www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تاریخ کربلا اور تحریک زینب سلام اللہ علیھا میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جس کے قافلہ سالار امام حسین علیہ السلام تھے جس کے حامی عباس علیہ السلام علی اکبر علیہ السلام ۔۔۔ بنی ھاشم اور امام حسین علیہ السلام کے باوفا اصحاب تھے ،

 وہ غیور مرد جن پر اھل بیت علیھم السلام حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اھل بیت علیھم السلام کو سکون تھا ۔
دين اسلام کي پاکيزہ تعليمات کی تحفظ وپاسداري
جناب زینب سلام اللہ علیھا نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ھونے والے طرح طرح کے تغیرات بھت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاھلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھاہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کررھے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ھر قربانی دینے کو تیار ھوگئی ظاھر ہے جناب زینب سلام اللہ علیھا ، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ھوئی تھیں کیونکہ آپ کاپورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا ۔
علم و تقويٰ
کائنات کي سب سے محکم و مقدس شخصيتوں کے درميان پرورش پانے والي خاتون کتني محکم و مقدس ھوگي اس کا علم و تقويٰ کتنا بلندو بالا ھوگا۔ جب آپ مدينہ سے کوفہ تشريف لائيں تو کوفہ کي عورتوں نے اپنے اپنے شوھروں سے کھا کہ تم علي سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کي تعليم و تربيت کے لئے کافي ہیں ، ليکن ھماري عورتوں نے يہ خواھش ظاھر کي ہے کہ اگر ھو سکے تو آپ اپني بيٹي زينب سلام اللہ علیھا سے کھہ ديں کہ ھم لوگ جاھل نہ رہ سکيں ۔
ايک روز کوفہ کي اھل ايمان خواتين رسول زادي کي خدمت ميں جمع ھو گئيں ۔اور ان سے درخواست کي کہ انھيں معارفت اللہ سے مستفيض فرمائيں ۔ زينب سلام اللہ علیھا نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسير قرآن شروع کيا اور چند دنوں ميں ھی خواتين کي کثير تعداد علوم اللہ سے فيضياب ھونے لگي ۔ آپ روز بہ روز قرآن مجيد کي تفسير بيان کر تي تھيں ۔
تاریخ آپ کو " ثانی زھرا" اور " عقیلۂ بنی ھاشم " جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ھے ۔
کوفہ ميں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ھر مردو زن کي زبان پر تھااور ھر گھر ميں آپ کے علم کي تعريفيں ھو رھی تھيں اور لوگ علي(ع) کي خدمت ميں حاضر ھو کر آپ کي بيٹي کے علم کي تعريفيں کيا کرتے تھے يہ اس کي بيٹي کي تعريفيں ھو رھی ھیں جس کا باپ "راسخون في العلم " جس کا باپ باب شھر علم ھے جس کا باپ استاد ملائکہ ھے ۔
جذبہ جھاد اور سرفروشی
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جھاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رھتی دنیا کے لئےجاوداں بنادیا ۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشھیر سے تعلق رکھتاہے ۔

فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر
اس دوران جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کی شخصیت کے کچھ اھم اور ممتاز پھلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ھوئے ہیں ۔ خدا کے فیصلے پر ھر طرح راضی و خوشنود رھنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیازہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے ۔
سالارٍ حقانیت
جناب زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیاہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کرکے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سردربار ان بھیمانہ جرائم کو برملا کرکے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ھوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے ہیں ۔
انقلابی تدبر
باوجود اس کے کہ بظاھر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماھیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ھی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مھم کو ناکام و نامراد کردیا۔
بے مثال عالمہ اور صبرو استقامت کا کوہ گراں
امام زين العابدين عليہ السلام فرماتے ہيں کہ بحمد اللہ ميري پھوپھی (زينب سلام عليھا) عالمہ غيرمعلمہ ہيں اور ايسي دانا کہ آپ کو کسي نے پڑھايا نھیں ھیں.
