www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2020
قرآن كريم ميں بلا تفصيل اور بغير نام كے چھ مقام پر'' شجرہ ممنوعہ'' كا ذكر ہوا ہے ليكن كتب اسلامى ميں اس كى تفسير دوقسم كى ملتى ہے ايك تو اس كى تفسير مادى ہے جو حسب روايات '' گندم '' ہے ۔
اس بات كى طرف توجہ رہنا چاہئے كہ عرب لفظ '' شجرہ ''كا اطلاق صرف درخت پر نہيں كرتے بلكہ مختلف نباتات كو بھى '' شجرہ '' كہتے ہيں چاہے وہ جھاڑى كى شكل ميں ہوں يابيل كى صورت ميں ۔
دوسرى تفسير معنوى ہے جس كى تعبير روايات اہل بيت عليہم السلام ميں '' شجرہ حسد'' سے كى گئي ہے ان روايات كا مفہوم يہ ہے كہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفيع ديكھا تو يہ تصور كيا كہ ان كا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند كوئي مخلوق اللہ نے نہيں پيدا كى اس پر اللہ نے انہيں بتلا يا كہ ان كى اولاد ميں كچھ ايسے اولياء الہى (پيغمبر اسلام اور ان كے اہل بيت عليہم السلام ) بھى ہيں جن كا درجہ ان سے بھى بلند وبالا ہے اس وقت آدم ميں ايك حالت حسد سے مشابہ پيدا ہوئي اور يہى وہ '' شجرہ ممنوعہ'' تھا جس كے نزديك جانے سے آدم كو روكا گيا تھا۔
حقيقت امر يہ ہے كہ آدم نے (ان روايات كى بناپر)دو درختوں سے تناول كيا ايك درخت تو وہ تھاجو ان كے مقام سے نيچے تھا، اور انہيں مادى دنيا ميں لے جاتا تھا اور وہ '' گندم'' كا پودا تھا دوسرا درخت معنوى تھا ،جو مخصوص اوليائے الہى كا درجہ تھا اور يہ آدم كے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنى حد سے تجاوز كيا اس لئے انجام ميں گرفتار ہوئے۔
ليكن اس بات كى طرف توجہ رہے كہ يہ ''حسد'' حسد حرام كى قسم سے نہ تھا يہ صرف ايك نفسانى احساس تھا جبكہ انہوں نے اس طرف قطعاً كوئي اقدام نہيں كيا تھا جيسا كہ ہم نے بارہاكہا ہے كہ آيات قرانى چونكہ متعدد معانى ركھتى ہيں لہذا اس امر ميں كوئي مانع نہيں كہ '' شجرہ '' سے دونوں معنى مراد لے لئے جائيں۔
اتفاقاًكلمہ '' شجرہ '' قرآن ميں دونوں معنى ميں آياہے ، كبھى تو انہى عام درختوں (جيسے ( وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَينَائَ تَنبُتُ بالدُّہن )جس سے مراد زيتون كادرخت ہے)كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے، اور كبھى شجرہ معنوى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے۔( جيسے :( وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فى القُرآن ) جس سے مراد مشركين يا يہودى يا دوسرى باغى قوميں (جيسے بنى اميہ ) ہيں﴾
ليكن يہاں پر ايك نكتہ ہے جس كى طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ يہ ہے كہ موجودہ خود ساختہ توريت ميں ، جو اس وقت كے تمام يہود ونصارى كى قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ كى تفسير '' شجرہ علم ودانش اور شجرہ حيات وزندگى '' كى گئي ہے توريت كہتى ہے:
''قبل اس كے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول كريں،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتى كہ انہيں اپنى برہنگى كا بھى احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے كھايا اس وقت وہ واقعى آدم بنے اور بہشت سے نكال ديئے گئے كہ مبادا درخت حيات وزندگى سے بھى كھاليں اور خدائوں كى طرح حيات جاويدانى حاصل كرليں_''(سفر تكوين فصل دوم نمبر17﴾
يہ عبارت اس بات كى كھلى ہوئي دليل ہے كہ موجودہ توريت آسمانى كتاب نہيں ہے بلكہ كسى ايسے كم اطلاع انسان كى ساختہ ہے جو علم و دانش كو آدم كے لئے معيوب سمجھتا ہے، اور آدم كو علم ودانش حاصل كرنے كے جرم ميں خدا كى بہشت سے نكالے جانے كا مستحق سمجھتا تھا، گويا بہشت فہميدہ انسان كے لئے نہيں ہے_(قابل توجہ بات يہ ہے كہ ڈاكٹر وليم ميلر (جسے عہدين خصوصاً انجيل كا ايك مقتدر مفسر مانا گيا ہے) اپنى كتاب ''مسيحيت چيست'' (مسيحيت كيا ہے) ميں رقمطراز ہے:
''شيطان ايك سانپ كى شكل ميں باغ كے اندر داخل ہوا اور اس نے حوا كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ اس درخت كے ميوہ ميں سے كھاليں چنانچہ حوّانے خود بھى كھايا اور آدم كو كھانے كو ديا اور انہوں نے بھى كھايا، ہمارے اولين والدين كا يہ عمل ايك معمولى اشتباہ پر مبنى نہ تھا يا ايك بے سوچى سمجھى خطا بھى نہ تھى بلكہ اپنے خالق كے بر خلاف ايك جانا بوجھا عصيان تھا دوسرے لفظوں ميں وہ يہ چاہتے تھے كہ وہ خود'' خدا'' بن جائيںوہ اس بات كےلئے آمادہ نہ تھے كہ خدا كے ارادہ كے مطيع بنيں بلكہ يہ چاہتے تھے كہ اپنى خواہش كو پاي ہ تكميل تك پہنچائيں نتيجہ كيا ہوا؟ خدا نے ان كى شدت سے سرزنش كى اور باغ (فردوس ) سے باہر نكال دياتاكہ دردورنج سے بھرى دنيا ميں زندگى بسر كريں ۔ توريت وانجيل كے اس مفسرنے درحقيقت يہ چاہاہے كہ '' شجرہ ممنوعہ '' كى توجيہ كرے، ليكن اس كى بجائے عظيم ترين گناہ يعنى خدا سے جنگ كى نسبت آدم كى ۔

Add comment


Security code
Refresh