www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

104725

جب ھم دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کے طور طریقوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ھوتا ہے کہ اگر چہ ان معاشروں کی سائنسی اور صنعتی ترقی نے عقلمندوں کومتحیر کر دیا ہے،وہ طاقت وترقی کے بل بوتے پرمریخ اور چاند پرکمندڈال رھے ہیں ،ان کی ملکی تشکیلات نے انسان کوحیرت میں ڈال دیا ہے ،لیکن یھی ترقی کے راستے اپنی قابل ستائش ترقی کے باوجود ،عالم بشریت پر بدبختی وبدنصیبی ایسے مصائب کا سبب بنے ہیں ۔
پچیس سال سے کم عرصہ میں دنیا کو دوبار خاک وخون میں غرق کرکے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ہے اور اس وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا فرمان ھاتھ میں لئے ھوئے عالم بشریت کو نابود کرنے کی دھمکی دے رھے ہیں ۔انھی طریقوں نے اپنی پیدائش کے پھلے ھی دن سے ''انسان دوستی اور آزادی دلانے''کے نام پر دنیا کے دیگر ممالک اور ملتوں کے ماتھے پر غلامی کے داغ لگا کردنیا کے چار بڑے براعظموں کو اپنی استعماری زنجیروں میں جکڑ کرکسی قید وشرط کے بغیر براعظم یورپ کا غلام بنادیا ہے اورایک حقیر اقلیت کو کروڑوں بے گناہ انسانوں کے مال،جان ور عزت پر مسلط کر دیا ہے ۔

البتہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ترقی یافتہ ملتیں اپنے ماحول میں مادی نعمتوں اور لذتوں سے سرشارہیں اور بھت سے انسانی آرزؤوں جیسے اجتماعی انصاف اور ثقافتی وصنعتی ترقی تک پھنچ چکے ہیں۔لیکن وہ اس کے ساتھ ھی بے پناہ بدبختیوں اور بے شمار تاریکیوں سے دوچار ھوئے ہیں کہ ان میں سے اھم ترین یہ ہے کہ بین الاقوامی کشمکش اور خون ریزیاں دنیا کے مستقبل کوعوامی سطح پر اور ہر لمحہ ماضی سے بدتروحوادث کی آماجگاہ بنے ھوئے ہیں ۔

واضح رھے کہ یہ سب تلخ وشرین نتائج ،ان ملتوں ومعاشروں کی تھذیب وتمدن اور زندگی کے طور طریقوں کے درخت کا پھل ہیں جو بظاھر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔

لیکن جاننا چاھئے کہ اس کے میٹھے پھل جن سے انسان نے بھرہ مند ھوکرمعاشرے کوباسعادت بنادیاہے،ان ملتوں کے بھت سے پسندیدہ اخلاق جیسے سچائی،صحیح کام،فرض شناسی،خیرخواھی اور فداکاری کا نتیجہ ہے ،نہ صرف قانون کا!کیونکہ یھی قوانین پسماندہ ملتوں ،جیسے ایشیااور افریقہ میں بھی موجود ہیں حالانکہ ان کی پستی اور بدبختی میں دن بدن اضافہ ھوتا جارھا ہے۔

لیکن اس درخت کا تلخ پھل ۔جس سے انسان آج تک کو تلخ کام ہے وہ انسان کے لئے تاریکی اوربدبختی کاسبب بناہے اور خود ان ترقی یافتہ ملتوں کو بھی دوسروں کی طرح نابودی کی طرف کھینچ رھا ہے۔ کچھ ناپسندیدہ اخلاق ہیں،جن کاسرچشمہ:حرص،طمع، بے انصافی،بے رحمی،غرور،تکبر،ضد،اور ھٹ دھرمی ہے۔

اگرہم دین مقدس اسلام کے قوانین پر سنجیدگی سے غور کریں ،توہم متوجہ ہوں گے کہ اسلام مذکورہ صفات کے پہلے حصہ کا حکم دیتا ہے اور دوسرے حصہ سے روکتا ہے ،مختصر یہ کہ کلی طورپر تمام حق اور نیک انسان کی مصلحت کے امور کی دعوت دیتا ہے اور انھیں اپنی تربیت کی بنیاد قرار دیتا ہے اور ہر اس ناحق اوربرے کام سے روکتا ہے جو انسان کی زندگی کے آرام میں خلل ڈالتا ہے (خواہ کسی خاص قوم وملت سے مربوط ہو)