زينب سلام عليھا کي حشمت و عظمت کے لئے یھی کافي تھا کہ انھيں خالق کایئنات نے علم ودانش سے سرفراز فرمايا تھا ۔
جناب زينب سلام اللہ علیھا ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کي عظيم دولت و نعمت سے بھي بھر مند تھي زينب بنت علي تاريخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفريں کردار کا دوسرا نام ھے ۔
زينب نے اپنے عظيم کردار سے آمريت کو بے نقاب کيا ظلم و استبداد کي قلعي کھول دي اور فانی دنيا پر قربان ھونے والوں کو آخرت کي ابديت نواز حقيقت کا پاکيزہ چھرہ ديکھا يا ، صبرو استقامت کا کوہ گراں بن کر علي عليہ السلام کي بيٹي نے ايسا کردار پيش کيا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگي اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا ۔
جناب زينب سلام اللہ علیھا کو علي و فاطمہ عليھما السلام کے معصوم کردار ورثے ميں ملے اما م حسن عليہ السلام کا حسن وتدبير جھاں زينب کے احساس عظمت کي بنياد بنا وھاں امام حسين عليہ السلام کا عزم واستقلال علي عليہ السلام کي بيٹي کے صبر و استقامت کي روح بن گيا ، تاريخ اسلام ميں زينب سلام اللہ علیھا نے ايک منفرد مقام پايا اور ايساعظيم کارنامہ سرانجام ديا جو رھتي دنياتک دنيائے انسانيت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گيا۔

میدان کربلا میں ایک صحیفہ وفا
عابد نے ایسے طوقٍ گراں بار کاٹ دی
سائے نے جیسے دھوپ کی دیوار کاٹ دی
دیکھا بوقت عصر یہ سورج نے معجزہ
پیاسے گلے نے شمر کی تلوار کاٹ دی
(صفدر ھمدانی)
زينب بنت علي علیھما السلام تاريخ اسلام ميں اپني ایک مخصوص انفراديت ھے اور واقعہ کربلا ميں آپ کے صبر شجاعانہ جھاد نے امام حسين عليہ السلام کے مقدس مشن کی تکميل کو يقيني بنايا ۔ آپ نے دين اسلام کي پاکيزہ تعليمات کا تحفظ وپاسداري ميں اپناکردار اس طرح ادا کيا کہ جيسے ابوطالب(ع)رسول اللہ (ص)کي پرورش ميں اپنے بھتيجے کے تحفظ کے لئے اپني اولاد کو نچھا ور کرنا پسند کرتے تھے کيونکہ ان کاایک مقصد تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسي طرح زينب کاحال یہ کہ اسلام بچ جائے دين بچ جائے چاھے کوئي بھي قرباني ديني پڑے ۔
تاریخ کربلا اور تحریک زینب
آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے
شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے
چھلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت
زینب تری دعا کا اثر کربلا میں ھے
(صفدر ھمدانی)
تاریخ کربلا اور تحریک زینب سلام اللہ علیھا میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین علیہ السلام تھے جس کے حامی عباس ،(ع)علی اکبر (ع) ۔۔۔ بنی ھاشم اور امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب تھے ، وہ غیور مرد جن پر اھل بیت (ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اھل بیت (ع) کو سکون تھا ۔
ایسی حمایت و نگھبانی تھی کہ سید شھدا (ع) کی حیات کے آخری لمحات تک دشمن خیموں کے پاس تک نہ بھٹک سکا ، جنگ کے دوران ابو عبداللہ الحسین (ع) کی، لاحول ولا قوۃ الا بااللہ کی آوازسے ان کی ڈھارس بندھی ھوئي تھی حسین (ع) اس طرح انھیں تسلی دے رھے تھے ۔
بھترین عزیزوں کی شھادت پر امام زین العابدین (ع) کے بعد اس قافلہ کی بزرگ خاندان پیغمبر (ص) سے ایک خاتون ہے کہ جس کے عزم و استقلا ل کے سامنے پھاڑ پشیمان، جس کے صبر پر ملائکہ محو حیرت ہیں، یہ علی (ع) کی بیٹی ہے، فاطمہ (س) کی لخت جگر ہے ۔ بنی امیہ کے ظلم کے قصروں کی بنیاد ھلانے والی ہے ، ان کو پشیمان و سرنگوں کرنے والی ہے جناب زینب سلام اللہ علیھا تھیں ۔
یہ وھی سیدہ زینب (س) ہے جو اپنے امام (ع) کے حکم سے اولاد فاطمہ (س) کے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں ، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین (ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پھنچاتی ہیں ۔

سوئے کوفہ
زینب یزیدیت پہ مسافر کاایک وار
رمزِ حسین اسوہ ء زینب سے آشکار
زینب ہے کربلا کے شھیدوں کی یادگار
زینب کے دَم سے آج یہ مجلس ہے برقرار
ھر اک دیار میں ہے جو ماتم یتیم کا
صدقہ علی کی بیٹی کے عزمِ صمیم کا
(صفدر ھمدانی)
"باب صغیر" میں کئی صحابی اور اھلبیت مدفون ہیں
