www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حقیقی سر براھوں کی خصوصیات

قرآن میں ایسے واقعات بھی ھیں جن میں ایسے سر براھوں کا ذکر ھے جنھوں نے عوام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ھوئے صحیح اقدامات کئے ھیں۔

ایک واقعہ تو وھی ھے جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایک ایسا فرما نروا اور سر براہ دیا جائے جو ان کو ساتھ لے کر دشمن سے مقابلہ کر سکے :

” وقال لھم نبیھم ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا ونحن احق بالملک منہ و لم یؤت سعة من المال قال ان اللہ اصطفہ علیکم و زادہ بسطة فی العلم وا لجسم و اللہ یؤتی ملکہ من یشاء و اللہ واسع علیم “ (۲)

” ان کے پیغمبر نے کھا اللہ نے تمھارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ھے ۔ ان لوگوں نے کھا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نھیں ھے ان سے زیادہ تو ھمیں حقدار حکومت ھیں ۔ نبی نے جواب دیا کہ انھیں اللہ نے  تمھارے  لئے منتخب کیا ھے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ھے اور اللہ جسے چاھتا ھے اپنا ملک دے دیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اور صاحب علم بھی ھے ۔

یہ آیت ان افراد کے افکار و خیالات کی تردید کرتی ھے جو سربراھی کے لئے مال و ثروت کو ضروری سمجھتے ھیں اور ایک ایسے معیار سے آشنا کراتی ھے جو کسی فرد کی حاکمانہ لیاقت و قابلیت کا ثبوت فراھم کرتا ھو ، یھاں علم و قدرت کواستحقاق فرمانروائی کا معیار قرار دیا گیا ھے ۔

اس آیۂ مبارکہ میں ایک بھت لطیف نکتہ یہ ھے کہ جو سر براھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیادوں پر مستحکم ھوتی ھے وہ الطاف باری تعالیٰ سے سر شار ھوتی ھے اور خدا وند کریم سوائے ان لوگوں کے جو اھلیت رکھتے ھیں ھر کس و ناکس کو اس عطیہ سے نھیں نوازتا ، اس لئے کہ یہ عطیہ وھی مالکیت مالک الملک ھے جو لائق و شایستہ سربراہ کی ملکیت میں دیا جاتا ھے ورنہ انسان کوحق نھیں ھے کہ وہ علم ، قدرت اور اپنی سربراھی پر ناز کرے ، اس لئے کہ قدرت اور علم در حقیقت ابتداء خدا وند کریم کے لئے ھے پھر کھیں انسان تک اس کی رسائی ھوتی ھے ۔

”قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر “ ( ۳)

پیغمبر آپ کھئے کہ خدا یا تو صاحب اقتدار ھے جس کو چاھتا ھے اقتدار دیدیتاھے اور جس سے چاھتا ھے سلب کرلیتا ھے ۔ جس کو چاھتا ھے عزت دیتاھے اور جس کو چاھتا ھے ذلیل کرتا ھے ۔ سارا خیر تیر ے ھاتھ میں ھے اورھی ھر شہ پر قادر ھے ۔

سورہ بنی اسرائیل میں طالوت و جالوت کے درمیان جنگ کے واقعات اس طرح بیان کئے گئے ھیں :

”فھزموھم باذن اللہ و قتل داود جالوت و اٰتاہ اللہ الملک و الحمکة و علمہ مما یشاء “ (۴)

نتیجہ یہ ھوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دیدی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انھیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاھا دیدیا ۔

اسی طرح یہ آیت حکومت کے اقتدار و مدارج کے ساتھ ساتھ علم اور حکمت پر زور دیتے ھوئے ذمہ داریوں میں سے ایک ایسی ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کرتی ھے جو الٰھی سر براھوں کے ذمے ھوتی ھے ، مثلا دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا ․․․․․․․۔ اس بحث کو حکومت کے سیاسی مسائل اور فرائض کے ضمن میں بیان ھونا چاھئے ۔

 قرآن کریم میں ایسے پیغمبروں کے نام بھی درج ھیں جو مقام نبوت کے علاوہ معاشرتی ثقافت و سیاست کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ، ان میں سے پیغمبر داؤد ، سلیمان ، یوسف اور ذو القرنین علیھم السلام کے نام قابل ذکر ھیں۔

۱۔” یاداوٴد انا جعلناک خلیفةفی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ “ ( ۵)

