www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام کے اوائل میں اکثریت اھلسنت میں یہ مشھور تھا کہ جس وقت ضرورت اور دلیل موجود ھو ، قرآن مجید کے ظاھری معانی سے چشم پوشی کر کے معنوی اور باطنی معنی مراد لئے جا سکتے ھیں

اور ان ظاھری معانی کے خلاف تفسیر کو ” تاویل “ کھا جاتا تھا ، اور جس چیز کو قرآن مجید میں تاویل کھا گیا ھے وھی معنی تفسیر کو دیئے جاتے تھے ۔ اھلسنت کی مذھبی کتابوں اور اسی طرح مختلف مذاھب کے مناظروں میں جو لکھے بھی جا چکے ھیں ، یہ مسئلہ بھت زیادہ دکھائی دیتا ھے کہ ایک مسئلے میں جو مذھبی علماء کے اجماع سے یا کسی اور وجہ سے ثابت ھو جاتا ھے ۔ اگر ایک آیت کے ظاھری معنی دوسری قرآنی آیات کے مخالف ھوں تو اس آیت کی تاویل کر کے خلاف ظاھر معانی کر دیئے جاتے ھیں اور کبھی کبھی دو مخالف گروہ اپنے دو متقابل اقوال کے لئے قرآنی آیات سے دلائل سے حاصل کرتے ھیں اور دونوں گرھوں میں سے ایک گروہ کی آیات کی تاویل کرتا ھے ۔ 
یہ طریقہ کم و بیش شیعہ مذھب میں بھی سرایت کر گیا ھے اور ان کی بعض علم کلام کی کتابوں میں بھی دیکھا جاتا ھے ، لیکن جو چیز قرآنی آیات اور ائمہ اھلبیت علیھم السلام کی احادیث میں کافی غور و فکر کے بعد حاصل ھوتی ھے وہ یہ ھے کہ قرآن مجید نے اپنے رس بھرے بیان اور واضح مطالب میں ھر گز معمہ گوئی اور مبھم روش کو اختیار نھیں کیا ھے اور اپنے مطالب اور مضامین کو سوائے ظاھری معانی کے ،اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش نھیں کرتا اور جس کو قرآن مجید میں تاویل کھا گیا ھے ، وہ لفظی معنی نھیں ھیں بلکہ وہ حقائق ھیں جو عام لوگوں کے فھم و ادراک سے بھت بالاتر ھیں جن میں سے اعتقادی معارف اور قرآن مجید کے علمی احکام سر چشمہ حاصل کرتے ھیں ۔ ھاں ! تمام قرآن مجید کی تاویل ھو سکتی ھے اور اس کی تاویل بھی براہ راست غور و فکر اور فکر و تدبیر کے ذریعے قابل فھم نھیں ھے اور الفاظ کے ذریعے بھی اس کو بیان نھیں کیا جا سکتا اور صرف خدا کے پیغمبر ، پاک لوگوں اور اولیاء اللہ ھی جو انسانی آلائشوں سے پاک ھوتے ھیں ، اپنے مشاھدات کے ذریعے ان کو سمجھ سکتے ھیں ، مگر قرآن مجید کی تاویل قیامت کے دن سب لوگوں پر ظاھر ھو جائے گا ۔
وضاحت
ھم بخوبی جانتے ھیں کہ جس چیز نے انسانوں کو بات کرنے ، الفاظ بنانے اور ان الفاظ سے استفادہ کرنے پر مجبور کیا ھے وہ معاشرتی اور مادی ضروریات ھیں ، انسان اپنی معاشرتی زندگی میں مجبور اور نا گزیر ھے کہ اپنے ضمیر کی آواز اور اپنے ارادے کو اپنے ھم جنسوں کے سامنے پیش کرے ، ان کو اپنے دل کی بات بتائے اور سمجھائے اسی وجہ سے وہ اپنی آواز اوراپنے کانوں سے مدد لیتا ھے اور اس کے علاوہ کبھی کبھی اشاروں اور آنکھوں سے بھی فائدہ اٹھاتا ھے ، یھی وجہ ھے کہ ایک گونگے اور ایک نا بینا فرد میں یہ مفاھمت نھیں پائی جاتی ، کیونکہ جو بات نابینا کرتا ھے ، گونگا اور بھرہ شخص اس کو نھیں سن سکتا اور جس چیز کے بارے میں گونگا اشارہ کرتا ھے اسے نابینا شخص نھیں دیکہ سکتا ۔ اسی وجہ سے الفاظ بنانے اور چیزوں کے نام رکھنے کے لئے مادی ضرورت کو پورا کیا گیا ھے اور چیزوں کے بارے میں الفاظ بنائے گئے ھیں جو مادی ھیں یا احساس کے نزدیک ھیں ، جیسا کہ ھم دیکھتے ھیں کہ وہ شخص جس سے ھم بات کرنا چاھتے ھیں ، اگر اس کے حواس خمسہ میں ایک حس کی کمی موجود ھے اور ھم اسی حس کے مطابق جو اس شخص میں موجود ھی نھیں ھے بات کریں تو ایک قسم کی مثال دے کر اپنے مطلب کو واضح کرتے ھیں یا اشارہ کرتے ھیں ۔ اور اگر ایک پیدائشی نابینا شخص ھو اور ھم اس کے ساتھ روشنی یا رنگ کے بارے میں بات کریں یا ایک بچے کے ساتھ جو ابھی سن بلوغ کو نھیں پھونچا ھے جنسی عمل کی لذت کے متعلق بات کریں تو اپنے مطلب کو ایک دوسری چیز سے تشبیہ دے کر یا مقابلہ کر کے یا مناسب مثال دے کر اسے سمجھاتے ھیں اور یوں اپنے مطلب کو ادا کرتے ھیں ، لھذا اگر فرض کریں کہ اس جھان ھستی میں بعض حقائق اور رموز موجود ھیں جو مادے اور مادی آلائشوں سے پاک ھیں ( اور حقیقت بھی یھی ھے ) اور ھر زمانے میں انسانوں میں سے صرف چند لوگ ان کے مشاھدے اور ادراک کی صلاحیت رکھتے ھیں تو یہ حقائق و رموز لفظی بیان اور عام تفکر کے ذریعے قابل فھم نھیں ھوں گے اور مثال و تشبیھہ کے بغیر ان کے بارے میں کچھ بتایا نھیں جا سکے گا ۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ھے : ھم نے اس کتاب کو پڑھے جانے والے الفاظ اور عربی زبان میں نازل کیا ھے تاکہ شاید تم غور کرو اور سمجھ سکو ، حالانکہ یہ ام الکتاب ( لوح محفوظ ) میں ھمارے پاس موجود ھے جو بھت ھی بلند مقام ھے ( یعنی عام فھم دماغ اس تک نھیں پھونچ سکتا اور اس کو نھیں سمجھ سکتا ) ”انا جعلنٰہ قرآنا عربیا لعلّکم تعقلون ، و انہ فی ام الکتٰب لدینا لعلی حکیم “ ( سورۂ زخرف /۴۰۳)
اور پھر فرماتا ھے :” بیشک یھی کتاب یعنی قرآن مجید ھے جو بھت ھی عزیز اور گرامی ھے اور حقیقت میں یہ عام نظروں سے پنھاں ھے کہ کوئی آدمی اس کو چھو نھیں سکتا مگر خدا کے پاک بندے “۔ ” انہ لقراٰ ن کریم ، فی کتٰب مکنون ، لا یمسّہ الا المطھرون “ ( سورہ ٴ واقعہ / ۷۷۔۷۹)
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اھلبیت علیھم السلام کے بارے میں فرماتے ھیں :” اللہ تعالیٰ چاھتا ھے کہ اے( پیغمبر کے ) اھلبیت خدا تو بس یہ چاھتا ھے کہ تم کو ( ھر طرح ) کی برائی سے دور رکھے اور جیسا پاک و پاکیزہ رھنے کا حق ھے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے ۔ ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا “ (سورۂ احزاب / ۳۳)
ان آیات کے ثبوت سے قرآن کریم کا منبع اور سر چشمہ اس جگہ ھے جھاں لوگوں کے فھم و ادراک کو ھر گز راہ نھیں ھے اور وہ لوگ اس تک پھونچنے سے عاری ھیں ، صرف خدا کے پاک بندوں کے سوا کسی شخص کو اس تک رسائی نھیں ھے اور نہ ھی کوئی اس کو سمجھ سکتا ھے اور نہ ھی اس کا دماغ وھاں تک پھونچ سکتا ھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت علیھم السلام انھیں پاک بندوں میں سے ھیں ۔
ایک اور جگہ فرماتا ھے :” یہ لوگ جو قرآن مجید پر ایمان نھیں لاتے وہ اس چیز کو تکذیب کرتے ھیں جس کے علم کو وہ احاطہ نھیں کر سکتے اور ابھی تک اس کی تاویل ان پر ظاھر نھیں ھوئی ھے “ ( یعنی یہ تاویل ان پر قیامت کے دن ظاھر اور واضح ھو گی جب ھر چیز کو آنکھوں سے دیکھا جا سکے گا ) ( سورہ یونس /۳۹) ” بل کذّبوا بما لم یحیطوا بعلمہ و لما یاتھم تاویلہ ، کذٰلک کذّب الذین من قبلھم فانظر کیف کان عاقبة الظالمین “
پھر ایک اور جگہ فرماتا ھے :” جس دن قرآن کی تاویل ( پورا قرآن ) ظاھر ھو گی تو جن لوگوں نے اس کو فراموش کر دیا تھا ، اس دن نبوت کی دعوت پر اعتراف کریں گے ( سورہ ٴ اعراف / ۵۳) ” ھل ینظرون الا تاویلہ ، یوم یاتی تاویلہ یقول الذین نسوہ من قبل قد جآء ت رسول ربنا بالحق “ ۔
حدیث کی بحث کا تتمہ