نتیجہ

مذکورہ بیانات کے نتیجہ کے طور پر مندرجہ ذیل چند نکات ذکر کئے جاتے ہیں :

١۔اسلام کا طریقہ دوسرے تمام اجتماعی طریقوں سے زیادہ پسندیدہ اورانسانیت کے لئے زیادہ مفید ہے:

"۔۔۔ذلک دین القیّم ولکن اکثر النّاس لا یعلمون" (سورہ ،آیت روم٣٠)
''...یقینا یھی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ''

٢۔موجودہ دنیا کی تھذیب وتمدن کے واضح نقوش اور میٹھے پھل سبھی دین مقدس اسلام کی برکتیں اور اس کے آثار کی زندہ شقیں اور اصول ہیں جو مغرب والوں کے ھاتھ لگ گئے ہیں ،کیونکہ اسلام ،مغربی تمدن کے آثار کے رونما ھونے سے صدیوں پھلے لوگوں کو انھی اخلاقی اصولوں کی طرف دعوت دے رھا تھا کہ یورپ والوں نے ان پر عمل کرنے میں ھم سے پیش قدمی کی ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں لوگوں سے فرماتے تھے:

''تمھارا برتائوایسا نہ ھو کہ دوسرے لوگ قرآن مجید پر عمل کرنے میں تم سے آگے بڑھ جائیں'' ۔(١)

٣۔اسلام کے حکم کے مطابق ''اخلاق''کو اصلی مقصد قرار دینا چاھئے اور قوانین کو اس کی بنیاد پر مرتب کرنا چاھئے ،کیونکہ پسندیدہ اخلاق کو فراموش کرنا(جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے کا سبب ہے)انسان کو معنویت سے مادیت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے اور اس کو بھیڑئیے،چیتے اور گائے جیسا درندہ بنادیتا ہے نیز اس میں گوسفند کے صفات پیدا کر دیتا ہے۔
اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

''بُعِثتُ لاتِّمم مکارم الاخلاق''(۲)

''میری بعثت کا اصلی مقصد ،لوگوں کی اخلاقی تر بیت ہے ''

طبیعی وسائل سے اسلام کی ترقی

غیرطبیعی وسائل ،کہ جن کا کوئی مادی وجود نھیں ہے، ناکام ھوتے ہیں اور جلد یا کچھ مدت بعد نابود ھوجا تے ہیں، اسلام جیسے دین میں جو کہ بشریت پر ھمیشہ حکومت کرنا چاھتا ہے، ان غیر طبیعی وسائل سے استفادہ کرنا صحیح نھیں ہے۔

یھی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی ترقی میں طاقت کا سھارا نھیں لیا ہے .یہ جو بعض لوگ کھتے ہیں کہ''اسلام تلوار کا دین ہے''حقیقت میں یہ لوگ صدراسلام کی جنگوں کو ظاھری طور پردیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط فھمی کا شکار ھوجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں ۔جودین علم وایمان کی بنیاد پر وجود میں آیا ھو ،اس کے لئے بعید ہے کہ وہ اپنی ترقی اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے لئے تلوار کا سھارا لے لے (اسلام میں جھاد کے فلسفہ کا مطالعہ فرمائیں )اسی لئے اسلا م نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیرنگ ،جھوٹ اورسیاسی شعبدہ بازی کا سھارا نھیں لیاہے اورانھیں صحیح نھیں جاناہے ،کیونکہ اسلام صرف یہ چاھتا ہے کہ حق زندہ ھواور باطل نابود ھو اور حق تک پھنچنے کے لئے باطل کی راہ پر گامزن ھونا ،حق کی نابودی کا سبب بنتا ہے۔
خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:
'' خداظالموں ،بدکاروں اور حق کو چھپانے والوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ھونے نھیں دیتا '' (۳)

حوالہ:
١۔ نھج البلاغہ ،صبحی صالح،ص٤٢٢۔
١۔بحار الانوار ،ج٧١،ص٣٧٣۔
١۔بقرہ١٥٩و١٧٤۔
ماخوذ از کتاب "دینی تعلیم " علامہ طباطبائی،مرتبہ: سید مھدی آیت اللھی ۔مترجم،سید قلبی حسین۔

Add comment


Security code
Refresh