www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام نے درندگی پر مبنی رسم و رواج کو عادلانہ قوانین کے ذریعے ختم کیا اگر آج بھی ایسے قوانین اسلامی معاشروں میں دیکھے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ

 وہ معاشرے دین کو اپنانے میں ناکام رھے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی بھترین کوشش کی لیکن اگر یہ کوششیں ھمارے معاشروں میں بارآور دکھائی نھیں دے رھی ہیں تو یہ ھمارے انحراف کا ثبوت ہے. 
اقدار کا انقلاب
انسانوں کی دنیا اور آخرت نابود ھورھی تھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ھوئے اور لوگوں کی دنیا با مقصد ھوئی اور مادی قدریں الھی قدروں میں بدل گئیں۔ خرافہ پرستی اور توھم پرستی نے اپنی جگہ حقیقت کی تلاش کو دی گو کہ بعض لوگ آج تک حقیقت کی تلاش کو گمراھی کا سبب سمجھتے ہیں اور لکیر کی فقیری کو سنت حسنہ سمجھتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو تحقیق و تدبر کا راستہ دکھانے کے لئے تشریف لائے اور اگر طے یہ ھوتا کہ لوگ لکیر کے فقیر ھوں اور تبدیلی اور اصلاح اور تحقیق و مطالعہ نہ کریں تو بعثت کی ضرورت ھی کیا تھی؟
بعثت کے بعد رسول اللہ(ص) نے کشت و خون اور قتل و غارتگری اور ناانصافی کو قسط و عدل و مساوات اور مواسات میں بدل دیا؛ ـ مساوات اس لحاظ سے کہ انسان اللہ کی بارگاہ میں برابر ہیں اور کالے اور گورے میں فرق نھيں ہے اور مواسات کے معنی ایثار کے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی دولت، اپنے لباس اور اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی دے اور قرآنی حکم کے مطابق اپنی آمدنی میں غرباء کے لئے بھی ایک حصہ قرار دے اور صدقہ و خیرات ادا کرے ـ چنانچہ نیچ سمجھے جانے والوں کو اسلام نے انسانیت کا درجہ دیا اور سیاہ غلاموں کو مکہ اور مدینہ کے کافر و مشرک راجوں مھاراجوں پر فوقیت دی اور مسلمان سرداروں کے برابر لاکھڑا کیا۔ پست قبیلوں اور غلاموں کو باعزت معاشرتی درجہ دیا گیا اور مادی معیاروں نے رخت سفر باندھا اور معنوی معیار آگئے۔
یہ غلط فھمی نہ آنے پائے کہ یہ جو آج بھی اسلامی معاشروں میں غلامی، نا انصافی، عدم برابری، قتل و غارت، مختلف قسم کے قومی، فرقہ وارانہ اور معاشرتی حیثیت کے حوالے سے امتیازی رویئے پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اسلام سے ہے! حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دور جاھلیت سے ہے جس کا جدید ورژن دنیا بھر میں رائج ہے اور مسلمان کھلوانے والے جھلاء کے ساتھ ساتھ نام نھاد مغربی تمدن کے منتظمین بھی دور جدید کی جاھلیت کے علمبردار اور دنیا بھر میں امتیازی رویوں کا جھنڈا اٹھائے ھوئے ہیں۔
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اقدار کا انقلاب تھی جس نے تمام غیرانسانی اور وحشیانہ اقدار کو بدل دیا اور اگر آج ھمارے مسلم معاشروں میں اس طرح کی قدریں پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نھیں ہے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "ھمارے معاشرے مسلمان ہیں لیکن اسلامی نھیں ہیں اور اگرچہ لوگ مسلمان ہيں لیکن ان کی رائج قدروں کا اسلام سے کوئی تعلق نھيں ہے۔
