www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

توحید کے معنی
کلمہ توحید لغوی اعتبار سے ''یگانہ اور یکتا'' کے معنی میں آیاہے لیکن فلاسفہ، متکلمین، علماء اخلاق اور عرفاء کی نظر میں یہ متعدد معانی میں استعمال ھوتا ہے، اور ان معانی میں سے ھر ایک توحید پر دلالت کرتا ہے، جنھیں اقسامِ توحید یا ''مراتب توحید'' بھی کھا جاتا ہے، لیکن یھاں پر ان کا بیان کرنا ھمارے ھدف سے خارج ہے۔

اسی وجہ سے یھاں پر ھم اس بحث سے مناسب اصطلاحات کا ذکر کریں گے،
١۔تعدد کی نفی: توحید کی سب سے پھلی اور معروف اصطلاح خدا کی وحدانیت کا اعتقاد رکھنا ہے نیز شرک صریح کے مقابلے میں تعدد خدا کی نفی ،یعنی دو یا دو سے زائد خدا کے وجود سے انکار اس طرح سے کہ ھر ایک کا وجود مستقل اور ایک دوسرے سے علیدہ ھو ۔
٢۔ ترکیب کی نفی : دوسری اصطلاح اس معنی میں ہے ، کہ اس کی احدیت نیز درون ذاتی کے اعتبار سے ، اس کے بسیط ھونے کا اعتقاد رکھتا ہے یعنی ذات الھی ، بالفعل اور بالقوہ اجزاسے مرکب نھیں ہے ۔اس صفت کو زیادہ تر بصورت صفات سلبیہ بیان کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسویں درس میں اشارہ کیا جاچکا ہے، اس لئے کہ ھمارا ذھن مفھومِ ترکیب اور اس کے بطلان سے مفھوم بساطت کی بہ نسبت زیادہ آشنا ہے۔
زائد برذات صفات کی نفی
تیسری اصطلاح ذات الٰھی کا صفات ذاتیہ کے ساتھ یگانگت اور صفات کے زائد برذات نہ ھونے کے معنی میں ہے، کہ جسے (توحید صفاتی) کھا جاتا ہے اور روایات میں ''نفیِ صفات'' کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ اشاعرہ صفات الٰھیہ کے زائد بر ذات اور قدماء ثمانیہ ھونے کے قائل ہیں۔
توحید صفاتی کی دلیل یہ ہے کہ اگر تمام صفات الٰھی میں سے ھر ایک کے لئے جدا گانہ و علیحدہ مصداق فرض کر لئے جائیں تو چند صورتوں سے خالی نھیں ہے،'پھلی صورت، یا ان صفات کے مصادیق ذات الٰھی میں یا داخل ھوں گے جس کا لاز می نتیجہ یہ ھوگا کہ ذات الٰھی کا اجزا سے مرکب ھونا لازم آئے گا کا مرکب کھلائے، جس کو ھم پھلے ھی بیان کر چکے ہیں کہ ایسا ھونا محال ہے یا وہ مصادیق ذات الٰھی سے جدا فرض کئے جائیں گے ایسی حالت میں یا تو وہ واجب الوجود ھوں گے یعنی وہ پیدا کرنے والے سے بے نیاز ھوں گے ، یا وہ ممکن الوجود ھوں گے کہ جس کے لیے ایک خالق کا ھونا ضروری ہے ، لیکن صفات واجب الوجود ھونے کا فرض تعددِ ذات اور شرک ِصریح کا موجب ہے، اور ھم یہ تصور نھیں کرسکتے کہ کسی مسلمان کا عقیدہ ایسا ھو گا، یا پھر صفات کا ممکن الوجود ھونے کا یہ مطلب ہے کہ خدا وند عالم ان صفات سے عاری ہے مزید بر آں ، وہ ان صفات کو خلق کرے اور پھر ان سے متصف ھوجائے جیسے اگر وہ حیات نھیں رکھتا لیکن وہ ایک موجود بنام ''حیات'' خلق کرے ،اور اس طرح وہ حیات کا مالک بن جائے اسی طرح اس کی دوسری صفات بھی فرض کر لی جائیں، حالانکہ یہ امر محال ہے کہ علت وجود آفرین مخلوقات کے کمالات کا حامل نہ ھو اور اس فرضیہ سے بدتر، تو یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوقات کے ضمن میں علم و قدرت اور بقیہ صفات کمالیہ سے متصف ھو۔
اس فرضیہ کے بطلان کے بعد یہ ثابت ھوگیا کہ خداوند عالم کے صفات زائد برذات نھیں ہیں بلکہ وہ عین ذات ہیں اور وہ ا یسے مفاھیم ہیں کہ عقل جس سے ایک مصداق بسیط کہ جسے ذات مقدس الٰھی رھتے ہیں اخذ کرتی ہے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh