www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یہ بات ظاھر ھے کہ انسانی ھدایت و راھنمائی کی ضرورت کے پیش نظر بعثت انبیاء ضروری ھے اور یہ اسی صورت میں کارساز ھوسکتی ھے کہ جب اس ھدایت کو نافذ کرنے والی ایک بھترین قدرت

 ان کے پاس ھو، تاکہ انسان ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ، یہ الٰھی تعلیمات و احکام انسان کو آمادہ کردیتی ھیں جس کی وجہ سے انسان ھدایت و راھنمائی کے ساحل پر پھنچ جاتا ھے، بغیر اس کے کہ اس کی ذرہ برابر بھی مخالفت اور تجاوز کرے، لیکن اگر وہ قوت او رقدرت نہ ھو تو پھر یہ تعلیمات اور احکام صرف موعظہ بن کر رہ جائیں گے، جس کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور انسانی زندگی میں بے اثر ھوجاتی ھے۔

جب ھم بعض دنیاوی قوانین کو دیکھتے ھیں (جیسے سزائے موت، عمر قید، پھانسی اور جلا وطن کرنا وغیرہ) تو نفس پر کنٹرول کرتے ھیں اور یہ قوانین نیک اور اچھے کاموں کی طرف ہدایت کرتے ھیں، لیکن ھم خارج میں دیکھتے ھیں کہ یہ قوانین انفرادی و اجتماعی شرّ و فساد کو بالکل ختم کرنے میں ناکافی ھیںاور نہ ھی ان کے ذریعہ انسانی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کمال کا حصول ممکن نھیں۔

یہ قوانین اس بنا پر معاشرہ سے شر و فساد کوختم کرنے میں ناکافی ھیں کہ قوانین جہاں مجرمین و اشرار کو بڑی سے بڑی سزا دینے میں کفایت کرتے ھیں وھیں پر جب سیاسی حضرات کی باری آتی ھے تو ان قوانین پر عمل نھیں ھوتا، حکام وقت اپنے خود ساختہ قوانین کے سایہ میں لوگوں کا مال ہضم کرتے ھوئے نظر آتے ھیں۔

اس کے بعد یہ بات بھی واضح ھے کہ انسان کی زندگی میں ظاہری اسباب بھی موثر ھوتے ھیں جیسا کہ اکثر حکومتوں میں سزائی قوانین مرتب کئے جاتے ھیں، اور یہ قوانین اس حکومت کی طاقت کے زور پر نافذ کئے جاتے ھیں ، لیکن اگر کسی حکومت میں قوانین نافذ کرنے کی طاقت ھی نہ ھو تو اس ملک میں بدامنی اور فساد پھیل جاتاھے اور پھر ان قوانین کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور نہ ھی ان قوانین سے کسی کو خوف و وحشت ھوتی ھے اور نہ ھی کوئی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ھے۔

لہٰذا جب ھم نے یہ بات مان لی کہ قوانین ھی کے ذریعہ مجرمین کی تعداد کم کی جاسکتی ھے، اور انھیں قوانین کے ماتحت حکومت چل سکتی ھے، لیکن کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ھیں جہاں پر انسان تنہائی کے عالم میں ھوتا ھے اور وہاں پر اس حکومت کی رسائی نھیں ھوتی اور نہ ھی وہاں تک قانون کی رسائی ھوتی ھے اور ان شاذ و نادر جرائم کو حکومت فاش نھیں کرپاتی ، مثلاً انسان نفسانی شھوات کا شکار ھوجائے اور اس پر سوار شیطان ھوجائے:

"وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُضِلَّہُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا"[1]

اور شیطان تو یہ چاہتا ھے کہ انھیں بہکا کے بہت دور لے جائے “۔

"إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا"[2]

کیونکہ شیطان تو ایسی ھی باتوں سے فساد ڈلواتا ھے اس میں شک ھی نھیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ھوا دشمن ھے“۔

