www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلامی نظام میں حقوق

حقوق بھی اسلامی سیاست کا ایک حصہ ھیں اور اس مفروضہ کی بنا پر حقوق سے وابستہ قوانین کا تعین اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسی طرح قانونی حیثیت کا حامل ھے جس طرح سے دین اسلام کی بنیاد پر مبنی اسلامی عدالتوں کے قوانین و مقررات کوقانونی حیثیت حاصل ھے ۔

قرآن مجید میں غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کا ذکر طاغوت کے عنوان سے کیا گیا ھے اور ان کی اطاعت قبول کرنا طاغوت کی اطاعت قبول کرنے کے برابر بتائی گئی ھے ، جبکہ عدالت اور انصاف کا تعلق صرف اللہ ، اس کے رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ھے ۔

(۵) ” یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واحسن تاویلا “ ” الم تر الی الذین یزعمون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان یضلھم ضلالا بعیدا“ (۴۱)

” اے ایمان لانے والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں پھر اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ھو تو فیصلے کےلئے اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹادو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ھو ۔ یھی سب سے بھتر اور عمدہ تاویل ھے ۔ کیا تم نے ان کو نھیں دیکھا جو یہ گمان کرتے ھیں کہ جو کچہ تم پرنازل کیا گیا اور جو کچہ تم سے پھلے نازل کیا گیا وہ سب پر ایمان لائے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا جا چکا ھے کہ اس کے منکر ھوں اور شیطان یہ ارادہ رکھتا ھے کہ ان کو بھٹکا کر بڑی گمراھی میں ڈال دے۔

ان آیتوں میں ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ھے جنھوں نے غیر شرعی اور غیر قانونی عدالتوں کے فیصلوں کو مانا اور ان پر عمل کیا ھے حالانکہ اسلام کے سیاسی، قانونی اور سماجی نظام میں حاکمیت اور قضا کے قانونی مقام کا تعین اللہ ، اس کے رسول  اور والیان حق کے ذریعے ھونا لازمی ھے اور جو حکم ان کی جانب سے صادر ھو اس پر عمل کرنا بھی ضروری ھے۔

” و ما کان لمؤمن و لا مؤمنة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقد ضل ضلالا مبینا“ (۴۲)” کسی مومن مرد کے لئے یہ بات مناسب ھے نہ کسی مومن عورت کے لئے کہ جب خدا اور اس کے رسول نے ایک بات طے کر دی تو پھر انھیں اپنے اس معاملہ میں کچہ بھی اختیار ( باقی ) رھے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول  کی نافرمانی کرے گا یقینا وہ تو کھلی گمراھی میں پڑے گا “

 افراد اور اسلامی معاشرے سے وابستہ قوانین کی ضمانت شرع مقدس اور اس کے قوانین و مقررات کی روشنی میں ان شرعی حاکموں کے ذریعے ھوتی ھے جو اسلامی نظام میں والیان صالح کے ذریعے مقرر کیے جاتے ھیں ۔

قرآنی آیات کی بنا پر اب تک اسلام کے سیاسی نظام میں حکومت کے اغراض و مقاصد اور فرائض کے بارے میں جو کچہ معروضات پیش کیے جا چکے ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے :

۱۔ مکتب حق یعنی اسلام کی حفاظت ،جو تمام فضیلتوں کی اساس ھے ۔

۲۔ طاغوت سے جنگ ،جو تمام خبائث اور تباھیوں کی جڑ ھے ۔

۳۔ مستضعفین کی حمایت اور غریبوں کی مدد ،جو دستور قرآن کی بجا آوری ھے ۔

۴۔ محروموں کے حقوق چھیننے اور غصب کرنے والوں کو کچلنا ۔

۵۔حق ،انصاف اور مساوات کی بنیادوںپر انفرادی اور سماجی حقوق کو محفوظ رکھنا ۔

۶۔ ملک کے اقتصادیات کو فروغ دینے کی غرض سے تبعیض اور استحصال پر قابو پانا ۔

۷۔ اتحاد کو محفوظ رکھتے ھوئے اختلافات کو ختم کرنا ۔

 ۸۔ انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ارتقا کے لئے شائستہ مکتب فکر اور رھبری کی بنیاد پر لوگوں کو تربیت دینا ۔

اسلام میں نظام حکومت

 دوسرا قابل بحث موضوع اسلام میں سیاسی نظام ھے ۔ نظریات ، فلسفوں ، عرف عام اور رسم و رواج کے نقطۂ نظر سے سیاسی نظام اور حکومت کی قسمیں مختلف ھیں ۔حضرت عیسیٰ (ع)مسیح کی ولادت سے چار صدی پھلے یونانی معاشرے میں ارسطو نے ” سیاست “ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی جس میں تین طرح کی حکومتوں کی طرف اشارہ کیا گیاھے : استبدادی ( شخصی ) ، اشرافی ( بالا طبقے کی حکومت ) اور ڈیموکریسی ۔ تاریخ علم سیاسیات کی طویل مدت میں ڈیموکریسی حکومت سب سے بھتر سمجھی گئی ھے ، اس سے قطع نظر کہ مفاھیم میں کس قسم کے اختلافات موجود ھیں ، لوگ اس سے کیا مراد لیتے ھیں اور کس حد تک یہ لفظ صحت و سقم پر مبنی ھے ۔ ھمارا مقصد صرف اتنا ھے کہ اسلامی سیاست و حکومت، مذکورہ حکومتوں میں سے کس حکومت سے مماثلت رکھتی ھے ؟