گیارہ محرم سن 61ھجری کو اھل بیت (ع) کے اسیروں کاقافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ھوا ، اھل بیت (ع) کے امور کی باگ دوڑ امام زین العابدین (ع) کے ھاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور آنحضرت کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری سلام اللہ علیھا ہیں ، جو امام زین العابدین (ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں ۔
راہ حق و حقیقت میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام (ع) کی بھن حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاھرہ کرتے ھوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوھر پیش کئے ہیں ۔ جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنانا ممکن ہے ۔
کربلا کی شھادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اھمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے ۔ وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کاایک لفظ بھی زبان پر نہ آيا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پھاڑ کی مانند ثابت قدم رھیں اور اپنے عزم و ھمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لھرادئے حضرت زينب سلام اللہ علیھا اور ان کی ھم قدم و ھم آواز ام کلثوم (ع) ، رقیہ ( ع) ، رباب (ع) ، لیلا (ع) ، ام فروہ (ع) سکینہ (ع) ، فاطمہ (ع) اور عاتکہ (ع) نیز امام (ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کیں۔
کیسے لھو میں بھر دیا احساس نے حسین
دشت بلا میں رو کے کھا پیاس نے
سینے پہ کربلا کے ھے مھرٍ وفا یوں ثبت
بازو کٹا کے لکھ دیا عباس نے حسین
(صفدر ھمدانی)
ظاھر ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو سنبھالنا آسان کام نھیں ہے کہ جنھوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کۓ تھے ، دل خراش واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اپنے عزیزوں کے داغ اٹھاۓ تھے اور اب وہ بے رحم دشمنوں کے محاصرہ میں ہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کافر قیدیوں کی طرح لے جایا جارھا ہے ۔
خواتین کے احساس و جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور صورت حال میں امام زین العابدین (ع) کی جان کی حفاظت بھی کرنا ہے جوکہ قافلہ میں زینب کی سب سے بڑی اور اھم ذمہ داری ہے پیغام کابار آپ پر زیادہ ہے ، لیکن زینب کے حوصلہ میں حد سے زیادہ استقامت اورمقاومت ہے کہ وہ بڑی مشکلوں اور مصائب کے وحشتناک طوفانوں سے ھر گز نہ گھبرائیں اور مقصد امام حسین (ع) کو زندہ جاوید بنانے میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے تاریخ کا بے مثال نمونہ پیش کیا ہے ۔
سوئے شام
گھر لٹ گیا ماں جائے کا ناشاد ھے زینب
سر نیزے پہ شبیر کا فریاد ھے زینب
منزل تھی کڑی شام کے بازار کی بیشک
ھم سارے مسافر ھیں ھمیں یاد ھے زینب
(صفدر ھمدانی)
اسیروں کے قافلہ کو چند روز ابن زیاد کی بامشقت قید میں رکھ کر شام کو روانہ کی جس زمانہ سے شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ھوا تھا اس وقت ھی سے وھاں خالد بن ولید اور معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگ حاکم رھے ، اس علاقہ کے لوگوں کونہ پیغمبر (ص) کی صحبت میسر ھوئي اور نہ وہ آپ کے اصحاب کی روش سے واقف ھوسکے ،رسول چندصحابی جواس سرزمین پر جاکر آباد ھوگۓ تھے یہ پراگندگی کی زندگی بسر کرتے تھے عوام میں ان کا کوئي اثر و رسوخ نھیں تھا ، نتیجہ میں وھاں کے مسلمان معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار اور اس کے طرز زندگی ھی کو سنت اسلام سمجھتے تھے ۔
اسیروں کے قافلہ کے داخلہ کے وقت ایسے ھی لوگوں نے شھر شام کو جشن و سرور سے معمور کررکھا تھا ، یزید نے اپنے محل میں مجلس سجارکھی تھی ، اس کے ھم قماش چاروں طرف بیٹھے تھے تاکہ بزم عم خود اس کامیابی کا جشن منائيں ۔
دربار ٍ یزید میں دختر حیسن کا استقلال
سرحسین (ع) کو یزید کے سامنے لا کر رکھا گیا اور اسی وقت اھل بیت (ع) کے اسیروں کو لایا گیا ، جس دختر حیسن (ع) نے اپنے باپ کے سر بریدہ کو دیکھا تو ھائے با با کھہ کر رونے لگی کہ جس سے مجلس والے پریشان ھوگۓ لیکن جب زینب (س) نے اپنے بھائی کا سر دیکھا تو ایسی غم انگیز آواز میں نوحہ پڑھا کہ جس نے کلیجے ھلا دیۓ ۔