اگر کوئی شخص کھے: ایک کافر و ملحد بھی کبھی کبھی صاحب فضیلت ھوتا ھے تو یہ اس کی ظاہری فضیلت ھوتی ھے،جس کی بنیاد نفسانی اصول نھیں ھوتے ھیں، ان کے اندر یہ اچھائیاں معاشرہ کے خوف کی وجہ سے پیدا ھوتی ھیں، یا حکومتی قوانین کے خوف سے پیدا ھوتی ھیں، چنانچہ اگر یہ دونوں چیزیں سامنے نہ ھوں اور وہ آزاد ھوں، تو پھر وہ کسی بھی طرح کے اخلاق کی رعایت نھیں کریں گے ، کسی کی بے عزتی کریں گے اور کسی کا مال لوٹیں گے، یا دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ھوں گے، کیونکہ جب نفس پر شھوت کاغلبہ ھوجاتا ھے تو پھر وہ کسی بھی برائی سے پرھیز نھیں کرتا اور برائی میں غرق ھوتا ھوا نظر آتا ھے، پس یہ فضیلت اس شخص میں کیسے جلوہ گر ھوسکتی ھے جو اپنے کو فانی حیوان سمجھتا ھے؟

لہٰذا حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین یہاں تک کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض افراد کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ھے تاکہ وہ موجودہ شرائط کے ساتھ اپنی زندگی آرام سے گزار سکےں، اور یھی انسان کا کردار معاشرہ میں اثرانداز ھوجاتا ھے جس کی بنا پر انسان دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ھے۔

پس مذکورہ باتوں کے پیش نظر انسان کے اندر ایسے اندرونی اسباب ھوتے ھیں اور اس کا ضمیر اور وجدان ھوتا ھے جو انسان کے کرد ار کو سنوارتا ھے اور یھی انسان کا ضمیر اس کے سفر و حضر اور خلوت و بزم میں ادارہ کرتا ھے، اور چونکہ انسان کی روح اس کو اپنے اختیار میں رکھتی ھے، کیونکہ روح ایک بلند اور عالی حقیقت ھے جو انسان کو کمال و بلندی کی طرف لے جاتی ھے، لیکن کبھی کبھی انسان اپنے جسم کے لئے روح کو حاکم بنادیتا ھے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ھے اور اس میں بہت زیادہ روحانی ریاضت کی ضرورت ھے، یہ وہ کام ھے جس کو اس شخص کے علاوہ اور کوئی انجام نھیں دے سکتا جو نفس اور روح کے ھمیشہ ھمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ رکھتا ھو، اور یھی اعتقاد انسان کے ضمیر کو نیک اور اچھے کاموں کے لئے ابھارتا ھے، تاکہ اس کو آخرت میں ثواب مل سکے، اسی طرح یھی عقیدہ انسان کو ھوائے نفس کی اطاعت اور آخرت کے عذاب کے خوف کی بنا پر گناھوں اور برے کاموں سے روکتا ھے۔

یہ اس لئے ھے کہ انسان کا ضمیر برائیوں پر ملامت اور سرزنش تو کرسکتا ھے لیکن اس کو عذاب نھیں دے سکتا، اسی طرح انسان کا ضمیر اس کو وعظ و نصیحت کرتا ھے لیکن کبھی بھی اس کے لئے توجیہ نھیں کرسکتا، کیونکہ انسان ھوائے نفس کے مقابلہ میں کوئی نفع و نقصان نھیں پہنچاسکتا، اور جب اس کا غلبہ ھوجاتا ھے تو اس کو ناکارہ بنادیتا ھے اور پھر انسان لوگوں کی نگاھوں سے بچ کر جو چاہتاھے وہ انجام دیتا ھے۔

