www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

"واذقال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفہ قالوا أتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدما ء ونحن نسبح بحمدک۔ ۔ ۔ ۔ ۔"( سورہ بقرہ /۳۰)

زمین کا فرش بچھایاجاچکاتھا آسمان کاشامیانہ لگ چکاتھاجس پرستاروں کی روشن قندیلیں جگمگا رھی تھیں۔

سمندرکی موجیں مدھم مدھم سروں میں نڈھال وغمگین کھوئے کھوئے سے گیت الاپ رھی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی پتلی پتلی ندیاں اطمینان وسکون کے ساتھ اونچی نیچی راھوں کو طے کرتی ھوئی سمندر کے آغوش میں خودکوسپرد کردیتں اور سمندر بھی انھیں بے کیف اپنی آغوش میں سمیٹ لیتانہ ندیوں کے اندربرودت تھی نہ سمندر کی آغوش میں حرارت۔

 کوھستانوں کی چوٹیاں ساکت ودم بخودکھڑی اپنے میں گم تھیں کہ جیسے بات کرنے سے خائف ہوں۔ سفیدے کے کوہ وقاردرخت کسی طلسمی ماحول کے زیرسایہ سرجھکائے کھڑے تھے۔چناروسروکے اونچے اونچے برف سے ڈھکے چھپے درخت اپنے سروں پرحیاکا آنچل اوڑھے کن انکھیوں سے جھانک جھانک کربیرونی فضاکی یاٴسیت کانظارہ کررھے تھے۔

پہاڑوں پرغروب ھوتاھوا سورج افسردگی کی سرخ لکیریں کھینچتاھوا رات کے سناٹے کی آمدکا پیغام دے رھاتھا۔

 پہاڑومرغزارکسی کے انتظارمیں کھڑے بوجھل بوجھل تھکے ھوئے سے اپنی غنودگی کو چھپانے کی ناکام کوشش کررھے تھے ۔

آسمان پرطلوع ھوتاھواچاند اپنا عکس جھیل میں دیکھ دیکھ کرپریشان تھاکہ اس کے چھرے پریہ داغ کیوں ہے؟اوریھی سوچ سوچ کر اپنا سفر آگے بڑھانے یا ٹھہرجانے کی پس وپیش میں مبتلاتھا۔

چمن کاپتہ پتہ محوخواب تھکی ھوئی بوجھل فضا میں سرجھکائے نہ جانے کیسی اعداد و شمارش میں کھویا ھوا تھا۔

رنگ برنگی تتلیاں اداس بیٹھی کائنات کی غمگین صورت حال پرتبصرہ کررھی تھیں کبھی کبھی ھوا سسکیاں بھرتی اورپھرچند ایک بادل کے ٹکڑے ادھر ادھر گذر جاتے تو وفورگریہ سے لڑکھڑاتی ھوئی عندلیبیں ماحول سے بے نیازسب کچھ بھول کر بادلوں سے ھی درد دل میں محو ھو جاتیں۔

گوکہ ھرطرف کسی نے دردکے مضراب چھیڑکر ھرایک کومغموم ورنجیدہ کردیا ھو گردش لیل ونھار میں بس یھی تھاکہ دن کی دھوپ ھرشیٴ کا اداس چھرہ آشکار کردیتی لیکن شام ھوتے ھی تاریک رات دھیرے دھیرے اپنالبادہ ھرایک چیزپراڑھاکراسے نظروں سے غائب کردیتی۔

اس فضائے بسیط میں ایک لامتناھی اورمقدس ذات مسکرامسکراکر--کشاکش حیات کی شوریدگی کایقین دلاتے ھوئے آوازلگا رھی تھی کہ سب کچھ ایک ھی ڈگر پر آنے والا ہے بس ٹھوڑاسا اور صبر درکار ہے زمین پرمیرے نمائندے کے پھونچنے کی دیرہے پھر ھرچیزمیں تموج پیدا ھو جائے گا کائنات حرکت میں آجائے گی دنیا میں ھرسو حیاتی جل ترنگ بج اٹھیں گے عنقریب ھی میری جانب سے میرا ایک جانشین کرہٴخاکی پرآنے والاہے۔(۱)جو زمین پرمیرا نمائندہ ھوگا اور میری صفات کا مظھر ھو گا جو میری شناخت کا وسیلہ بنے گا۔

