www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت ابوطالب علیہ السلام کی رحلت کے بعد قریش کی گستاخیاں بڑہ گئیں اور وہ بہت زیادہ بے باک ہوگئے، پہلے سے کہیں زیادہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آزار و تکلیف پہونچانے لگے، دین اسلام کی تبلیغ کے لئے انہوں نے آپ پر سخت پابندیاں لگادیں، اور اس کا دائرہ بہت محدود کردیا چنانچنہ نوبت یہاں تک پہونچی کہ آپ حج کے زمانے کے علاوہ اپنے دین و آئین کی تبلیغ نہیں کر سکتے تھے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”جب تک ابوطالب زندہ رہے قریش مجھے ایسی گزند نہیں پہونچا سکے جو میرے لئے سخت ناگوار ہوتی۔“ (السیرة النبویہ۔ ج۲، ص۵۸﴾
اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے بعد قریش کی جانب ایذا رسانی اور شکنجہ کشی کی واردات میں اضافہ ہوگیا تھا،مگر ان سختیوں اور پابندیوں کے باوجود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان مہینوں میں جو ماہ حرام قرار دیئے گئے تھے موقع غنیمت سمجھتے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے، چنانچہ حج کے تین ماہ کے دوران ”عکاظ“ ”محجنہ''اور ”ذوالمجاز“ کے بازاروں کے علاوہ جھاں بھی لوگ جمع ہوتے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے، وہاں سرداران قبائل نیز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات کرتے اور ہر ایک کو آسمانی آئین کی دعوت دیتے تھے۔
ان ملاقاتوں کی وجہ سے ھر چند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کی جاتی اور ان کے بعد سرداران قبائل کا رد عمل ظاہر ہوتا، لیکن مخالفت اور رد عمل کے باوجود یہ ملاقاتیں نہایت ہی مفید اور ثمر بخش ثابت ہوئیں، کیونکہ کوئی بھی فرد یا قبیلہ ایسا نہ ہوتا جومکہ میں داخل ہوتا اور اس تک کسی نہ کسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا پیغام نہ پہونچتا، چنانچہ فریضۂ حج کے ادا کرنے کے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات کو دوران حج کے اہم واقعہ یا خبر کی صورت میں دوسروں کے سامنے بیان کرتے۔
قبیلہ بنی عامر بن صعصہ ان مشہور قبائل میں سے تھا جس کے افراد کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحدت پرستی کی دعوت دی۔
”بیحر“ ابن فراس“ کا شمار اس کے قبیلے کے سربرآوردہ اشخاص میں ہوتا تھاجسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہرت اور قدر و منزلت کے بارے میں کم و بیش علم تھا، اس نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا، ”خدا کی قسم اگر قریش میں اس نوجوان کو حاصل کرلوں تو اس کے ہاتھوں میں عرب کو نگل جاوٴں گا۔ (یعنی اس کے ذریعہ دنیوی مال و متاع حاصل کروں گا﴾
چنانچہ یہ سوچ کر وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر ہم تمہارے ہاتہ پر بیعت کرلیں اور تمہارا خدا ہمیں تمہارے مخالفین پر کامیاب بھی کردے تو کیا تمہاری قوم کی رہبری و سرداری ہمیں واگذار کردی جائے گی؟ اس پر رسول خدا نے فرمایا: ”یہ خدا کا کام ہے وہ جسے اہل سمجھے گا اسے جانشین مقرر کرے گا۔“
بیحرہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ جواب سنا تو کہنے لگا کہ ہم تمہاری خاطر عربوں سے جنگ کریں اور جب کامیاب ہوجائیں تو قوم کی رہبری دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائے ایسی جنگ اور رہبری سے ہم باز آئے۔ (السیرة النبویہ۔ ج۱، ص۱۶﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس گفتگو کے اہم نکات
۱۔ عام مشاہدہ ہے کہ اہل سیاست اقتدار حاصل کرنے سے قبل عوام و قوم سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں، جنہیں وہ کبھی پورا نہیں کرتے، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے موجودہ سیاست کی روش کے برعکس قبیلہ ”بنی عامر“ کی اس شرط پر کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا۔
۲۔ قول پیغمبر اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ مسئلۂ امامت امر الٰہی پر منحصر ہے، اور خداوند تعالیٰ جسے اس کا اہل سمجھے گا اسے پیغمبر کا جانشین مقرر کرے گا۔

Add comment


Security code
Refresh