لہٰذا جب ایک طرف سے حکومتی قوانین اور معاشرہ انسان کو برائیوں سے روکنے والا ھے اور دوسری طرف خود انسان کا ضمیر اندر سے انسان کو برائیوں سے روکتا ھے تو یہ دونوں چیزیں قدر معین کی طرف ہدایت کرتی ھیں، اور خداوندعالم وروز قیامت پر ایمان کے ذریعہ ان دونوں کے درمیان اتفاق قائم کردیتا ھے، جس کے ذریعہ انسانی نفس میں قول و عمل میں دشمن کے رقیب ھونے کی بنا پر تربیت اخلاقی ھوجاتی ھے، اور کوئی بھی بندہ مومن اپنے رقیب و دشمن سے فرار نھیں کرسکتا چونکہ خداوندعالم ہر چیز پر محیط ھے اور رگ گردن سے زیادہ قریب ھے، ظاہری اور باطنی چیزوں کو جانتا ھے، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا حساب کرنے والا ھے، کوئی بھی ذرہ اس سے مخفی نھیں ھے، اسی وجہ سے بندہ مومن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ھونا چاہئے، خدا کے عقاب سے ڈرنا چاہئے، یہاں تک کہ اگر بندہ لوگوں کی نظروں سے چھپ کر بھی کوئی کام انجام دیتا ھے تو خود اس کے نفس سے جواب طلب ھوگا، چاھے قانون اور حکومت کی سزا سے محفوظ رھے، کیونکہ حکم خدا اور اس کی حکومت سے فرار ممکن نھیں ھے۔[3]

جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ھے کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں ایک عاصی اور گناہگار شخص ھوں، اور گناھوں پر صبر بھی نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھ کو نصیحت فرمائےے اس وقت امام علیہ السلام نے نصیحت فرمائی:

افعل خمسة اٴشیاء و اذنب ما شئت، فاٴول ذلک: لا تاٴکل رزق الله، و اذنب ما شئت، والثانی: اخرج من ولایة الله، و اذنب ما شئت، والثالث: اطلب موضعاً لایراک فیہ الله،و اذنب ما شئت، والرابع: إذا جاء ملک الموت لیقبض روحک فادفعہ عن نفسک،و اذنب ما شئت، والخامس: إذا اٴدخلک مالک فی النار فلاتدخل النار، و اذنب ما شئت“۔[4]

پانچ کام انجام دینے کی طاقت حاصل کرلو اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو،پہلی: خداوندعالم کا عطا کردہ رزق نہ کھاؤ،اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو، دوسری: خدا کی ولایت و حکومت سے نکل جاؤ پھر جو چاھو گناہ کرو،تیسری: کوئی ایسی جگہ تلاش کرلو جہاں پر خدا نہ دیکھ سکے، پھر جو چاھو گناہ کرو، چوتھی: جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اس کو روح قبض نہ کرنے دینا، پھر جو چاھو گناہ کرو، پانچویں: جب داروغہ دوزخ تمھیں آتش جہنم میں ڈالنا چاھے تو داخل نہ ھونے کی قدرت حاصل کرلو ، پھر جو چاھو گناہ کرو،“۔

پس ایک بندہ مومن کا اعتقاد یہ ھونا چاہئے کہ ہر چیز خداوندعالم کے ارادہ اور حکومت کے تابع ھے، اس کی ولایت کے ما تحت ھے، خداوندعالم انسان کے ہر ہر اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا ھے، ان تمام چیزوں سے باخبر ھے جو انسان کے دل میں پیدا اورخطور کرتی ھیں، یھی وہ اعمال ھیں جو انسان کے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے لئے اس کے ساتھی ھوں گے، اور انھیں اعمال کی بنیاد پر ثواب و عقاب دیا جائے گا، ان کے علاوہ اور کوئی چیز کام آنے والی نھیں ھے۔

حضرت رسول اکرم کا ارشاد گرامی ھے:

یتبع المرء ثلاثة: اٴہلہ و مالہ و عملہ، فیرجع اثنان و یبقی واحد، یرجع اٴہلہ و مالہ و یبقی عملہ۔[5]

روز قیامت پر ایمان کے نتائج میں سے یہ ھیں: انسان اس بات پر عقیدہ رکھے کہ ھم لوگ آنے والی چیزوں کے مقروض اور گزشتہ چیزوں کے مرھون منت ھیں، ایک روز آنے والا ھے جس دن اس خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونا ھے جو حساب و کتاب کرنے والا ھے اور اس سے چھوٹی سی چیز بھی مخفی نھیں ھے، تمام لوگوں سے ان کے اعمال، افعال اور مخفی ہر خیر و شرّکے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی لحاظ سے جزا اور سزا دی جائے گی،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

"وَلاَتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہَا وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْرَی"[6]

