www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

814g2
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم میں عرب دنیا کے معروف صحافی عبد الباری عطوان کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے سعودی عرب کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کی تجویز اور پھر اسے انصار اللہ کی جانب سے مسترد کئےجانے کی وجوہات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے ۔
سعودی عرب نے اپنے وزیر خارجہ کی جانب سے یہ اعلان کرکے کہ وہ یمن میں جنگ روک رہا ہے ، پوری دنیا کو چونکا دیا لیکن اس کی اس تجویز کو انصار اللہ نے مشتبہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور اس طرح سے ایک بار پھر فریقین کے درمیان میزائلوں اور فضائی حملوں کی زبان میں مذاکرات کا دور شروع ہو گیا ۔ یہ حملے اور جوابی حملے ، ایسی صورت میں شروع ہو گئے کہ جب سعودی عرب کی اس تجویز کو24 گھنٹے بھی نہيں گزرے تھے ۔
یہ صحیح ہے کہ سعودی عرب نے جو تجویز پیش کی تھی اس میں وہ کئي معاملوں میں کافی پیچھے ہٹا تھا جیسے ایک حد تک صنعاء ہوائي اڈے کو کھولنا اور اسی طرح الحدیدہ بندرگاہ کے محاصرہ کو مشروط طور پر ختم کرنا وغیرہ لیکن بات یہ ہے کہ اس تجویز میں انسانی پہلوؤں کو ہی ملحوظ رکھا گیا ہے اور سیاسی مسائل کے لئے مذاکرات کی بات کی گئي ہے جو برسوں تک جاری رہ سکتے ہيں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تجویز بہت غلط وقت پر پیش کی گئ ہے کیونکہ اب یہی محسوس ہو رہا ہے کہ سعودی ، یمن کی جنگ میں اپنی شکست تسلیم کر رہا ہے اور مزید نقصانات سے بچنے کے لئے وہ جنگ بندی کی پیش کش کر رہا ہے ۔
امریکہ کی نئي حکومت کی اجازت یا حکم سے پیش کی جانے والی اس تجویز کی ناکامی کی 10 وجوہات ہيں :
پہلی وجہ : انصار اللہ تحریک کے جنگجو ، مارب کی سمت بڑھ رہے ہيں حالانکہ سعودی اتحاد کی سخت مزاحمت کی وجہ سے اس کی رفتار سست ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ، تاریخی لحاظ سے اہم اور تیل و گیس کی دولت سے مالامال اس علاقے پر قبضہ کئے بغیر کسی قسم کی جنگ بندی اور مذاکرات پر تیار نہيں ہوں گے ۔
دوسری وجہ : انصار اللہ تحریک کے ایک بڑے عہدیدار نے بتایا ہے کہ سعودی عرب پر ان کی تحریک کو اعتماد ہی نہيں ہے اور جہاں تک صنعاء ہوائي اڈے کو کھولنے کی بات ہے تو وہ محدود پیمانے پر اور مشروط ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس پر سعودی عرب اپنی گرفت مضبوط رکھے گا اور جب بھی مذاکرات میں پیچیدگی پیدا ہوگی ، ریاض ، صعناء ہوائي اڈے کو بند کرنے کی دھمکی دے کر دباؤ ڈالے گا ۔
تیسری وجہ : عالمی سطح پر جو یقین دہانی کرائي جا رہی ہے اس کی کوئي اہمیت ہی نہیں ہے ۔ جیبوتی میں اقوام متحدہ کے دفتر سے بار بار بیان دیا جاتا رہا ہے کہ الحدیدہ بندرگاہ میں بحری جہازوں کو داخلے کی اجازت ہے لیکن عملی طور پرایسا کچھ کسی کو نظر نہيں آیا اور اس وقت بھی اشیائے خورد و نوش اور ایندھن کے ساتھ 14 بحری جہاز ، الحدیدہ بندر گاہ کے باہر ، سعودی عرب کی نظر کرم کے انتظار میں کھڑے ہيں ۔
چوتھی وجہ : یہ جو سعودی عرب نے انسانی معاملات کو ، فوجی معاملات سے جوڑ دیا ہے وہ انصار اللہ کو پسند نہيں آیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ہوائي اڈوں اور بندرگاہوں کے محاصرے کا خاتمہ ، دو کروڑ یمنیوں کا حق ہے اور اس سے انصار اللہ کا کوئي تعلق نہيں ہے اور اس کا جنگ سے بھی کوئي تعلق نہيں ہونا چاہئے کیونکہ اکثر جنگوں میں بندرگاہیں اور ہوائي اڈے کھلے رہتے ہيں ۔