خالق کل نے اپنے جانشین کوکرہٴ ارض پربھیجنے کافیصلہ کرلیا تھا لیکن ھزارھا برس سے قیام وسجود میں مشغول پیکر انوار میں ڈھلے رجس وعیب سے دھلے ملائکہ میں چہ می گوئیاں شروع ھوگئیں کس کوبنائے گا؟ کسیے بنائے گا؟ھم میں سے بنائے گا؟اسکا کام کیا ھو گا؟اگرھم میں سے بنائے گا تو کسے بنائے گا؟ھم میں سے نہیں بنائے گاتو پھر کسے بنائے گاکیا کسی ایسے کوبنائے گاجو زمین پرجا کرخونریزی وفسادبپاکرے۔  (۲)

جب مالک نے انکے چھروں پرتشویش دیکھی تو واضح لفظوں میں اعلان کردیاکہ میں مٹی کا ایک پتلا بناوں گا اوراس میں اپنی روح پھونک دوں گا وھی میرا جانشین ھوگا ملائکہ نے جب یہ سناتو ھاتھ جوڑ کر عرض کیا معبود! ھم سے کونسی خطا سرزد ھو گئی ہے جس کی وجہ سے ھمیں اس خدمت اورشرف سے محروم رکھا جارھا ہے کیاھم نے تیری عبادت میں کوئی کسر چھوڑی ہے ھم توتیرے ھرحکم کی تعمیل کرتے ہیں جو تو ھمیں امر کرتا ہے ھم توتیری تسبیح وتھلیل کرتے ہیں ۔(۳)

قدرت نے جب یہ سناتوایک ایسا قانع کنندہ جواب دیاجسے صرف وھی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھیں مالک نے اپنی عبادت کے لئے منتخب کیا ھو ۔ "جو میں جانتا ھوں وہ تم نھیں جانتے "(۴)

اب نوبت تھی اس عظیم شاھکارخلقت کی تخلیق کی جسکے لئے سات آسمانوں کا شامیانہ لگایاگیا۔(۵)اورپھرانھیں ستاروں کے چراغوں سے مزین کیا گیا۔(۶)

زمین کا فرش بچھایاگیاتھا (۷) اورساری کائنات کو اسی کے لئے خلق کیاگیا تھا اس کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس کی خلقت سے قبل خدا نے یہ انتظام کیا تھاکہ مسلسل چاردن تک پھاڑ اور غذائی موادکی تخلیق کی تھی (۸)تاکہ جس ذات کو وہ اپنے نمائندہ کے طور پرزمین پربھیج رھاہے اسے مشکلات کا سامنانہ کرناپڑے۔

وہ نازک اورحساس گھڑی بھی آگئی جب اس مخلوق کا پتلا بن کرتیار ھوگیا۔جس کے لئے مالک حقیقی نے اتنا انتظام کیا تھا اب وہ مخلوق مٹی کی صورت میں خلق ھوچکی تھی لیکن ابھی اس میں حرکت نھیں تھی ۔ ملائکہ سراپا استعجاب کے عالم میں اپنے سامنے رکھے ھوئے پتلے کوفرط حیرت سے مبھوت ھو کر یک ٹک دیکھ رھے تھے اوراس کی حرکت کے منتظرتھے۔روح الہٰی کی ایک ھلکی سی نسیم حیات چلی تو پتلے میں خودبخودحرکت پیداھوگئی۔ بے حس و ساکت پتلے میں حرکت کاپیدا ھونا تھا کہ کائنات کا رنگ ھی بدل گیا ادھر پھلا طلسمی نغمہ سانس کی صورت میں اس پہلی انسانی مخلوق سے جاری ھوا ادھرکائنات پر طاری جمود خود بخود کافور ھوگیا پہاڑ ومرغزار آپس  میں گفتگو کرنے لگے بادنسیم کے جھونکوں نے صرصرکی صداؤں کے ساتھ ایک دوسرے کے گلے میں باھیں ڈال دیں۔بادصبا نے اداس بیٹھے پھولوں کے کانوں میں الله جانے کیاکہاکہ انکے مرجھائے اشک آلود چھرے یکایک کھل کھلاکرھنس پڑے۔

سمندرکی موجیں خوشیوںسے جھوم اٹھیں انکی طغیانی اس قدرقابل رشک تھی کہ چھوٹی چھوٹی ندیاں اپنے ھوش وھواس کوکھوبیٹھیں اوراپنے آپ کو انکے جزرومد کی گرم آغوش میں سپردکردیا اس سے بے خبرکہ انکا صاف وشفاف دودھ کی طرح شیریں آب زلال اس گھماگھمی میں کھاراھوچکاہے۔

