www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت، شرک، ناانصافی، نسلی قومی و لسانی امتیازات، جھالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کھی جا سکتی ہے.

ھجرت سے 13 سال قبل،27 رجب المرجب کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت، شرک، ناانصافی، نسلی قومی و لسانی امتیازات، جھالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز ہے اور صحیح معنوں میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کو از سر نو زندہ و تابندہ کرکے عالم بشریت کو توحید، معنویت، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ"خبردار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تاکہ تم نجات و فلاح پا سکو"۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جھالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ھوتے چلے گئے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت جو درحقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے۔
مورخین کابیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں عالم تنھائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کے کانوں میں آوازآئی " یامحمد" آپ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھا، ناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل تھے انھوں نے کھا کہ "اقراء" پڑھو، حضورنے ارشاد فرمایا " مااقراء" کیاپڑھوں؟ انھوں نے عرض کی کہ " اقراء باسم ربک الذی خلق ۔ ۔ ۔" پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۳۸سال کی عمرمیں " کوہ حرا " کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیااوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کرعبادت کرتے تھے۔
غارکی لمبائی چارھاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ھاتھ تھی اورخانہ کعبہ کودیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تو دو دو، چارچارشبانہ روز وھاں رھاکرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کا سارا وھیں گزارتے تھے۔
آپ کوعلم قرآن پھلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کا مقصدیہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ھوجائے اس وقت آ پ کی عمر چالیس سال ایک دن تھی اس کے بعد جبرئیل نے وضو اور نماز کی طرف اشارہ کیا اور اس کی تعداد رکعات کی طرف بھی حضور کو متوجہ کیا چنانچہ حضور والا صفات نے وضو کیا اور نماز پڑھی آپ نے سب سے پھلے جو نماز پڑھی وہ ظھر کی تھی پھر حضرت وھاں سے اپنے گھرتشریف لائے اور خدیجةالکبری اور علی ابن ابی طالب علیهماالسلام سے واقعہ بیان فرمایا۔
ان دو بزرگواروں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! ھم عرصۂ دراز سے اس دن کا انتظار کررھے تھے۔ اور یوں دونوں ایمان لائے اور دونوں نے اظھار ایمان کیا اور نماز عصر ان دونوں نے رسول الله (ص) کی امامت میں با جماعت ادا کی یہ اسلام کی پھلی نماز باجماعت تھی جس میں رسول کریم(ص) امام ،جناب خدیجہ (س)اورعلی(ع) ماموم تھے۔
آپ درجہ نبوت پر ابتدا ھی سے فائزتھے، ۲۷رجب کومبعوث برسالت ھوئے اسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ھوئی۔
یھاں اس افسانے کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے جو بعض اسلام مخالف قوتوں کے لئے بھی ایک دستاویز کی صورت اختیار کرگیا ہے اور وہ یوں کہ رسول اللہ (ص) غار حرا سے آئے تو آپ (ع) کو معلوم ھی نھیں تھا کہ آپ (ص) کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو بخار چڑھ گیا تھا اور ام المؤمنین سیدہ خدیجة الکبری سلام اللہ علیھا نے آپ (ص) کو چادر دی اور آپ نے چادر اوڑھ لی۔ اور پھر حضرت خدیجہ(س) نے عرض کیا: یا محمد (ص)! فکرمندی کی کوئی ضرورت نھیں ہے، میرے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل ان مسائل سے آگھی رکھتے ہیں اب ان کے پاس جاکر معلوم کرتے ہیں کہ کیا واقعہ نمودار ھوا ہے۔ دونوں ورقہ کے پاس پھنچے اور معاذاللہ ورقہ نے کھا: "لگتا ہے کہ آپ اس زمانے کے نبی ہیں"!!!؟؟؟... یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو شیعہ عقائد کے مطابق بالکل باطل اور غلط ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) نے خود ھی فرمایا ہے کہ "میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (ع) پانی اور مٹی کے درمیان تھے"۔
بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک نھایت رازداری اورپوشیدگی کے ساتھ فرائض انجام دیئے اس کے بعد کھلے عام تبلیغ کاحکم آگیا"فاصدع بما تؤمر" جو حکم دیاگیاہے اس کی تکمیل کرو۔
تاریخ ابو الفدا میں ہے کہ " تین برس تک پیغمبر(ص) خدا دعوت فطرت اسلام خفیہ کرتے رھے مگر جب کہ یہ آیت نازل ھوئی" و انذر عشیرتک الاقربین" یعنی ڈرا اپنے کنبے والوں کو جو قریبی رشتہ دار ہیں....
 

Add comment


Security code
Refresh