اور جو شخص کوئی برا کام کرتا ھے اس کا وبال اسی پر ھے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نھیں اٹھا ئےگا “۔

نیز ارشاد فرماتا ھے:

"کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ"[7]

ہر شخص اپنے اعمال کے بد لے گرو ھے“۔

پس فضائل اور برائیوں کا معیار و مقیاس انسان کے اعمال ھیں، اور یھی اعمال خدا کی رحمت سے نزدیک اور دور ھونے کی بنیاد ھےں، کیونکہ روز قیامت انسان کی شکل و صورت دیکھ کر حساب و کتاب نھیں کیا جائے گا، نہ ھی حسب و نسب کے لحاظ سے، نہ ھی تجارت وکثرت اولاد اور کثرت مال کو مد نظر رکھ کر حساب و کتاب کیا جائے گا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

"فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاٴَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَیَتَسَاءَ لُون. فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ . وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ"[8]

پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رھیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے،پھر جن (کی نیکیوں)کے پلے بھاری ھوں گے تو یھی لوگ کامیاب ھوں گے اور جن (کی نیکیوں )کے پلے ہلکے ھوں گے تو یھی لوگ ھیں جنھوں نے اپنا آپ کو نقصان پہنچایا، وہ ھمیشہ جہنم میں رھیں گے“۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ھے:

" لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوَالُہُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُہُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا"[9]

ان کو خدا (کے عذاب)سے نہ ان کے مال ھی کچھ بچائیں گے،نہ ان کی اولاد (کچھ کام آئے گی)“۔

" لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوَالُہُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُہُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا"[10]

خدا (کے عذاب )سے بچانے میں ہرگز نہ ان کے مال ھی کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد“۔

نیز ارشاد فرماتا ھے:

"وَمَا یُغْنِی عَنْہُ مَالُہُ اِذَا تَرَدَّیٰٓ"[11]

اور جب وہ ہلاک ھوگا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا “۔

حضرت رسول اکرم (ص)کا ارشاد گرامی ھے:

ان الله لا ینظر الی صورکم ،ولا الی اموالکم ،ولکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم “۔[12]

خداوندعالم تمہاری شکل و صورت اور تمہارے مال و اولاد کو نھیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کے (لحاظ سے حساب و کتاب کرے گا“)۔

 یہ قیامت کے عقیدہ سے پیدا ھونے والے بعض آثار ھیں، اور یھی عقیدہ انسان کے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرتا ھے ،خدا کی حرام کردہ چیزوں سے دور کرتاھے، اورانسان گناھوں کے ارتکاب سے پہلے اکثر مردد اور پریشان ھوتا ھے، اس کا ضمیر جس کا قیامت پر ایمان ھے اس کو روکتا ھے، اور اس کا ضمیر جو اعمال کے بارے میں رقیب پر یقین رکھتا ھے، بغیر اس کے قانون اور حکومت کا اس کو کوئی خوف ھو۔

لہٰذا معلوم ھوا کہ قیامت کا اعتقاد انسان کی انفرادی اورمعاشرتی زندگی پر موثرھے، کیونکہ قیامت پر ایمان رکھنے والا شخص قرآن کریم اور سنت نبوی (ص)سے تمسک رکھتا ھے ،جیسا کہ قرآن اور سنت نبوی میں زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا گیا اسی لئے وہ ہر صاحب حق کے حق کوادا کرتا ھے، ہر کام کرتے وقت اس کو ذمہ داری اور فرض کا احساس ھوتا ھے، اور دوسروں کے حقوق پر زیادتی کو ظلم سمجھتا ھے، لہٰذا ان پر ظلم و ستم روا کرنے سے پرھیز کرتا ھے، جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ھے:

بئس الزاد الی المعاد العدوان علی العباد۔[13]

روز قیامت کے لئے بدترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ھے“۔

نیز آپ کا ارشاد ھے:

لا یوٴمن بالمعاد من لایتحرّج عن ظلم العباد “۔[14]

جو شخص روز قیامت پر ایمان نھیں رکھتا وہ بندگان خدا پر ظلم سے باز نھیں آتا“۔

ایک دوسری جگہ آپ فرماتے ھیں:

