www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

امام علی بن موسیٰ (رضا) علیہ السلام، ساتویں امام(ع) کے بیٹے ھیں (مشھور تواریخ کے حوالے سے) ۱۴۸ھ میں آپ کی ولادت ھوئی اور ۲۰۳ھ میں شھادت ھوئی۔

امام ھشتم اپنے والد ماجد کی شھادت کے بعد خدا کے حکم اور اپنے بزرگوں کے تعارف سے عھدہ امامت پر فائز ھوئے۔ اپنی امامت کا کچھ حصہ ھارون الرشید عباسی خلیفہ کے زمانے میں گزارا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے امین عباسی اور پھر مامون عباسی کے ھم عصر بھی رھے۔

ھارون الرشید کی وفات کے بعد اس کے بیٹے مامون اور امین میں اختلافات پیدا ھوگئے جس کی نتیجہ میں خونریز جنگیں شروع گئیں اور آخر کار امین مارا گیا اور مامون نے خلافت پر قبضہ کر لیا۔

اس وقت تک علوی سادات کے لئے بنو عباس کی سیاست بڑی سخت اور خونی تھی جو کہ روز بروز سخت تر ھوتی جا رھی تھی۔ جب بھی علویوں میں سے کوئی شخص اپنی تحریک شروع کرتا تو خونریز جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ھو جاتا تھا اور یہ امر خلافت کے لئے سخت مشکلات پیدا کردیتا تھا۔

اگر چہ اھل بیت علیھم السلام کے شیعہ رھنما اور امام اس زمانے تک تحریک اور انقلاب شروع کرنے والوں کے ساتھ تعاون اور مداخلت نھیں کیا کرتے تھے لیکن شیعہ جن کی تعداد اس زمانے میں بھی قابل توجہ تھی ھمیشہ اھل بیت علیھم السلام کے ائمہ کو اپنا دینی رھنما اور واجب الاطاعت جانتے تھے اور ان کو ھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی خلفاء مانتے تھے کیونکہ خلافت اور دار الخلافہ قیصر و کسریٰ کے درباروں کا نمونہ بن چکے تھے اور ایک لاابالی عیاش گروہ کے ذریعے ملکی امور انجام پاتے تھے۔ شیعہ ان حکومتوں کو ناپاک اور اپنے ائمہ کی شان کے خلاف جانتے تھے۔ لھذا اس حالت کا جاری رھنا اور ترقی کرنا بھی حکومت اور خلافت کے لئے سخت خطرناک تھا اور یہ خطرہ ھمیشہ در پیش تھا۔

مامون نے سوچا کہ ان مشکلات کو اس کے آباء و اجداد کی سترسالہ پرانی سیاست حل نہ کرسکی تھی۔ لھذا وہ چاھتا تھا کہ ایک نئی سیاسی چال کے ذریعے ان مشکلات کو ختم کردے اور وہ یہ تھی کہ امام ھشتم کو اپنا ولی عھد (جانشین) بنالے اور اس طرح آئندہ کے لئے ھر ایسی مشکل کا حل تلاش کرلے، کیونکہ جب علوی سادات اپنے آپ کو خلافت کا حصہ دار سمجہ لیں گے، اس کے علاوہ شیعہ بھی اپنے امام کو خلافت کا جانشین دیکہ لیں گے جس کو وہ ھمیشہ ناپاک اور پلید کھتے آئے ھیں تو اس وقت وہ معنوی اخلاص و ارادت جو وہ ائمہ اھل بیت(ع) کے بارے میں رکھتے ھیں آھستہ آھستہ زائل ھو جائے گی اور اس طرح ان کے مذھبی عقائد بھی مٹ جائیں گے اور اس کے ساتھ ھی وہ خطرہ بھی خود بخود مٹ جائے گا جو ان کو خلافت اور سیاست سے رھتا ھے۔

ظاھر ھے کہ اصل مقصد حاصل ھو جانے کے بعد مامون کے لئے امام(ع) کو ختم کردینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ مامون نے اپنے اس فیصلے اور عزم کو عملی جامہ پھنانے کے لئے امام(ع) کو مدینہ سے مَرو میں بلایا۔ سب سے پھلے آپ کو خلافت کی اور اس کے بعد جانشینی کی پیش کش کی لیکن آپ نے مختلف طریقوں سے معذرت کرکے اس پیش کش کو قبول نہ کیا۔ آخر کار مامون نے بڑے اصرار سے جانشینی پر آپ کو راضی کرلیا اور امام نے بھی مجبوراً اس شرط پر یہ عھدہ قبول کرلیا کہ حکومت کے کاروبار یا کسی کو منصب دینے یا معزول کرنے میں کوئی مداخلت نھیں کریں گے۔

یہ واقعہ ۲۰۰ھ میں پیش آیا مگر تھوڑے ھی عرصے بعد مامون کو شیعوں کی بڑھتی ھوئی تعداد اور ترقی اور اپنے امام سے بھت زیادہ محبت اور عوام کے استقبال اور حتی کہ خود اس کے سپاھیوں اور اعلیٰ عھدیداروں کی توجہ امام(ع) کی طرف زیادہ ھوجانے سے اپنی غلطی کا احساس ھو گیا اور وہ اس کا سد باب کرنے پر آمادہ ھوا۔ اسی وجہ سے اس نے آپ کو زھر دلوا کر شھید کروادیا۔

شھادت کے بعد امام ھشتم کو ایران کے شھر طوس میں جس کو اب مشھد کھتے ھیں دفن کیا گیا۔

مامون الرشید عقلی علوم کی طرف بھت زیادہ مائل تھا اس سلسلے میں اس سے علوم عقلی

 کے عربی میں ترجمے کرائے۔ وہ علمی مجالس بھی منعقد کیا کرتا تھا جن میں مختلف مذاھب کے علماء اور دانشور جمع ھوتے تھے۔ اس طرح وھاں علمی مناظرے ھوا کرتے تھے۔ امام ھشتم(ع) بھی ان مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے اور دوسرے مذاھب کے علماء کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ ان مجالس اور مناظروں کو بھت سیشیعہ احادیث میں نقل کیا گیا ھے۔

 

Add comment


Security code
Refresh