www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

705700
دین اسلام! یعنی سلامتی، امن و آشتی، رواداری، ایفائے عھد اور احترام انسانیت و فلاح آدمیت کا دین۔ اس دین کے بارے میں یہ تصور بھی عام ہے کہ ’’اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔‘‘ یہ دعویٰ دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوست بھی بڑے زور و شور سے کرتے ہیں۔
بعض اکابر کی خوبیاں بیان کرتے ھوئے یہ واضح طور پر کھا جاتا ہے کہ ان کی سلطنت فلاں فلاں مقام تک پھیلی۔ حالانکہ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں دین کو اخلاقی برتری، اعلٰی کردار اور حسن عمل کے ذریعے پھیلایا گیا۔
نبی کریم نے اپنی مکی زندگی کے ابتدائی برس نھایت مشکل حالات میں گزارے۔ آپ کے اصحاب و انصار کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر دیار غیر کی جانب ھجرت کرتے رھے۔ بعض اصحاب رسول نے کفار کے ھاتھوں جام شھادت نوش کیا، تاھم کبھی صبر، اعلٰی انسانی اخلاق اور اصولوں کا دامن ھاتھ سے نہ چھوٹا۔ مدنی زندگی میں بھی حسن تعامل کو شعار بناتے ھوئے مدنی قبائل جنھوں نے اسلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، ان کے ساتھ معاھدے کئے گئے۔
کوئی شخص اگر کھے کہ مکہ میں چونکہ طاقت نہ تھی، اس لئے تلوار نہ اٹھائی تو یہ درست نھیں، کیونکہ مدینہ میں جب طاقت و قوت نیز اقتدار سب کچھ حاصل ھوچکا، تب بھی کسی کو زبردستی دائرہ اسلام میں نہ لایا گیا۔ دعوت اسلام ضرور دی گئی، جس نے دعوت کو قبول کیا وہ مسلمانوں کا بھائی بنا اور جس نے دعوت کو رد کیا، اسے اس کے دین سے روکا نہ گیا۔
رسالت ماب کی زندگی میں مسلمانوں نے جب بھی تلوار اٹھائی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے اٹھائی۔ اسلام کی امن پسندی کا ایک اھم واقعہ صلح حدیبیہ ہے۔ رسالت ماب نے طاقت و قوت ھونے کے باوجود کفار مکہ سے صلح کی اور اپنے ارادہ حج کو ایک سال کے لئے موخر کر دیا۔ بعض صحابہ کو یہ عمل گراں گزرا، تاھم امن و آشتی کو ایک موقع دینے کے لئے رسالت مآب واپس عازم مدینہ ھوئے۔ اس معاھدے میں یہ قرار پایا کہ کوئی مکی اگر اسلام قبول کرلے اور مکہ والے اس کا تقاضا کریں تو مسلمان اسے اھل مکہ کے سپرد کرنے کے پابند ہیں۔ رسالت مآب نے فی الفور اس معاھدے پر عمل کرتے ھوئے ایک مکی مسلمان کو اھل مکہ کے سپرد بھی کیا۔
وقت نے ثابت کیا کہ رسول اکرم کا یہ اقدام کس قدر برکات کا حامل ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ھونے لگا۔ نوبت فتح مکہ تک جا پھنچی۔ کھا تو اسے فتح مکہ جاتا ہے، تاھم یہ ایسی فتح ہے جس میں کسی بے گناہ کو گزند نہ پھنچایا گیا۔ معافی کی عام دعوت دی گئی۔ شقی ترین دشمنوں کے گھروں کو جائے امان قرار دیا گیا۔ اپنے اعزاء و اقرباء کا خون معاف کیا گیا۔ فتح مکہ تاریخ انسانیت کا وہ عظیم واقعہ ہے جس کی مثال ڈھونڈنے سے نھیں ملتی۔ کھتے ہیں کہ انسان باھمی جنگ و جدال میں اب تک کروڑوں انسانوں کو قتل کر چکا ہے۔ جس میں زیادہ قتل جنگوں کے دوران کئے گئے، جب بھی کوئی فاتح اپنے مفتوحہ علاقوں میں وارد ھوا تو ساکنین کی زندگیاں فاتح افواج کے رحم و کرم پر رھیں۔ تاریخ انسانیت کا یہ واحد فاتح ہے جو مفتوحین کے لئے امن اور معافی کا پیغام لے کر آیا۔