والله لان ابیت علی حسک السعدان مسھد ا ،او اجر فی الاغلال مصفد ا ،احب الی من ان القی اللہ و رسولہ یوم القیامة ظالما لبعض العباد،و غاصبا لشیء من الحطام، وکیف اظلم احداً لنفسٍ یسرع الی البلی قفولھا ،و یطول فی الثری حلولھا؟!“۔[15]

خدا گواہ ھے کہ میرے سعدان کی خاردار جھاڑی پر جاگ کر رات گزار لینا یا زنجیروں میں قید ھوکر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ھے کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کرو ںکہ کسی بندہ پر ظلم کیا ھویا دنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ھو، بھلا میں کسی شخص پر اس نفس کے لئے کس طرح ظلم کروںگا جو بہت جلد فنا کی طرف پلٹنے والا ھے اور زمین کے اندر بہت دنوں رہنے والا ھے۔۔۔“۔

 اسلام نے آخرت کے لئے بہترین زاد راہ ”تقویٰ“ کو قرار دینے پر زور دیا ھے، تاکہ انسان اسی تقویٰ کے ذریعہ خیانت اور دوسری برائیوں سے دور رھے، اور انفرادی و معاشرتی اصلاح کے لئے قدم بڑھائے۔

حضرات ائمہ طاھرین علیھم السلام نے مسلمانوں کو اسی راستہ کی ہدایت کی ھے، جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

””کان امیر الموٴمنین علیہ السلام بالکوفہ ،اذا صلی بالناس العشاء الاخرة ینادی بالناس ثلاث مرات، حتی یسمع اھل المسجد :ایھا الناس ،تجھزوا یرحمکم اللہ ،فقد نودی فیکم بالرحیل ،فما التعرج علی الدنیا بعد النداء فیھا بالرحیل ؟!تجھزوا رحمکم اللہ ،و انتقلوا بافضل ما بحضر تکم من الزاد ،وھو التقوی۔۔۔۔[16]

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کوفہ میں تشریف فرما تھے، نماز عشاء پڑھنے کے بعد لوگوں کو تین مرتبہ یہ پیغام دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تمام اہل مسجد اس کو سنتے تھے، اے لوگو! اپنے کو آمادہ کرلو، خدا تم لوگوں پر رحم کرے، تمھیں سفر پر جانا ھے، لہٰذا جب تمھیں (آخرت کے) سفر پر جانا ھے تو پھر دنیا داری کیسی، آمادہ ھوجاؤ ، خدا تم پر رحم کرے، اور تم لوگ وہاں کے لئے بہترین زادہ راہ اختیار کرو اور وہ تقویٰ (الٰھی) ھے۔۔۔“۔

یھی قیامت کا اعتقاد حقوق الناس کی ادائیگی میں مدد کرتا ھے اور انسان اصول و فرض کی بنا پر اپنی زندگی گزارتا ھے، جس میں انصاف، صداقت اور امانت سے کام لیتاھے، جیسا کہ خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

"وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ الَّذِیْنَ اِذَا اَکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوھُمّ اٴَوْوَّزَنُوھُمْ یُخْسِرُوْنَ اٴَلاَیَظُنُّ اٴُوْلَئِکَ اٴَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیِوْمٍ عَظِیمٍ"[17]

ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی خرابی ھے،جو اوروں سے ناپ کرلیں تو پورا پورا لیں،اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں کیا یہ لوگ اتنا بھی خیال نھیں کرتے کہ ایک بڑے(سخت )دن (قیامت)میں اٹھائے جائیں گے“۔

اسلام نے اس بات پر بہت زور دیا ھے کہ جب انسان اس دنیا سے چلا جاتا ھے، تو اس کو کوئی چیز فائدہ نھیں پہنچاسکتی مگر یہ کہ نیک اولاد اور سنت حسنہ جس پر اس کی موت کے بعد عمل ھوتا ھے اور انسان کے عمل صالح اور دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان۔

حضرت صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

لیس یتبع الموٴمن بعد موتہ من الاجرإلا ثلاث خصال :صدقة اجراھا فی حیاتہ فھی تجری بعد موتہ، و سنة ھو سنھا فھی یعمل بھا بعد موتہ ،او ولد صالح یدعولہ “۔[18]