اسلام نے درندگی پر مبنی رسم و رواج کو عادلانہ قوانین کے ذریعے ختم کیا اگر آج بھی ایسے قوانین اسلامی معاشروں میں دیکھے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے دین کو اپنانے میں ناکام رھے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی بھترین کوشش کی لیکن اگر یہ کوششیں ھمارے معاشروں میں بارآور دکھائی نھیں دے رھی ہیں تو یہ ھمارے انحراف کا ثبوت ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ انحرافات کب سے شروع ھوئے اور کیوں اور کیسے شروع ھوئے لیکن امر مسلم یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے ھماری سعادت کے سارے قوانین دیئے اور اگر ھم نے اپنی مصلحت اور اپنے مفادات کو ان قوانین اور احکامات سے دوری کرنے میں ڈھونڈی تو اس میں اسلام کا کوئی قصور نھیں ہے۔
اسلام کے رھبر بزرگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ صرف خود جاھلانہ رسوم اور خرافات و توھمات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی بلکہ اپنے صحابہ سے بھی فرماتے رھے کہ جھاں بھی جائیں سب سے پھلے خرافات و توھمات کا خاتمہ کریں تا کہ اسلام کا پودا لگانے کے لئے زمین زرخیز ھوجائے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاذ بن جبل کو تبلیغ کی غرض سے یمن روانہ کیا تو فرمایا: سب سے پھلے جاھلانہ رسموں کو مار دو اور پھر لوگوں میں اسلام کی حیات آفرین سنتیں رائج کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 23 سال تک محنت کی اور اپنی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں حجۃالوداع کے دوران لوگوں کو پھر بھی اقدار میں انقلاب بپا کرنے کی تلقین اور کمال انسانی کی خوبصورتیوں اور ارتقائی چوٹیوں کی طرف صعود و عروج کرنے کی تاکید فرمائی؛ فرمایا: "ألا کُلُّ شَیءٍ مِنْ أمْرِ الْجاهِلیّةِ تَحْتَ قَدَمی موضوعٌ"۔( سیرة ابن هشام، ابو محمد عبد الملک بن هشام حمیری، مطبوعہ دار القلم، بیروت، ج۴، ص۲۵۰ )
جان لو کہ میں جاھلیت کی تمام باطل رسموں کو پاؤں تلے روندتا ھوں اور انھیں باطل قرار دیتا ھوں۔
بعثت نبی (ص) کا فلسفہ:
مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ھمیں نجات اور سعادت کی ساری ترکیبیں سکھائیں لیکن ھم اپنے لئے زیادہ وقعت و اھمیت کے قائل ھوئے اور ھم نے بھت سی چیزیں آپ (ص) سے اخذ کرنے کو ضروری نھيں سمجھا اسی وجہ سے ھم بھت سے اسرار کو سمجھنے سے قاصر رھے کیونکہ ان تعلیمات میں عبور کے لئے کچھ رموز ہیں جو عمل نہ کریں تو کھوجاتے ہیں اور آج کی سائبر اصطلاحات کے مطابق جب آپ غلط یوزر نیم چند مرتبہ دھرائیں گے تو پاس ورڈ بھی ھاتھ سے نکلے گا اور آپ کو بیگانہ یا جارح اور متجاوز سمجھا جائے گا اور لوٹنے کے لئے پھلے جیسا سلسلہ طے کرنا پڑے گا۔ جب کوڈ ورڈ یا پاس ورڈ کھوجائے تو اسلامی تعلیمات کی جڑوں تک پھنچنے سے محرومی حاصل ھوگی اور بیگانوں کی طرف دیکھنا پڑے گا اور ھم مسلمانوں کے لئے یہ بات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی بعثت نبی (ص) کو اقدار کا انقلاب قرار دیتے ہیں اور فلسفۂ بعثت کی وضاحت کرتے ھوئے اسی نکتے پر زور دیتے ہیں؛ فرماتے ہیں:
"ألا وَإنّ بَلیَّتَکُمْ قَدْ عادَتْ کَهَیئَتِها یَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبیَّهُ ـ صلّی الله علیه و آله ـ وَالَّذی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً وَلَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَلَتُساطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّی یَعُودَ أسْفَلُکُمْ أعْلاکُمْ وَأعْلاکُمْ أسْفَلَکُمْ"۔(نهج البلاغه، خطبه۱۶)