سفیدی کے کوہ وقاردرخت کوھستانوں کی ساکت اوردم بخودچوٹیوںسے اچک اچک کرداد عیش لینے لگے ۔

چناروسروکے اونچے اونچے برف سے ڈھکے چھپے پھاڑحیاکاآنچل اب قائم نہ رکھ سکے اورآدم کے سانسوں کی حدت نے ان پرجمی برفیلی تھوں کو پگھلا کرانھیں لخت لخت کردیا اب وہ ھرچیزکامشاھدہ کن آنکھوں سے نھیں پورے وجودسے کررھے تھے پہاڑوں پرغروب ھوتاھوا سورج اب رات کی آنے والی تاریکی کاپیغام نھیں دے رھا تھابلکہ اپنی سنھری کرنوں کے ذریعے دودھ کی سفیدی لیکرنئی عروس صبح کواپنی بانھوں میں لئے طلوع ھونے کی نوید دے رھاتھا۔

اب آسمان پرطلوع ھوتاھواچاندجھیل میں اپنا عکس دیکھ کراپنے داغ کودیکھ دیکھ کرپریشان نہ تھا بلکہ اسے خال لب سمجھ کرخودپرنھاراجا رھاتھا ۔

اب رنگ برنگی تتلیوں کے غمگین صورت حال پر تبصرے ختم ھوچکے تھے اوراب وہ مست خرام اپنے نازک اورلطیف وجود کو سنبھالے گل ولالہ کے رخساروں کوچومتی مدھوش ھوتی جارھی تھیں۔ مضراب دردسے غموں کے نغموں کے بجائے اب ساز حیات سے خوشی کے نغمے سنائی دے رھے تھے آدم کے ماتھے پرلگے نظرکے قشعے سے گوایک نئی صبح زندگی نمودار ھوئی تھی جس نے کائنات کو ھی بدل دیا تھا ھرطرف قوس وقزح کے رنگ بکھرجارھے تھے ۔

عروس شب شباب نے کروٹ کیابدلی کہ ھرسو بس خمار ھی خمار نظر آرھا تھا چارسو حمدوثنائے الہٰی کے نغمے گونج رہے تھے رنگ وبو میں خداکی حسین ودلکش صناعی کے مناظرلپک لپک کرہرصاحب ذوق کی آنکھوں میں اترے چلے آرھے تھے زمین پرشمیم عطر بیدکی کیف آفرین کشش ھرایک کو مسحورھوکرناچنے پر مجبورکررھی تھیں گھٹاوں میں امنگ بھوروں میں ترنگ توفضاوں سے جلترنگ برس رھے تھے ۔ایک یہ کائنات تھی جھاں پتاپتاجھوم رھاتھا ڈالی ڈالی ڈول رھی تھی توادھرملائک کی دنیاھی کچھ اورتھی ھرطرف سناٹا چھایا ھوا تھا کوئی زیرلب مسکرارھا تھا توکسی کی جان پربنی ھوئی تھی حکم قدرت تھا کہ سب اس پتلے کے آگے اپنے سروں کوجھکا دیں جسے میں نے ابھی مٹی سے خلق کیاہے  (۹)یہ حکم سنتے ھی سب کے سب اس مٹی سے بنی مخلوق کے آگے سجدے میں گرگئے۔

حکم سجدہ ملتے ھی سب کے سب سجدے میں تھے لیکن ایک ملک اپنے لئے خودبخودسجدہ نہ کر کے اپنے جلنے کاسامان فراھم کررھاتھا۔درحقیقت یہ ملک جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کوئی فرشتہ نھیں تھا بلکہ ایک جن تھا ۔(۱۰)

 اس حکم سے پھلے اسکا مقام ملائک کے درمیان اسکی ھزارھاسال کی عبادت کے طفیل اتنا بلند تھاکہ دوسرے اس پررشک کرتے تھے لیکن اب اسے ایک سجدے سے انکارنے اسے کافرین کی صف میں لا کر کھڑاکردیاتھا۔(۱۱)

 جب قدرت نے اسکی یہ نافرمانی دیکھی تواس سے پوچھا آخرتونے میرے حکم کی نافرمانی کیوں کی؟ کون سی بات تھی جس نے تجھے سجدہ کرنے سے روکا ؟ تو اس نے جواب دیا میں نے اس لئے آدم  کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ میں ان سے برتر تھا میری خلقت آگ سے ہھوئی تھی آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا آگ مٹی سے افضل ھوتی ہے -----۔ پھر میں کس طرح اپنے سے کمتر کے سامنے جھک جاتا ۔(۱۲)

Add comment


Security code
Refresh