اس سوال کے جواب میں قرآنی آیتوں پر غور و فکر کرنے کے بعدھم اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ اسلامی معاشرے میں سیاست کا مفھوم ڈیموکریسی کے اس مفھوم سے قریب ھے جس میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب شامل نہ ھو، لیکن ان دونوں کے درمیان وہ بنیادی اختلاف بھی موجود ھے جو اسلامی نظام میں روح سیاست کے تشخص کا باعث ھوتا ھے اور وہ ھے حاکمیت خدائے لا یزال ۔

 اس موضوع کو مزید واضح کرنے کی غرض سے قرآن مجید کی روشنی میں ان اصولوں کو پیش کیاجا رھاھے جن سے حکومت کو قانونی حیثیت ملتی ھے اور اس کے بعد مذکورہ خصوصیت کا تفصیلی جائزہ لیاجائے گا ۔

حکومت کے بروئے کار آنے کی صورتیں

 ۱۔ نص : یعنی خدا اور رسول  کی طرف سے تعین ۔یہ امتیاز در اصل پیغمبر  و امام کو حاصل ھوتا ھے ، پھر نتیجةً” ولی فقیھہ کو ، بشرطیکہ اس میں نبی و اوصیائے نبی کے بیان کردہ اساسی صفات پائے جاتے ھوں ۔ جیسا کہ آیۂ ذیل سے واضح ھے ۔

”یاایھاالذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم “ (۴۳) ” اے ایمان لانے والو ، اللہ رسول  اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم ھی میں سے ھیں “ ۔

۲۔ شوریٰ   یعنی ارباب حل و عقد جو عوام کی نظر میں مقبول ھوں وھی آپس میں مشورہ کر کے نیک اور صالح ترین شخص کو انتخاب کر سکتے ھیں ۔

۳۔ رائے عامہ : نص صریح کی عدم موجودگی میں عوام ، اسلام میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کر کے اسے اسلامی معاشرے میں سیاست کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتے ھیں ۔

لیکن انتخاب ھو یا شوریٰ ان دونوں کے نتیجہ میں ایک بنیادی نکتہ جو لوگوں کی فکر و توجہ کا مرکز اور جس کے ذریعے اسلامی نظام دوسرے نظاموں سے ممتاز قرار پاتا ھے ، اسلامی سیاست کے معاملوں پر ولی امر کی نظارت کا مسئلہ ھے ، جسے ھر حالت میں ھونا چاھئے ۔ اس بات کی وضاحت ضروری ھے کہ ولایت امر کا تعلق صرف پیغمبر  و امام (ع)اورزمانہ غیب میں جبکہ پیغمبر  و امام تک رسائی ممکن نھیں ،اس فقیہ سے ھے جسکے اندر وہ تمام شرائط پائی جاتی ھوں جو ولی امر کے لئے بیان کی گئی ھیں ۔ ولی امر لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کرنے کے بعد منظور ھونے والی قرار دادوں پر غور و فکر کر کے ان کو منظور یا نا منظور کر سکتا ھے اور یہ حق ولی امر کے لئے ھمیشہ سے محفوظ ھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ھے : ” و شاور ھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ ” آیت میں مشورہ کرنے پر زور ضرور ھے لیکن آخری فیصلہ کرنا پیغمبر کے ذمے ھے وہ بھی خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے “ ۔

لھذا اسلام کے سیاسی نظام میں شوریٰ اور رائے عامہ کی خصوصیت یہ ھے کہ دوسرے سیاسی نظام میںصرف شوریٰ اور رائے عامہ پر ھی زور دیتے ھیں اور خدا و پیغمبر  سے ان کا کوئی واسطہ نھیں ھوتا جبکہ اسلامی سیاست کا زور زیادہ تر خدا اور بندوں کے درمیان حکومت میں پیغمبر کی نظارت پر ھوتا ھے ۔

جو حاکمیت ولی امر کے ذریعے عملی شکل اختیار کرتی ھے ، در حقیقت اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ھے ، البتہ لوگ بھی فکر و نظر کے مالک ھیں لیکن یہ فکر و نظر بطور مطلق نھیں بلکہ اس شرط پر ھے کہ ان کے افکار و خیالات احکام و قوانین الٰھی سے مطابقت اور ولایت امر سے موافقت رکھتے ھوں ۔” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “ (۴۴)

 اسلام کے سیاسی نظام میں قوانین کے مآخذ

گذشتہ بحثوں کے دوران اشارہ کیا جا چکا ھے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں احکام و قوانین وحی سے ماٴخوذ ھیں جو عالم غیب سے آنحضرت  پر نازل ھوئے اور بعد میں ان کے قول و فعل سے اس کی تعبیر کی گئی ۔ امت مسلمہ کے اعتقاد کے مطابق ، قرآن مجید ان تمام اصولوں اور احکام و قوانین پر مشتمل ھے جو ھر دور اور ھر زمانے کے لحاظ سے انسانوں کی ضرورت کو پورا کرتے ھیں، لھذا ھر زمانے میں رونما ھونے والے مسائل اور جزئیات کو اس کلیہ پر منطبق کر کے ھر وقت نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے ۔

 فقہ میں اجتھاد کا مسئلہ ایک خاص مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ھر زمانے میں احکام و قوانین کا نفاذ ممکن ھے ۔ کیونکہ اس کا سر چشمہ ” قرآن و حدیث “ ھے ۔ قرآن و سنت سے ھر مسئلہ ، ھرضرورت اور ھر مشکل کا حل ملتا ھے ۔لھذ اسلام ،سیاست و ریاست اورقانون و آئین میں کبھی خاموش نظر نھیں آتا ۔ اجتھاد انسان کے انفرادی ، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی مسائل و معاملات میں معقول حل دریافت کر سکتا ھے ۔ ” لتحکم بین الناس بما اراک اللہ “(۴۵)

Add comment


Security code
Refresh