جان لو اور آگاہ ھوجاؤ کہ تمھاری بدبختیاں اور تمھارے فتنے بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل کے زمانے کی مانند، واپس تمھاری جانب لوٹ آئے ہیں۔ اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر (ص) کو برحق مبعوث فرمایا تم کڑی آزمائش سے دوچار ھوجاؤگے اور چھلنی میں دانوں یا دیگ میں کھانے کی مانند الٹ پلٹ دیئے جاؤگے حتی کہ اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ھوجائیں۔
یعنی اے مسلمانو! تم عصر بعثت کی طرح منقلب اور دیگرگوں ھوجاؤگے اور ایک بار پھر اقدار کا انقلاب رونما ھوگا۔
اس ارشاد مولا سے واضح ھوتا ہے کہ لوگ ایک بار طبقاتی نظام کا شکار ھوجائیں اور جاھلیت کی طرف لوٹیں گے اور وہ ایک بار پھر اقدار کے انقلاب کے محتاج ھونگے اور ان کے اوپر کے طبقوں کو نیچے لایا جائے گا اور معاشرے کے پسے ھوئے طبقوں کو ان کا جائز مقام دیتے ھوئے مالداروں اور صاحب حیثیت لوگوں کے برابر میں لایا جائے گا اور مادی و ظاھری اقدار کو ایک بار پھر معنوی اور انقلابی اقدار میں تبدیل کیا جائے گا اور حق ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لو ٹے گا جس کا مسلمانان عالم، عیسائی دنیا اور یھودی مکتب سے لے کے بدھ مت اور ھندومت نیز دیگر مشرقی فلسفی مکاتب کے پیروکار بھی اس دن کے منتظر ہیں جب حق اپنے محور کی جانب لوٹے گا اور حق کے معیارات پھچانے جائیں گے چنانچہ حق اھل حق بھی پھچانے جاسکیں گے اور اھل باطل بھی؛ چنانچہ مولائے کائنات علیہ السلام کے کلام میں بوضوح فرمایا گیا ہے کہ"چونکہ تم نے پیشرفت کی بجائے پسرفت کی ہے اور ترقی کی بجائے تنزل اور اوج و عروج کی بجائے حضیض کی طرف لوٹے ھو اسی لئے اب ایک بار تمھیں ترقی اور پیشرفت کی جانب کے لئے ان ھی مراحل سے گذرنا پڑے گا اور ان ھی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا اور حق سے دور کئے جانے والے حق کو ایک بار پھر اپنے محور کی طرف لوٹایا جائے گا؛ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"عليّ مع الحق والحق مع عليّ لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض"۔(تاريخ بغداد، ج ۱۴، ص ۳۲۱)
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دو ھرگز الگ نہ ھوگے حتی کہ قیامت کے روز حوض کوثر پر مجھ سے آملیں۔
طبراني اور دوسرے راویوں سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے ھوئے عید غدیر کے دن یوں دعا کی:
"اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه ۔۔۔ وادر الحق معه حيث دار"۔(المعجم الأوسط، ج ۵، ص ۴۵۵، ح ۴۸۷۷)
اے اللہ تو محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے اور دشمنی کر اس سے جو علی کی دشمنی کرے اور حق کو اسی طرف پلٹا دے جس طرف کہ علی پلٹتے ہیں۔
یعنی علی علیہ السلام کو معیار اور مدار قرار دے اور ھم جانتے ہیں کہ ایک ایک طرف دعا ہے تو دوسری طرف سے ایک خبر بھی اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا جارھا ہے کہ حق کا دارو مدار علی علیہ السلام کی شخصیت پر ہے اور علی ہے میزان حق و باطل ہیں چنانچہ سب کچھ علی اور آل علی علیھم السلام کی طرف لوٹے گا تو دنیاوی اور اخروی سعادت ملے گی اور علوم و معرفت کے دروازے مل جائیں گے اور رمز کی علامتوں اور کوڈ لفظوں کا حصول ممکن ھوجائے گا۔
میرے خیال میں انسانوں نے موجودہ بدبختیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے تمام راستے طے کئے ہیں اور تمام تر روشوں کو بروئے کار لا چکے ہیں لیکن وہ گویا دلدل میں پھنسے ھوئے ہیں اور جتنا نکلنے کے لئے زور لگاتے ہيں اس میں مزید دھنس رھے ہیں لیکن انھوں نے حقیقی راستہ اپنانے کی طرف توجہ نھیں کی ہے اور وہ حقیقی راستہ درحقیقت محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راستہ ہے جھاں سعادت یقینی ہے اور وھاں کسی طرح کے بحران اور ناھمواری کا تصور نھیں ہے اور اگر بحران بھی آتا ہے تو وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ھم ان کے راستے پر گامزن نھيں ہیں خواہ ھم محمد و آل محمد (ص) کی پیروکاری کے دعویدار ھی کیوں نہ ھوں۔