تاریخ اسلام کے عظیم واقعات میں سے ایک اھم واقعہ نجران کے مسیحی راھبوں سے مناظرہ اور مباھلہ کا واقعہ ہے۔ نجران مکہ و یمن کے درمیان واقعہ ایک شھر ہے، جس میں رسالت ماب کے زمانے میں37 بستیاں تھیں۔ صدر اسلام میں وھاں عیسائی مذھب رائج تھا۔ نجران کا کلیسا سلطنت روم کے زیر اثر تھا۔ اس کلیسا کو بیت اللہ کے مقابلے میں ’’کعبہ نجران‘‘ بھی کھا جاتا تھا۔ اس کلیسا سے بھت سے اھل علم وابستہ تھے۔ یہ علاقہ جزیرۃ العرب کا ویٹیکن تھا۔ نجران کا حاکم ’’عاقب‘‘ جس کی کنیت ’’ابو حارثہ‘‘ تھی، اس کلیسا کا اسقف بھی تھا۔ اعلان رسالت کے بعد نجران کے لوگوں نے توریت اور انجیل میں پڑھی ھوئی بشارتوں کے پیش نظر اسلام کے حوالے سے تحقیق کا آغاز کیا۔
نجران کے مسیحی تین مرتبہ رسالت مآب کے پاس آئے، ایک گروہ ھجرت سے پھلے مکہ آیا اور دو دفعہ نجران کے مسیحی ھجرت کے بعد مدینہ میں آئے۔ نجران کے مسیحی علماء کا پھلا گروہ مکہ مکرمہ میں پیغمبر اکرمؐ سے بیت اللہ کے پاس ملا اور وھیں مناظرے کا آغاز کر دیا۔
رسالت مآب نے ان کی بات نھایت تحمل سے سنی اور جواب میں قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کیں، جنھیں سن کر ان لوگوں کے دل بھر آئے، اور فرط مسرت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور اپنی تحقیقات میں انھیں ایسی چیزیں معلوم ھوئیں جو توریت اور انجیل سے مطابقت رکھتی تھیں، جب انھوں نے یہ تمام چیزیں پیغمبر کی ذات میں دیکھیں تو مسلمان ھوگئے۔
دوسرا گروہ 9 ھجری میں مدینہ آیا، اسی واقعہ میں نوبت مباھلہ تک جاپھنچی۔ سلاطین عالم کو لکھے جانے والے خطوط میں سے ایک خط اسقف نجران کو بھی لکھا گیا اور اسے دین اسلام کی دعوت دی گئی۔ اسقف نجران کو یہ خط گراں گزرا اور اس نے اسے غصے میں پھاڑ دیا۔ اپنے حواریوں اور اھل علم سے مشاورت کے بعد اسقف نجران زعمائے قوم کے ھمراہ عازم مدینہ ھوا۔ بعض روایات میں اس وفد کی تعداد ساٹھ بتائی جاتی ہے۔ یہ وفد مسلمانوں پر رعب و دبدبہ طاری کرنے کے لئے زرق و برق لباس میں ملبوس تھا۔
رسالت مآب اور اصحاب پیغمبر نے ان کی اس رعونت کا جواب دینے کے لئے تین روز اس وفد کی جانب توجہ نہ کی۔ آخر کار امیرالمومنین علی علیہ السلام نے وفد کے افراد کو ان کے لباس کی جانب متوجہ کیا کہ وہ اس لباس کے بغیر رسالت مآب کی خدمت میں جائیں۔
سادہ لباس میں جب یہ وفد رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ھوا تو مسجد نبوی نجران کے مسیحیوں کا مھمان خانہ بنی۔ تین روز تک یہ علماء اور وفد کے اراکین مسجد نبوی میں قیام پذیر رھے۔ یہ لوگ اپنے طریقے کے مطابق عبادت انجام دیتے تھے۔ بعض اصحاب نے ان کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی تو رسول اکرم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔
قارئین کرام! ایک وہ مسجد نبوی تھی اور ایک ھماری مساجد ہیں، جو دیگر مذاھب کے افراد تو ایک جانب دیگر مسالک کے مسلمانوں کے لئے بھی جائے ممنوعہ قرار پا چکی ہیں۔ حتٰی یھی حرمین شریفین جھاں عیسائیوں کو رھائش اور عبادت کی آزادی دی گئی، میں اب مسلمانوں کی آمد پر پابندیاں ہیں۔ گذشتہ برس یمن کے حجاج حج و زیارات سے بھرہ مند نہ ھوسکے اور اس برس ایرانی حجاج اس سعادت سے محروم ہیں۔
تحریر: سید اسد عباس

Add comment


Security code
Refresh