اصل حدیث کا معتبر ھونا ، جس کی قرآن کریم نے ضمانت اور تصدیق کر دی ھے ، اس کے بارے میں شیعوں اور تمام دیگر مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ھے لیکن اسلام کے اوائل میں حکمرانوں کی طرف سے حدیث نبوی کو حفاظت میں جو کوتاھی ھوئی اور ایسے ھی صحابہ اور تابعین کی طرف سے حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رواج دینے میں جو افراط ( زیادتی ) پیدا ھوئی اس کی وجہ سے حدیث نبوی سخت افسوس ناک حالت سے دو چار ھو گئی ۔
ایک طرف تو خلفائے وقت حدیث لکھنے اور اس کی حفاظت سے منع کیا کرتے تھے اور ھر وہ ورق جس پر حدیث لکھی ھو ، ملتا تھا تو اس کو ڈھونڈاور کھوج کر جلا دیتے تھے اور کبھی کبھی حدیث بیان کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی جا تی تھی ، اس وجہ سے بھت زیادہ احادیث میں تغیر و تبدل آگیا ، یا بھت سی احادیث بھول گئیں یا ان کو بیان نہ کیا گیا ۔
دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام جن کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث سننے کا فخر حاصل رھا ھے وہ خلفائے وقت اور عام مسلمانوں کے لئے قابل احترام تھے ، انھوں نے احادیث کی ترویج شروع کی اور اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ حدیث کو قرآن مجید پر فوقیت اور حکمرانی مل گئی اور کبھی کبھی یوں بھی ھوتا کہ حدیث کے حکم سے قرآن مجید کی آیت کو منسوخ کر دیا جاتا تھا ۔
اور کئی بار ایسا بھی ھوتا کہ حدیث کو نقل کرنے والے اشخاص ایک حدیث کو سننے کے لئے کئی کئی میل کے سفر کی صعوبت اٹھایا کرتے تھے ۔
بعض غیر مسلم افراد جنھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا اور ظاھری طور پر اسلام بھی قبول کر لیا تھا اور ایسے ھی اسلام کے اندرونی دشمنوں نے حدیث میں تغیر و تبدل شروع کر دیا اور اس طرح حدیث کا اعتبار اور وثوق ختم کر دیا گیا ۔
اسی وجہ سے اسلامی دانشوروں کو فکر لاحق ھوئی اور انھوں نے راہ حل ڈھونڈنا شروع کیا ، پھر انھوں نے بعض علوم پیدا کئے یعنی ” علم رجال “ اور ” علم درایت “ وغیرہ تاکہ درست اور غلط احادیث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے ۔
لیکن شیعہ باوجودیکہ حدیث کی سند اور اصلاح اور پاک کرنے کے لئے کوشش کرتے ھیں ، حدیث کے متن کو قرآن کریم سے بھی مطابقت دیتے ھیں اور حدیث کے معتبر ھونے کے لئے اس عمل کو ضروری جانتے ھیں ۔
مذھب شیعہ میں بھت زیادہ احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اھلبیت علیھم السلام سے پھونچی ھیں ( بحار الانوار ج/ ۱ ص / ۱۳۹ ) جن کی قطعی سند موجود ھے ۔ کیونکہ وہ حدیث جو قرآن مجید کے مخالف ھو ھر گز قابل قبول نھیں ھے اور صرف اسی حدیث کو ھی معتبر جاننا چاھئے جو قرآن کے عین مطابق ھو ۔
اس بیان کے مطابق وہ احادیث جو قرآن مجید کے مخالف ھوں شیعہ ان پر عمل نھیں کرتے اور ایسے ھی وہ احادیث ( بحار الانوار ج / ۱ ص / ۵۵ ) جن کی قرآن مجید کے ساتھ مخالفت یا مطابقت معلوم نھیں ، انکے بارے میں ائمہ اھلبیت علیھم السلام کی طرف سے جو حکم ملتا ھے ، قبول یا رد کئے بغیر ان کو ویسا ھی چھوڑ دیا جاتا ھے اور ان کے متعلق بحث نھیں کرتے ، البتہ شیعہ مذھب میں بھی ایسے آدمی مل جاتے ھیں جو اھلسنت کی طرح ، جو حدیث ان کو مل جاتی ھے اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ھیں ۔  

Add comment


Security code
Refresh