روح کی تربیت اور تھذیب و تزکیہ
انبیاء علیھم السلام کے اھم ترین اھداف و مقاصد میں میں ایک تھذیب نفوس اور باصلاحیت افراد کی تربیت ہے۔ انبیاء علیھم السلام کی کوشش ھوتی ہے کہ انسانوں کی اندرونی قوتوں اور صلاحیتوں کو اندرونی قابلیت سے عملی صلاحیت میں تبدیل کرتے ہیں اور کمال و سعادت کی چوٹی تک پھنچنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
انبیاء علیھم السلام اور بالخصوص سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انسانوں کو مبدأِ وجود یعنی رب متعال سے متصل کرنے کے لئے راستہ ھموار کرتے ہیں اور انسانوں کے کمالی اور تعالِي کے لئے تمھید و مقدمہ تیار کرتے ہیں۔
خداوند متعال قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں اس نکتے امر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے:
"لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیاتِهِ وَیُزَکّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُم الْکِتابَ وَالْحِکْمَةَ وَإنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفی ضَلالٍ مُبینٍ"۔(آل عمران/ ۱۶۴)
خداوند متعال نے مؤمنوں پر احسان فرمایا جب اس نے ان کے درمیان سے ھی ان ھی میں سے ایک نبی مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ و تھذیب کرتے ہیں اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہيں؛ خواہ وہ بعثت سے قبل کھلی گمراھی میں ھی کیوں نہ رھے ھوں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کلام اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ھوئے ان کی روح و جسم کو صیقل اور جلا دیتے ہیں اور ان کے دلوں اور ذھنوں سے جھل، خود پرستی، تکبر، خرافات اور توھم پرستی کا زنگ صاف کردیتے ھوئے انھیں کمال تک پھنچنے میں مدد فراھم کرتے ہیں۔
انسان کو مقام عبودیت تک پھنچانا
قرآنی تعلیمات کے مطابق انسانی خلقت کا مقصد خدائے یکتا کی عبادت و پرستش کے سوا کچھ بھی نھیں اور اس کائنات میں جتنی بھی نعمتیں اور اشیاء خلق ھوئی ہیں انھیں انسان کے لئے قرار دیا گیا ہے اور انسان کو اتنی سھولتیں اور نعمتیں دینے کا واحد مقصد یہ ہے کہ انسان عبودیت کے راستے پر گامزن اور "عبد" کے مقام کی بلند چوٹی کو سر کردے۔ عبودیت کاملہ یہ ہے کہ انسان کائنات کے قادر مطلق اور کمال مطلق کے سوا کسی اور موضوع کو سوچنے اور غور کرنے کا قابل ھی نہ سمجھے اور اپنے افکار اور اعمال کو بھی اسی امر کی طرف معطوف کردے۔
ارشادہ ربانی ہے:
"وَما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالانْسَ إلاّ لِیَعْبُدونَ"۔(ذاریات / ۵۶)
اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
رسول خدا (ص) حقیقی دستگیر
انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بنی نوع بشر کی دستگیری اور مدد کرنا ہے تا کہ مقام عبودیت تک پھنچ سکیں اور دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کریں۔
