www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خداوند عالم كے لئے ضروري ھے كہ لوگوں كي ھدايت كے لئے احكام كے ساتھ انبياء عليھم السلام كو مبعوث كرے اس مطلب پر تين دلائل پيش كررھے ھيں ۔

 پھلي دليل

 اس لئے كہ انسان كي پيدائش كا ھدف يہ نھيں ھے كہ ايك مدت تك اس دنيا ميں رھے، اور اللہ كي نعمتوں كو استعمال كرے اور ھر طرح كي عيش و عشرت يا دنياوي ہزاروں دكھ درد اور پريشانيوں كے داغ كو اپنے سينہ پر برداشت كركے رخت سفر باندھ كر فنا كے گھاٹ اتر جائے، اگر ايسا ھے تو انسان كي خلقت عبث و بے فائدہ ھوگى!

جب كہ خدائے تبارك و تعاليٰ كي ذات ايسے كاموں سے پاك اور مبرا ھے۔

انسان، خداوند عالم كي بھترين و افضل ترين مخلوق ھے اور اس كو پيدا كرنے كا مقصد يہ ھے كہ انسان اپنے اعمال كے ذريعہ كمالات و فضائل كے اعليٰ مرتبہ پر پھونچ جائے تاكہ قيامت كے دن بھترين ثواب و جزا كا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم كي ذات نے انسان كو نظم و قانون كا محتاج پايا تو ان كے لئے انبياء (ع) كے دستور العمل بھي بھيجا تاكہ انسان كو تعليم ديں اور انسان كو ضلالت و گمراھي كي تاريكي سے نكاليں، يہ وھي احكام ھيں جو ساتھ قوانين اور انسان كي زندگي اور آخرت دونوں كو سدھارتے ھيں، لوگوں كوزيادتي اور زور و زبردستي سے روكتے ھيں اور انسان كي آزادي كے حقوق كے محافظ ھيں نيز انسان كو كمال و صراط مستقيم اور اللہ تك پھونچاتے ھيں ۔ كيا انسان كي ناقص عقل ايسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں كے حوالے كر سكتي ھے؟ ھر گز ممكن نھيں، اس لئے كہ انسان كي عقل اور اس كي معلومات ناقص و محدود ھے،لوگوں كي عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفراديت و اجتماعيت كے حالات پر كافي اور كامل معلومات نھيں ركھتي ھے ۔

اس لئے ھم ديكھتے ھيں كہ انسان نے ابتدائے خلقت سے ليكر آج تك ايڑي چوٹي كا زور لگا ديا اور بے حد دولتوں كا سيلاب بہاد يا كہ محكم و كامل اور جامع انسانيت كے لئے قانون بنائے ليكن ابھي تك نہ بنا سكا، قانون تو بے شمار بنتے رھتے ھيں، ليكن كچھ ھي دنوں ميں اس كي خامياں اور غلطياں كھل كر سامنے آجاتي ھيں لھذا يا تو لوگ اس كو پورے طور پر ختم كر ديتے ھيں يا اس ميں تبديلي اور نظر ثاني كے در پے ھو جاتے ھيں ۔

 دوسري دليل

 خود انسان كي طبيعت ميں خود خواھي اور خود غرضي كے ميلان پائے جاتے ھيں لہذا وہ ھر طرح كے فوائد كو اپنے اور اپنے اقارب كے لئے سب سے زيادہ پسند كرنے لگتا ھے لہذا نتيجتاً يہ عادت و فطرت مساوات كا قانون بنانے سے مانع ھوتي ھے ۔

جب بھي انسان ارادہ كرتا ھے كہ كوئي ايسا قانون بنائے جس ميں ھوائے نفس اور خود خواھي نيز خود پسندي كا كوئي دخل نہ ھو، اپنے اور پرائے ايك صف ميں كھڑے ھوں اور ھر ايك كو ايك نگاہ سے ديكھا جا رھاھو ليكن كھيں نہ كھيں طبيعت اور خواھش نفساني تو غلبہ كر ھي ليتي ھے لہذا عدل و انصاف پر مبني قانون كا سد باب ھو جاتاھے ۔

 تيسري دليل

 قانون بنانے والے حضرات انسان كے فضائل اور روحاني كمالات كا علم نھيں ركھتے اور اس كي معنوي زندگي سے بے خبر ھيں وہ انسان كي فلاح اور بھبود، ماديات كے زرق و برق اور دنيا كي رنگينيوں ميں تلاش كرتے ھيں جب كي انسان كي روحاني اور دنياوي زندگي كے درميان ايك خاص اور محكم رابطہ پايا جاتا ھے فقط خداوند عالم كي ذات والا صفات ھے جو اس دنيا و ما فيھاكا پيدا كرنے والا ھے اور انسان كي اچھائي و برائي سے خوب واقف اور با خبر ھے،نيزتمام موجودات پر احاطہ كئے ھوئے ھے كوئي بھي چيز اس كے دست قدرت سے باھر نھيں، وھي ھے جو بلندي كي راہ اور ھلاكت كے اجتناب سے بخوبي واقف ھے لہذا اپنے قانون و احكام بلكہ انسانيت كي باگ ڈور ايسے حضرات كے حوالے كرتا ھے جو لوگوں كے لئے نمونہ اور اس كي زندگي آنے والوں كے لئے مشعل راہ ھوتي ھے ۔

اسي بنياد پر ھم كھتے ھيں خداوند عالم حكيم ھے كبھي بھي انسان كو حيراني اور جہالت و گمراھي كے اتھاہ سمندر ميں نھيں چھوڑ سكتا بلكہ اس كي مصلحت و لطف كا تقاضا يہ ھے كہ انبياء كو قواعد و قانون كے ساتھ لوگوں كي ھدايت كے لئے مبعوث كرے ۔

انبيا، اللہ كے خاص بندے اور بساط بشر كي ممتاز فرد ھوتے ھيں جو خدا سے جس وقت چاھيں رابطہ پيدا كر سكتے ھيں اور جس چيز كي حقيقت معلوم كرنا چاھيں اسے معلوم كر كے لوگوں تك پھنچا سكتے ھيں اس طرح كے رابطے كو ”وحي“ كھتے ھيں وحي يعني اللہ اور اس كے خاص بندے كے درميان رابطے كو كھتے ھيں، انبياء اپني باطني بصيرت سے دنيا كي حقيقت كا مشاھدہ كرتے ھيں اور دل كے كانوں سے غيبي باتيں سنتے اور لوگوں تك پھنچاتے ھيں ۔

(سبھی کے جاننے کی باتیں،آیت اللہ ابراھیم امینی)

Add comment


Security code
Refresh