" یا حسیناہ ، یا حبیب اللہ ، یا بن مکۃ و منی ، یا بن فاطمۃ الزھراء سیدۃ النساء ، یا بن بنت المصطفی :
اے حیسن (ع) ! اے حبیب خدا ، اے مکہ و منی کے فرزند ، اے دختر رسول فاطمہ زھرا سیدۃ النساء العالمین کے نورنظر
راوی کھتا ہے کہ قسم خدا کی زینب نے مجلس کے ھر شخص کو رلا دیا [22] یزید لعین شراب خوار اپنی جاہ طلبی کے نشہ میں چور خاموش بیٹھا تھا ، اور سید الشھداء کے دندان مبارک پر چھڑی لگارھا تھا [23] اور کھہ رھا تھا : کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاھد ھوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کھتے : شاباش اے یزید تیرا ھاتھ شل نہ ھو ، ھم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ۔
خطبہ زینب سلام اللہ علیہ
بنت علی تسلسلِ کرب و بلا بنی
انسانیت کے ننگے سروں کی ردا بنی
زینب امیرِ قافلہ ء کربلا بنی
دربارِ شام میں وہ علی کی صدا بنی
دشمن سماعتوں میں زھر گھولتے رھے
زینب کے بازؤں کے رسن بولتے رھے
(صفدر ھمدانی)
زینب (‏س)اپنی والدہ حضرت فاطمہ زھراء (س)کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں بھے دربار میں خدا کی حمدو ستائش کرتی ہیں اور رسول(ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آيت سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں :
" ثم کان عاقبۃ الذین اساؤاالسوای ان کذبوا بآیا ت اللہ ۔۔۔۔"
شھرحلب میں ایک پتھر پر امام حسین علیہ السلام کے خون کے دھبے نمایاں ہیں یزید تویہ سمجھتا تھا کہ تونے زمین و آسمان کو ھم پر تنگ کردیا ہے تیرے گماشتوں نے ھمیں شھروں شھروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ھم رسوا اور تو باعزت ھوگیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ھوگیا ہے اسی لۓ ان باتوں پر تکبر کررھا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاھت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باھر ھوجاتا ہے ۔
تو نھیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کرسکے کیاتو نے قول خدا کو فراموش کردیا ہے ۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مھلت جو انھیں دی گئي ہے یہ ان کے لۓ بھترین موقع ہے ، ھم نے ان کو اس لۓ مھلت دی ہے تاکہ وہ اپنے گناھوں میں اور اضافہ کرلیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ھوگا ۔
پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کرکے سربرھنہ کرے ، انھیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کرکے شھر بہ شھر پھراۓ ؟ نہ انھیں کوئي پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کاخیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ھمراہ ھوتا ہے لوگ ادھر ا‍‌‌‎ دھر سے انھیں دیکھنے کے لۓ جمع ھوتے ہیں ، لیکن جس کے دل میں ھمارے طرف سے کینہ بھرا ھوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
تو کھتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ھونے والے میرے بزرگ موجود ھوتے اور یہ کھہ کر تو فرزند رسول (ص) کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نھیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ھوا ہے ؟ تونے آل رسول (ص) اور خاندان عبدالمطلب کا خون بھا کر دو خاندانوں کی دشمنی کو پھر زندہ کردیا ہے ۔
خوش نہ ھو کہ تو بھت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ھوگا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ھوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کھتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ھوتے تو خوشی سےاچھل پڑتے ، اے اللہ تو ھی ھمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ھم پرستم کیا ہے ان کےدلوں کو ھمارے کینہ سے خالی کردے ،خداکی قسم تو اپنے آپے سے باھر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھالیا ہے ۔
جس روز رسول (ص)خدا ،ان کے اھل بیت (ع) ، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ھوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ھوگا ۔یہ دن وھروز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انھیں جمع کرے گا ۔
خدا خود فرماتا ہے : " راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بھرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ھوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ھوگا ، اور عدالت الھی میں تیرے ھاتھ پاؤں گواہ ھوں گے اس روز معلوم ھوگا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔
یزید اے دشمن خدا ! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نھیں ہے کہ میں تجھے سرزنش کروں یا تحقیر کروں ، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رھے ہیں دل سے آھیں نکل رھی ہیں ، شھادت حسین (ع) کے بعد لشکر شیطان ھمیں کوفہ سے ناھنجاروں کے دربار میں لایا تاکہ اھلبیت (ع) پیغمبر (ص) کی ھتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے ، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے ، انعام حاصل کرے ۔
جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوئے اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گۓ ہیں ، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ کتے دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تونے ھمارے مردوں کو شھید اور ھمیں اسیر کرکے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ھوجاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نھیں ہے ، اس روز تمھارے کۓ کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ھوگا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروکار خدا کی میزان عدل کے سامنے کھڑے ھوں گے ۔
تجھے اس روز معلوم ھوگا کہ بھترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لۓ جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول (ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کردیا ۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نھیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نھیں کرتی ، جو چاھو تم کرو ، جس نیرنگی سے کام لینا چاھو لو ، اپنی ھردشمنی کا اظھار کرکے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گيا ہے وہ ھرگز نہ چھوٹے گا ، ھر تعریف خدا کے لۓ ہے جس نے جوانان بھشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لۓ واجب قرار دیا ، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرماۓ ان پر اپنی رحمت کے سائیہ کو مزید گستردہ کردے کہ تو قدرت رکھنے والا ہے ۔
سفیر کربلا کی خوابیدہ ضمیروں میں بیداری
زینب حسینیت کی بقا کا پیام ہے
زینب کلامِ عکسِ امام الکلام ہے
زینب یزیدیت سے عداوت کا نام ہے
زینب دراصل فاتحِ دربارِ شام ہے
لھجے میں مرتضیٰ کے وہ جب بولنے لگی
بنیادِ ظلم وجورو جفا ڈولنے لگی
(صفدر ھمدانی)
شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزرجانے والے حادثہ کی حقیقت سے آگاہ ھوگۓ اور انھیں یہ معلوم ھوگیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ھاتھوں شھید ھوۓ ہیں رسول (ص) خدا کے نواسے حسین بن علی (ع) اور یہ خواتین بچے جنھیں قیدی بناکر دمشق لایا گيا ہے یہ پیغمبر اسلام (ص) کے اھلبیت (ع) یہ اس کاخاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر دوسرے مسلمانوں پر حکومت کررھا ہے۔
بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ ذینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ھوا معلوم کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشار ھوا اور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا ۔ چند لحظوں کے بعد ھی قصریزید میں موت کا سناٹا چھاگیا ۔
یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کھنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے ، میں حسین (ع) کے قتل کو پسند نھیں کرتا تھا ، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ھوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ، حکم دیا کہ انھیں دوسری جگہ منتقل کردو ۔قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاھتی ہے مل سکتی ہے ۔
عظمت زینب سلام اللہ علیھا کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ھوجاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور خطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے ۔
جس زینب سلام اللہ علیھا نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نھیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رھیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رھیں ۔