الھی راھنما انسانوں کو عبودیت کا راستہ دکھاتے اور اس راہ پے گامزن ہونے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں اور اپنی تعلیمات کے ذریعے ان کو سھارا دے کر اس راہ پر منزل مقصد تک راھنمائی فراھم کرتے اور آگے لے جاتے ہیں گو کہ انسان کے پاس بھی یہ راھنمائیاں وصول کرنے کا ظرف اور صلاحیت و اھلیت ھونا بھی ضروری ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعثت کے دن سے ھی ایک نعرہ اپنے لئے مقرر فرمایا تھا جس کو آپ (ص) دھراتے رھتے تھے؛ فرمایا کرتے تھے:
"قُولُوا لا إلهَ إلاّ اللهُ تُفْلِحُوا"کھدو! کوئی معبود نھيں ہے تا کہ فلاح پاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پیغام کے ذریعے بتانا چاھتے ہیں کہ فلاح اور رستگاری صرف خدائے یکتا کی بندگی اور دیگر زندہ اور مردہ یا جامد اور بے جان خداؤں یا پھر انسان یا دیگر موجودات کی صورت میں خدا بنائے جانے والے انسانوں اور طاقتوں کی بندگی ترک کرنے میں ستگاری ہے۔(بحار الانوار، علامه محمد باقر مجلسی، نشر الوفا، بیروت، ۱۴۰۴، ج۱۸، ص۲۰۲)
انسانوں کے درمیان انتشار کا سد باب کرنا
نبوت کی مضبوط رسی واحد وسیلہ ہے جو انسانوں کو اپنے پرچم وحدت کے سائے تلے متحد کرنے کے اسباب فراھم کرتی ہے۔ وہ انسان جو تنازعات اور تفرقہ و اختلافات سے تنگ آگئے ہیں اور معاشرتی تنازعات میں انفرادی اور خاندانی سکون بھی کھو چکے ہیں اور زندگی کی سمت کو درست کرنے کے لئے قابل اعتماد سھارے کی تلاش میں ہیں اور ان تنازعات کو برادری اور اخوت میں بدلنا چاھتے ہيں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات اور سیرت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
عظیم انسانی معاشروں کے افراد اور اقوام اور قبا‏ئل اور جماعتوں کے درمیان شدید اور خانمان سوز تنازعات عظیم سرمایوں کو تباہ کرتے ہیں اور زندگی کے حسین ترین ماحول کو جان و دل جلانے والے جھنم میں تبدیل کردیتے ہیں۔ لیکن اگر انسان وحی کے امینوں اور اللہ کے بھیجے ھوئے انبیاء علیھم السلام کی بات سنیں اور ان کی ندا کو لبیک کھیں اور توحید کے علم تلے متحد ھوجائیں تو تفرقہ اور انتشار سے محفوظ رھيں گے اور کلمہ توحید کے سائے میں اپنا کلمہ اور اپنا نعرہ اور اپنا کلام اور مدعا بھی ایک اور متحد کردیں اور ایک ھی مقصد کے حصول کے لئے متحد ھونے کا عزم کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا استحصال نہ کرسکے گی۔
خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
"كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ"۔(البقره / ۲۱۳)
ابتداء میں لوگ ایک امت تھے (یا ایک ہی دین کے پیروکار تھے) اور پھر (اختلافات رونما ھونے پر ان میں اختلاف پڑگیا چنانچہ) خداوند متعال نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور (مؤمنین نے انبیاء کی اطاعت کی اور ان کی بات مان لی لیکن) اس میں اختلاف بھی فقط ان ھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ کتاب دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں، (اور انھوں نے یہ اختلاف بھی) محض باھمی فرمانی، فتنہ انگیزی اور دوسروں کے حقوق پر ھاتھ ڈالنے کی بنا پرکیا پھر اﷲ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھا دی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اﷲ جسے چاھتا ہے سیدھے راستے کی طرف ھدایت فرما دیتا ہے۔
اس آیت شریفہ کی رو سے انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں کے اختلافات کا خاتمہ کرنا تھا جو جھل، غفلت اور نا آگھی اور نفس کی اطاعت نیز دوسروں پر اپنی برتری اور فوقیت جتانے جیسے رجحانات کی بنا پر نمودار ھوتے ہیں۔ اور انبیاء علیھم السلام بالخصوص سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ان تمام رجحانات کے خاتمے کی سعی وافر کی جن کی بنا پر یہ اختلافات سامنے آتے ہیں۔
