www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسم گرامی:عباس بن علی علیھما السلام

تاریخ ولادت: ۴ شعبان، ۲۶ ھجری

 القاب: افضل الشھدا ء،باب الحوائج،قمرِ بنی ھاشم،شھنشاہِ وفا،،علمدار،غازی،سقائے سکینہ

کنیت: ابوالفضل
والد: علی ابن ابی طالب علیھما السلام
والدہ: فاطمہ کلابیہ علیھا السلام بنت ام البنین
تاریخ شھادت: ۱۰ محرم، ۶۱ ھجری
 حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بھادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بھادری اور شیر دلی کی وجہ سے بھت مشھور ھوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شھنشاہِ وفا کے طور پر مشھور ہیں۔
 ولادت با سعادت
حضرت عباس علیہ السلام ۴ شعبان المعظم ۲۶ھ کو پیدا ھوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نھیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ھاتھوں میں نھیں لیا۔ بچپن ھی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بھت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ھی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھی اور اھلِ بیت علیھم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماھر تھے ایک متقی اور بھادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنھیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی(ع) کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شھید ھوئے لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نھج پر پرورش کی تھی ۔
ابتدائی زندگی
حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا علم فقہ حاصل کئے۔ ۱۴ سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدر کھلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ھوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بھبود کے لئے خاص طور پر مشھور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ھوا۔ حضرت عباس(ع) کی نمایان ترین خصوصیت "ایثار و وفاداری" ہے جو ان کے روحانی کمال کی بھترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نھیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ھوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شھنشاہِ وفا ہے ۔
جنگ صفین
جنگ صفین حضرت علی علیہ السلام اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی ۶۵۷ ء میں ھوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پھنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ھی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ھوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ھوئے کھا کہ یہ عباس ھیں اور یہ بنو ھاشم کے چاند ھیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کھا جاتا ھے۔
 واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام
واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً ۳۳ سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد ۷۲ یازیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ھزارسے زیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ھیبت و دھشت لشکر ابن زياد پر چھائی ھوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نھیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نھیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس(ع) کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ھوئے کھا کرتے تھے : "چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ھی مدبر و دور اندیش تھے انھوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جھاد میں مشغول رھے یھاں تک کہ درجۂ شھادت پرفائز ھوگئے آپ نےبڑ اھی کامیاب امتحان دیا اور بھترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے" ۔
 شھادت
۱۰محرم کو امام حسین علیہ السلام نےان کو پیاسے بچوں خصوصاً اپنی چار سالہ بیٹی سکینہ بنت الحسین کے لئے پانی لانے کا حکم دیا مگر ان کو صرف نیزہ اور علم ساتھ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے دونوں ھاتھ کٹوا دیئے اور شھادت پائی۔ اس دوران ان کو پانی پینے کا بھی موقع ملا مگر تین دن کے بھوکے پیاسے شیر نے گوارا نھیں کیا کہ وہ تو پانی پی لیں اور خاندا نِ رسالت پیاسا رھے۔ شھادت کے بعد جیسے باقی شھداء کے ساتھ سلوک ھوا ویسے ھی حضرت ابوالفضل العباس(ع) کے ساتھ ھوا۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ ان کا روضہ اقدس عراق کے شھر کربلا میں ہے جھاں پھلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ان کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔
ضو وہ شیشے میں کھاں جو الماس ميں ہے
سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh