاتا ہے)۔
تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: "نَعَمْ، فَلَو کَانَ شَیءٍ یسبقُ القَدْرِ لَسَبَقَہُ العَیْنِ"(۲) ھاں، کوئی حرج نھیں ہے، اگر کوئی چیز قضا و قدر پر سبقت لینے والی ھو تی تو وہ نظر بد ھو تی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں بیان ھوا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اکرم (ص) نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے لئے تعویذ بنایا اور اس دعا کو پڑھا: "اٴعِیذُ کَمَا بِکَلِمَاتِ التَّامةِ وَ اٴسْمَاءِ اللّٰہِ الحُسْنٰی کُلِّھَا عَامة، مِنْ شرِّ السَّامَةِ وَ الھَّامَةِ، وَ مِنْ شرِّکُلُّ عَینٍ لَامَّةِ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَد" (تمھیں تمام کلمات اور اللہ کے اسماء حسنی کی پناہ میں دیتا ھوں ،بری موت، موذی حیوانات، بری نظر اور حسد کرنے والے کے شر سے) ، اور اس کے بعد ھماری طرف دیکھ کر فرمایا: "جناب ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور اسحاق کے لئے یھی تعویذ بنایا تھا۔(۳)
اسی طرح نھج البلاغہ میں بیان ھوا ہے:"العَیْنُ حَقٌّ وَ الرقيٌّ حَقٌّ"(۴) چشم بد اور دعا کے ذریعہ اس کو دفع کرنا حقیقت رکھتے ہیں۔(۵)

حوالہ:
۱۔ سورہٴ قلم ، آیت ۵۱۔
۲۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص۳۴۱۔
۳۔ نور الثقلین ، جلد ۵، ص۴۰۰۔
۴۔ نھج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر ۴۰۰، (یہ حدیث صحیح بخاری، جلد ۷، صفحہ ۱۷۱، باب "العین حق"میں بھی اسی صورت سے نقل ھوئی ہے: العین حق) ، نیز "معجم لالفاظ الحدیث النبوی" میں بھی مختلف منابع سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، (جلد ۴، صفحہ ۴۵۱)۔
۵۔ تفسیر نمونہ ، جلد ۲۴، صفحہ ۴۲۶۔
منبع: ۱۱۰ سوال اور جواب ؛ مؤلّف : آٰیۃ اللہ مکارم شیرزای ۔
 

Add comment


Security code
Refresh