بعثت فیض الھی کا واسطہ
ابھی تک کمال کی راہ پر پھلا قدم رکھنے سے عاجز انسانوں کے لئے ذات باری تعالی سے رابطہ برقرار کرنا، جو کہ اعلی ترین مقام قدرت کا مالک ہے، سھل و آسان نھیں ہے۔ اس ذات والا صفات تک پھنچنے اور عرفان و معنویت کے بلند مراتب طے کرنے کے لئے فیض الھی کا ایک قوی رابطے اور وسیلے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے:
"یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَیهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهِدُواْ فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ"۔(مائده / ۳۵)
اے ایمان والو! تقوائے الھی اختیار کرو، اور اس تک پھنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور اسکے راستے میں جھاد کرو، شاید کہ تم فلاح پاجاؤ۔
نیک اعمال اللہ کے ساتھ تعلق برقرار کرنے کا وسیلہ ہیں لیکن ایک وسیلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدائے بعثت سے لے کر عید غدیر خم تک بیان فرمایا ہے اور ان کا دامن تھامنے رکھنے پر تاکید فرمائی ہے؛ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
"إنی تارك فیكم الثقلین كتاب الله وعترتی ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدی: كتاب الله فیه‌الهدی والنور حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی وان اللطیف الخبیر قد اخبرنی‌انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض وانظروا كیف تخلفونی فیهما"۔(۱)
میں تمھارے درمیان دو گران بھاء چیزیں چھوڑے جارھا ھوں: کتاب اللہ (قرآن) میں نور اور میری عترت، جب تک ان دونوں کا دامن تھامے رھوگے میرے بعد ھرگز گمراہ نہ ھوگے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک بندھی ھوئی رسی ہے؛ اور میری عترت میرے اھلِ بیت ہیں۔ اور یہ دونوں ھرگز جدا نہ ھوں گے یھاں تک کہ اکٹھے میرے پاس حوضِ کوثر پر آئیں گے۔ دیکھوں کہ تم میرے بعد ان دو کے حق میں کیا سلوک روا رکھتے ھو اور کیا ان دو کے سلسلے میں میری وصیتوں پر عمل کرتے ھو یا نھیں۔
حوالہ:
۱۔ حدیث ثقلین کے منابع: صحیح ترمذی، ج ۵، ص ۶۶۳-۶۶۲، ۳۲۸، 30 صحابیوں کے حوالے سے۔ مستدرک الصحیحین باب "فضیلت اصحاب"، ج ۳، ص ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۴۸، ۵۳۳؛ حاکم لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہےـ سنن ابن ماجه، ج ۲، ص ۴۳۲ ـ مسند حنبل، ج ۳، ص ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹، ج ۴، ص ۳۶۶، ۳۷۲-۳۷۰ ـ فضائل صحابہ، احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۵۸۵، حدیث ۹۹۰ ـ خصائص نسائی، ص ۲۱، ۳۰ ـ صواعق المحرقه، ابن حجر هیثمی، فصل ۱۱، بخش ۱، ص ۲۳۰ ـ معجم كبیر طبرانی، ج ۳، ص ۶۳-۶۲، ۱۳۷ ـ كنزالعمال، متقی هندی، فصل "اعتصام به حبل اللہ ج ۱، ص ۴۴ ـ تفسیر ابن كثیر، ج ۴، ص ۱۱۳، تفسیر ذیل تفسیر "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى" سورہ شوری آیت 23۔ طبقات الكبری، ابن سعد، ج ۲، ص ۱۹۴، طبع لبنان ـ الجامع الصغیر، سیوطی، ج ۱، ص ۳۵۳ نیز در جلد ۲ ـ مجمع الزوائد، هیثمی، ج ۹، ص ۱۶۳ـ فاتح الكبیر، بنهانی، ج ۱، ص ۴۵۱ ـ جامع الاصول، ابن اثیر، ج ۱، ص ۱۸۷ ـ تاریخ ابن عساكر، ج ۵، ص ۴۳۶ ـ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ـ ینابیع المودة، قندوزی حنفی، ص ۳۸، ۱۸۳۔
 

Add comment


Security code
Refresh