پانچویں وجہ : سعودی عرب کی تجویز میں ، یمن کی ارضی سالمیت ، مقبوضہ یمنی جزائر اور وہاں سے غیر ملکی ، سعودی اور اماراتی فوجیوں کے انخلاء کی کوئي بات ہی نہیں کی گئي ہے ۔
چھٹی وجہ : انصار اللہ کے ذمہ داروں نے گذشتہ چھے برسوں میں جس طرح سے جنگ کے حالات کا سامنا کیا ہے اس سے ان میں ایک طرح کی خود اعتمادی پیدا ہو گئي ہے اور وہ پوری طرح سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ہيں ۔ انہيں اس بات کا تجربہ ہو گیا ہے کہ لمبی سانس اور اسٹریٹجک صبر کے فوائد کیا ہيں اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ پوری دنیا کو حیرت زدہ کر رہےہیں کیونکہ جیسا کہ ایک مغربی فوجی تجزیہ نگار کا کہنا ہے اب انصار اللہ جنگ کی سمت و سو کا تعین کر رہے ہيں۔
ساتویں وجہ : انصار اللہ ان نقصانات کی تلافی چاہتے ہيں جو سعودی اتحاد نے یمن کو پہنچایا ہے ۔ انصار اللہ کے ایک رکن نے ہم سے گفتگو میں ہماری توجہ انصار اللہ کے ایک رہنما محمد الحوثی کی جانب سے پیش کئے گئے جامع منصوبے کی دو شقوں کی طرف مبذول کرائي جن میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو اگلے دس برسوں تک یمنیوں کی تنخواہیں دینا ہوں گی اور یمن کی تعمیر نو کا پورا خرچ اٹھانا ہوگا اور یمن سے تمام غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء ہوگا ، سعودی عرب نے ان دونوں شقوں کو مسترد کر دیا ہے ۔
آٹھویں وجہ : سعودی عرب کی تجویز میں ، مارب میں گیس اور تیل کے ذخائر اور ان سے فائدہ اٹھانے اور ان کی آمدنی کا کوئي ذکر ہی نہيں ہے ۔
نویں وجہ : گذشتہ دو برسوں کے دوران طاقت کا توازن انصار اللہ کے حق میں بدل گیا ہے ۔ اب وہ میزائیل کے بدلے میزائیل ، شہری کے بدلے شہری کے اصول پر پوری طرح سے اور کامیابی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں ۔
دسویں وجہ : جب سے انصار اللہ نے سعودی عرب کے بنیادی ڈھانچے اور تیل کی تنصیبات کو میزائيلوں اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنانا شروع کیا ہے تب سے اس جنگ سے سعودی عرب کی تکلیف میں اضافہ ہوا ہے ۔ ریاض ، جدہ ، خمیس مشیط ، ابہا ، جیزان ، دمام اور راس تنورہ میں ہونے والے پے در پے حملوں سے تیل کی پیداوار اور آمدنی دونوں متاثر ہوئي ہے ۔
عالمی اور علاقائي سطح پر اتحاد کی تشکیل اور مذاکرات میں بے حد ماہر سعودی عرب کی یہ معمولی سی بات سمجھ میں نہيں آ رہی ہے کہ آج کا یمن ، سات برس پہلے والا وہ یمن نہيں ہے جس کے خلاف اس نے " عزم کی آندھی " نامی آپریشن شروع کیا تھا ۔ سعودی عرب یہ بھی نہيں سمجھ رہا ہے کہ انصار اللہ اور اس کے حلیف ، علاقے کی ایک اہم طاقت کا حصہ ہیں جسے استقامتی محاذ کا نام دیا گیا ہے ۔ مطلب حوثی اور انصار اللہ اکیلے نہیں ہیں اور اس میں ساری غلطی اس کی ہے جس نے بغیر سوچے سمجھے ، صعدہ اور صنعاء کی سمت پہلا میزائیل فائر کرنے اور پہلے جنگی طیارے کی پرواز کا حکم دیا تھا۔
بے حد مختصر لفظوں میں میں یہ کہیں گے کہ جس نے یمن کی جنگ کی آگ لگائی ہے اب اسے بجھانا اس کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہوگا ، بھلے ہی وہ ایٹم بم ہی کیوں نہ استعمال کر لے ۔ سعودی عرب جتنا بھی پیچھے ہٹ جائے اور چاہے جیسی تجویز پیش کرے ، حالات اس کے لئے مزيد خراب ہی ہوں گے کیونکہ یمن کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور اسے پھر سے بوتل میں ڈالنا ، سعودی عرب کے بس کی بات نہيں ہے ۔ ریاض کو جان لینا چاہيے کہ مارب پر قبضے سے پہلے انصار اللہ کسی طرح کی جنگ بندی قبول کرنے والے نہیں نہيں اور مارب پر قبضے کے بعد تو پھر حالات ہی مختلف ہوں گے اور پھر بات بھی اسی حساب سے کی جائے گي ۔

Add comment


Security code
Refresh