اس ماحول میں لب کشائی کے لۓ شیر کا کلیجہ اور جرئت درکار ہے ، زینب سلام اللہ علیھا کی رگوں میں علی (ع) و فاطمہ (س) کا خون دوڑ رھا ہے ۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شھامت سے ایسے سخن ریز ھوتی ہیں اور اھلبیت (‏ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلادیتی ہیں اور خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کردیتی ہیں ۔
کلام زینب سلام اللہ علیھا کے چند نکات
جناب زینب سلام اللہ علیھا کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کس مقابلہ میں کوئي شخص کھڑا نھیں رہ سکتا تھا ، زینب سلام اللہ علیھا کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پھلوؤں کو اجاگر کردیا اور رسول (ص) اور آل رسول (ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الھی اقدار کو اقدار کی ضد سے جدا کردیا ۔
اگر چہ آپ (س) کا پورا خطبہ ھی نکاس معمور ہے اور رھتی دنیا تک چراغ راہ اور سر چشمہ ھدایت ھے لیکن اس کے چند پھلوبھت اھم ھیں جو سیدہ کو سفیر کربلا بنا جاتے ھیں ۔
۱۔ ظالم کی پھچان اس کے سیاہ کارناموں سے ھوتی ھے
جناب زینب سلام اللہ علیھا کے خطبہ کے برجستہ ابعاد میں سے ایک پھلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی ناپاکی کے ریشے ہیں ، زینب سلام اللہ علیھا خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کراتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نھیں ہے ۔ اے یزید تو ھندہ کا بیٹا ہے اور ھندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول (ص) کے سردار سید الشھداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چباکر پھینک دیا تھا ،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اورکوئی توقع نھیں رکھی جاسکتی ۔
۲۔ تاریخ اسلام میں اسیری کی تعریف
جناب زینب سلام اللہ علیھا یزید کو ابن طلقاء کھہ کر مخاطب کرتی ہیں ، طلقاء ان لوگوں کو کھتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا اور فرمایا تھا : "اذ ھبوا انتم الطلقا " جاؤ تم سب آزاد ھو یزید انھیں اشخاص کا بیٹا ہے جنھیں رسول نے آزاد کردیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر (ص) کو اسیر بنا رکھا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ زینب سلام اللہ علیھا نے یزید کو یہ سمجھادیا کہ درحقیقت قیدی تو ہے ھماری اسیری ھماری ذلت پر دلیل نھیں ہے اور نہ تیری طاقت تیری عظمت و کامیابی پر دلیل ہے۔
جناب زینب (س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زینب سلام اللہ علیھا کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا ۔
۳۔ حزب اللہ اور گروہ شیطان
جناب زینب سلام اللہ علیھا اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ھاتھوں مارا جاۓ ، ھمارا خون تمھارے ھاتھوں سے ٹپک رھا ہے اور تمھارے منھ سے ھمارا گوشت نکلا پڑرھا ہے ۔
۴۔ پردہ کی اھمیت
جناب زینب سلام اللہ علیھا کے کلام سے تمام با ایمان اور اھلبیت (ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جاسکتا ہے وعفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر (ص) کی خواتین بیٹیوں کو قیدی بناکر شھروں شھروں ، کوچہ و بازار میں سربرھنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لھجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں ، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اھمیت کی غماز ہے ، اس سے ھمیشہ دفاع کرنا چاھۓ ۔
۵۔ پیشن گوئي
زینب (س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا : اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کرلے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کرلے لیکن قسم خدا کی تو ھماری یاد کو نھیں مٹا سکتا ہے اور وحی الھی کو نابود نھیں کرسکتا ہے۔۔۔۔ھر تعریف خدا ھی کے لۓ ہے کہ جس نے ھمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شھادت و رحمت پر کیا ۔
سایہ کیے سروں پہ ھے چادر بتول کی
مانگو دعا جو چاھو گھڑی ھے قبول کی
کھاتا ھوں میں قسم یہ حدیثٍ رسول ھے
عبرت ھے موت ، دشمنٍ آلٍ رسول کی
(صفدر ھمدانی)
 

Add comment


Security code
Refresh