مومن کے مرنے کے بعد تین چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز کام نھیں آئے گی : وہ صدقہ جاریہ جو اس نے اپنی زندگی میں کیا ھو ، تو وہ اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ھے، اور وہ سنت حسنہ جس کی بنیاد اس نے اپنی زندگی میں رکھی ھو اور اس پر عمل کیا جارھاھو، یا نیک اولاد جو اس کے لئے کار خیر انجام دیتی ھیں۔

اس حدیث پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے، اور ایسے کارنامے انجام دینا چاہئے جن ثواب سے موت کے بعد بھی فیضیاب ھوتا رھے۔

اس بنا پر روز قیامت اور روز حساب پر ایمان رکھنے سے انسان ایسے اعتقاد ات پر یقین حاصل کرلیتا ھے جو نتیجہ کے لحاظ سے بااھمیت اور واضح نتائج کے حامل ھوں ،تاکہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو صحیح طور پرمنظم کرسکے اور اپنے کردار کو انسانی اغراض و مقاصد کے لحاظ سے مرتب کرے ، یعنی ہر طرح کے ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور فساد و برائی سے دور رھے جیسا کہ آج کی دنیا میں ہر طرف ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا دور دورہ ھے۔

( یھی وہ جگہ ھے کہ جہاں پر بے دین اور روز قیامت پر ایمان نہ رکھنے والے افراد مجبور ھوکر اس بات کا وضاحت کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے نظر آتے ھیں کہ انسان کی زندگی کو ظلم و ستم سے بچانے اور حق و عدل اور انصاف سے زندگی گزارنے کے لئے قیامت کے عقیدہ کے علاوہ اور کوئی چیز نھیں ھوسکتی، جیسا کہ ”کانٹ“ اور ”فولٹر “وغیرہ نے اس کا اعتراف کیا ھے)۔[19]

حوالہ جات:

[1] سورہٴ نساء آیت۶۰۔

[2] سورہٴ اسراء آیت۵۳۔

[3] جیسا کہ مولائے کائنات دعاء کمیل میں فرماتے ھیں، ”ولا یمکن الفرار من حکومتک“۔ (تیری حکومت سے فرار کرنا ممکن نھیں ھے) (مترجم)

[4] جامع الاخبار /سبزواری :ص۳۵۹/۱۰۰۱۔موٴ سسہ آل البیت علیہ السلام قم،بحار الانوار /علامہ مجلسیۺ ج۷۸ص۱۲۶/۷، از امام حسین علیہ السلام ۔

[5] کنزل العما ل /متقی ہندی ۱۵:۶۹۰/۴۲۷۶۱۔موٴسسہ الرسالہ ۔بیروت۔

[6] سورہٴ انعام آیت۱۶۴۔

[7] سورہٴ مدثر آیت۳۸۔

[8] سورہٴ مومنون آیت۱۰۱تا۱۰۳۔

[9] سورہٴ آل عمران آیت۱۰۔ و سورہ مجادلہ آیت۱۷۔

[10] سورہٴ آل عمران آیت۱۱۶و ، سورہٴ مجادلہ آیت۱۷۔

[11] سورہٴ لیل آیت۱۱۔

[12] تفسیر رازی۲۲:۱۳۵۔دار احیا ء الترا ث العربی ۔بیروت۔

[13] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۵۰۷۔الحکمہ ۲۲۱۔

[14] غرر االحکم / الا ٓ مدی ۲:

[15] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۳۴۶۔خطبہ نمبر ۲۲۴۔

[16] امالی مفید :۱۹۸/۳۲موٴ تمر شیخ مفید ۔قم۔

[17] سورہٴ مطففین آیت۱۔۵۔

[18] التہذیب /شیخ طوسی ۺ ۹:۲۳۲/۳۔دارالکتب الاسلامیہ ۔تہران۔

[19] الا دلة الجلیہ فی شرح الفصول النصیریة/عبد اللہ نعمة :۱۹۳۔دارالفکر اللبنانی۔

Add comment


Security code
Refresh