www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

 رسول اکرم(ص)جس شخص کو پرورگار نے میرے اھلبیت (ع) کی معرفت اور محبت کی توفیق دید گویا اس کے لئے تمام خیر جمع کردیا۔(امالی صدوق (ر) 383 /9 ، بشارة المصطفیٰ ص 186)۔

 رسول اکرم(ص)معرفت آل محمد (ع)جھنم سے نجات کا وسیلہ ہے اور حب آل محمد صراط سے گذرنے کا ذریعہ ہے اور ولایت آل محمد(ع) عذاب الھی سے امان ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 78 /16 ، فرائد السمطین 2 ص257 ، احقاق الحق 18 / 496 ۔ 9/494)۔

 سلمان فارسی میں رسول اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ھوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ پروردگار نے ہر نبی اور رسول کے لئے بارہ نقیب معین فرمائے ہیں تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان۔ ان بارہ کی معرفت کا فائدہ کیاہے؟ فرمایا سلمان ! جس نے ان کی مکمل معرفت حاصل کرلی اور اقتدا کرلی کہ ان کے دوست سے محبت کی اور دشمن سے بیزاری اختیار کی وہ خدا کی قسم ہم سے ہوگا اور وہیں وارد ہوگا جہاں ہم وارد ہوں گے اور وہیں رہے گا جہاں ہم رہیں گے۔(بحار الانوار53/142۔162 ، 25 ص6 ،9)۔

 امیر المومنین (ع)،خوش بخت ترین انسان وہ ہے جس نے ہمارے فضل کو پہچان لیا اور ہمارے ذریعہ خدا کا قرب اختیار کیا اور ہماری محبت میں اخلاص پیدا کیا اور ہماری دعوت پر عمل کیا اور ہمارے روکنے سے رک گیا ، یہی شخص ہم سے ہے اور جن میں ہمارے ساتھ ہوگا۔( غرر الحکم ص 3297)۔

 امام (ع) صادق کا بیان ہے کہ امام حسین (ع) اپنے اصحاب کے مجمع میں آئے اور فرمایا کہ پرودرگار نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ اسے پہچانیں اس کے بعد جب پہچان لیں گے تو عبادت بھی کریں گے اور جب اس کی عبادت کریں گے تو اغیار کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

ایک شخص نے عرض کی کہ معرفت خدا کا مفہوم اور وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا ہر زمانہ کا انسان اس دور کے اس امام کی معرفت حاصل کرے جس کی اطاعت واجب کی گئی ہے( اور اس کے ذریعہ پروردگار کی معرفت حاصل کرے) ( علل الشرائع 9/ 1ز سلمہ بن عطاء ، کنز الفوائد 1 ص 328 ، احقاق الحق 11/594)۔

 امام باقر (ع) ! خدا کو وہی شخص پہچان سکتاہے اور اس کی عبادت کرسکتاہے جو ہم اہلبیت (ع) میں سے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل کرلے۔ (کافی 1/181 از جابر)۔

 زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ ذرا معرفت امام کے بارے میں فرمائیں کہ کیا یہ تمام مخلوقات پر واجب ہے ؟ فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو تمام عالم انسانیت کے لئے رسول اور تمام مخلوقات کے لئے اپنی حجت بناکر بھیجا ہے لہذا جو شخص بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرے اس پر امام اہلبیت (ع) کی معرفت بہر حال واجب ہے۔( کافی 1 ص 180 / 3)۔

سالم ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا ” ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے منتخب بندوں کو قرار دیا ہے جن میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، بعض درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں کے ساتھ سبقت کرنے والے ہیں ” کہ ان سب سے مراد کون لوگ ہیں “؟

فرمایا سبقت کرنے والا امام ہوتاہے، درمیانی راہ پر چلنے والا اس کا عارف ہوتاہے اور ظالم اس کی معرفت سے محروم شخص ہوتاہے۔(کافی 1 ص 214/1)۔

زرعہ ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کی کہ معرفت کے بعد سب سے عظیم عمل کونسا ہے؟ فرمایا معرفت کے بعد نماز کے ہم پلہ کوئی عمل نہیں ہے اور معرفت و نماز کے بعد زکٰوة کے برابر کوئی کام نہیں ہے اور ان تینوں کے بعد روزہ جیسا کوئی عمل نہیں ہے اور روزہ کے بعد حج جیسا کوئی عمل نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھنا کہ ان سب اعمال کا آغاز و انجام ہم اہلبیت (ع) کی معرفت ہے اور اس کے بغیر کسی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ( امالی طوسی (ر) 694 / 1478)۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے اور کسی شخص کو ہماری معرفت سے آزاد نہیں رکھا گیا ہے اور نہ اس جہالت میں معذور قرار دیا گیا ہے۔… اگر کوئی شخص ہماری معرفت حاصل نہ کرے اور ہمارا انکار بھی نہ کرے تو بھی گمراہ رہے گا جب تک راہ راست پر واپس نہ آجائے اور ہماری اطاعت ہیں داخل نہ ہوجائے ورنہ اگر اسی ضلالت پر مرگیا تو پروردگار جو چاہے گا برتاؤ کرے گا ۔( کافی 1 ص 187 / 11)۔

 اما م صادق (ع) نے آیت کریمہ ” جسے حکمت دیدی گئی اسے خیر کثیر دیدیا گیا“ کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ حکمت سے مراد امام کی اطاعت اور اس کی معرفت ہے۔(کافی 1 ص185 /11 ۔ از ابوبصیر)۔

امام صادق (ع) نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم کرائی ، خدایا مجھے اپنے معرفت عطا فرماکہ اگر میں تجھے نہ پہچان سکا تو تیرے نبی کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرمای کہ اگر انھیں نہ پہچان سکا تو تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کہ اگر اس سے محروم رہ گیا تو دین سے گمراہ ہوجاؤ گا ۔( کافی 1 ص 337 / 5 از زرارہ)۔

 امام رضا (ع) ائمہ معصومین کی قبروں کی زیارت کے ذیل میں فرمایا کرتے تھے کہ سلام ہو ان پر جو معرفت خدا کا مرکز تھے… جس نے ان کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جو ان کی معرفت سے جاہل رہ گیا وہ خدا سے بے خبر رہ گیا ۔( کافی 4 ص 578 / 2 ، کامل الزیارات ص 315 از علی بن حسّان)۔

Add comment


Security code
Refresh