اے داؤد ھم نے تم کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ھے ، لھذا لوگوں کے درمیان جن کے ساتھ فیصلہ کرو اورخواھشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ رارہ خدا سے بھٹک جاتے ھیں ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو یکسر نظر انداز کردیا ۔

۲۔” و ورث سلیمان داوٴد و قال یا ایھا الناس علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی ان ھٰذا لھو الفضل المبین “ ” و حشر لسلیمان جنود ہ من الجن و الانس و الطیر فھم یوزعون “ (۶)

” اورپھر سلیمان داؤدکے وراث ھوئے اور انھوںنے کھا کہ لوگوںمجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیاھے اورھر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ھے اور یہ خدا کا کھلا ھوا فضل وکرم ھے اور سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جنات انسان اورپرندے سب اکٹھا کئے جاتے تھے تو بالکل مرتب منظم کھڑے کردئے جاتے تھے ۔

تفسیر صافی میں مجمع البیان سے اور مجمع البیان میں امام جعفر صادق (ع)سے روایت ھے کہ حضرت سلیمان (ع)کی حکومت کا دائرہ مشرق سے لیکر مغرب تک پھیلا ھوا تھا ۔ انھوں نے زمین پر بسنے والے تمام جن و انس ، شیاطین ، چرند و پرند اور وحشی جانوروں پر سات سو سال سے زیادہ حکومت کی تھی ۔

۳۔” و قال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفسی فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین “

” قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم “ ” و کذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث یشاء نصیب برحمتنا من نشاء و لا نضیع اجر المحسنین“ ( ۷)

اور بادشاہ نے کھا کہ انھیں سے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کھا کہ تم آج ھمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رھو گے پھریوسف نے کھا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ھوں اور صاحب علم بھی اور اس طرح ھم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جھاں چاھیں رھیں ھم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاھتے ھیں مرتبہ دے دیتے ھیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نھیں کرتے ۔

حضرت یوسف (ع)مصر کے زندان میں بھی لوگوں کی بری حالت اور حکومت وقت کے فتنہ و فساد سے با خبر تھے ۔ انھوں نے مصر ی عوام پر حکمراں سیاسی نظام کو ختم کر کے انھیں امن و انصاف مھیا کرنے کی فکر میں کوئی فروگذاشت نھیں کی ۔جس وقت وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بیان کرنے کے سلسلے میں بے گناہ قیدی کی حیثیت سے پھچانے گئے ، بادشاہ نے ان کے چھرۂ مبارک پر دانشمندی و بیدار مغزی کے آثار دیکھے تو ۔ وہ چاھتا تھا کہ ملک و ملت کی شہ رگ یعنی ملک کی اقتصادی سیاست کی ذمہ داری انھیں سونپ دے۔ اس اھم نکتے سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھیے کہ اقتصادی سیاست پر ملک کے سارے نظام اور عوام کے مستقبل کا دار و مدار ھوتا ھے ۔ ملک کی سیاست سنبھالنے کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع)کے اقوال میںسے ایک اور اھم نکتہ سامنے آتا ھے جو دو بنیادی شرطوں پر مبنی ھے ۔ ایک ” حفیظ “ یعنی محافظ ، امانت دار اور قابل اعتماد ھونا ، دوسری شرط ” علیم “ یعنی ملکی منافع ، مال و دولت ، ذخیروں اور سیاست دولت سے با خبر ھونا ھر سر براہ کے لئے شرط لازم ھے ۔

آیا حضرت آدم (ع)کی خلافت و حکومت میں علم و امانت کے سوا اور کوئی دوسرا محور تھا ؟

” و علم آدم الاسماء کلھا “ ” انا عرضنا الامانة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وحملھا الانسان“

جو شخص ان دونوں صفتوں سے محروم رھا وہ یقینی طور پر ” ظلوم و جھول “ یعنی نادان و ستمگر ٹھھرا ۔ انسانیت پر اب تک جتنے مصائب گذرے ھیں و ہ سب انھیں نادان ا ور ستمگر افراد کے ھاتھوں گذرے ھیںجنھوں نے خلافت کی امانت غصب کر کے انسانی زندگی کے نظام کو تباھی کے حوالے کر رکھا ھے ۔

۴۔ ”ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساٴتلوا علیکم منہ ذکرا انا مکنّا لہ فی الارض و آتیناہ من کل شئی سببا “(۸)

اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو آپ کھدیجئے کہ میں عنقریب تمھارے سامنے انکا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا ۔ ھم نے ان کو زمین میں اقتدار دیا اور ھر شئی کا سازو سامان عطا کردیا ۔

اس کے بعد محروم طبقوں کو نجات دلانے کے لئے ان کے مشرق و مغرب کے سفر کا ذکر ھوتا ھے ۔  یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم اور فساد کو روکنے اور مستضعفین اور محرومین کو شکنجے سے نجات دلانے کے لئے اسکندر نے دونوں طبقوں کے درمیان ایک دفاعی دیوار بنانے کے لئے کچہ اقدامات کئے تھے ، اس کی مزیز تفصیل قرآن مجید ا ور تفسیروں میں تلاش کرنا چاھئے ، بنیادی نکتہ یہ ھے کہ خدا وند کریم کی جانب سے مبعوث ھونے والے اس سربراہ اور انصاف پسند حکمراں نے ( اسکندر نام کا ایک باندہ ) قائم کیا تاکہ محروموں پر حملہ آور دشمن کے حملوں میں رکاوٹ ڈال سکے اور اس قابل تعریف اقدام کو اس طرح انجام دیا جس طرح سے ایک الٰھی سیاست کا ر اور زمامدار کو انجام دینا چاھئے ۔( سورہ کھف کی ۸۳ سے لیکر ۹۸ آیت تک ملاحظہ ھو )

بیان کردہ واقعات و حقائق ثابت کرتے ھیں کہ تاریخ کے طویل عرصے میں ایسے پیغمبر اور مردان حق گذرے ھیں جنھوں نے ملک اور عوام کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عوام کی راھنمائی اور سیاست کے فرائض بھی معیاری طریقے پر انجام دیے ھیں ،اور جس راہ پر سیاسی کارکنوں کو چلنا اور جن اغراض و مقاصد کو پورا کرنا چاھئے ان کی نشاندھی بھی انھوں نے اس طرح سے کی ھے کہ دوسروں کے لئے بطور نمونہ باقی رھیں ۔

اس باب کی اصولی بحثیں

 ۱۔ قرآن میں حکومت اور قانونی حکمراں ( حاکم شرع) کی بنیاد

۲۔ قرآنی نقطۂ نظر سے سیاسی نظام کے مقاصد و نتائج

۳۔ قرآن میں سیاسی نظام کے ارکان

۴۔ قرآنی نقطۂ نظر سے طرز حکومت

تتمہ : سیاسی رجحانات کے سامنے عوام اور مذھبی رھنماؤں کی ذمہ داری

بنیاد ِحکومت

 فرمانروائی

 نص قرآن کے مطابق مطلق اور کلی حاکمیت صرف خالق کائنات کو حاصل ھے کائناتی مطالعے ، آئیڈیا لوجی اور اعتقاد کا نتیجہ یھی ھے ۔ یھی عقیدہ پورے نظام کی اساس ھے۔ چونکہ ایک وجود مطلق ھی پوری کائنات کا فرمانروائے حکیم و عادل وقادر و سرمدی ھے لھذاظاھر ھے کہ انسانی سر نوشت بھی اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ھے ۔ اسی فلسفے سے یہ نتیجہ بھی حاصل ھوتا ھے کہ اولاً وبالذات اللہ حاکم ھے اور اس کے بعد ھر انسان خلیفہ ،نمایندہ اور رضائے خدا یا احکام خدا کا نافذکرنے والا ھے ۔ اس فلسفے کے لئے قرآن کی درج ذیل آیتیں تائید و راھنمائی کرتی ھیں :” ان الحکم الا للّہ امر الا تعبد و ا الا ایاہ “ ( ۹)

جب کہ حکم کرنے کا حق صر ف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔

” فالحکم للّہ العلی الکبیر “ (۱۰)فیصلہ صرف خدا نے بلند و بزرگ کے ھاتھ میں ھے ۔

” و من احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “ ( ۱۱)جب کہ صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بھتر کسی کا فیصلہ ھوسکتا ھے ۔

” ان الحکم الا للّہ یقص الحق و ھو خیر الفاصلین “ ( ۱۲)حکم صرف اللہ کے اختیار میں ھے وھی حق کو بیان کرتا ھے اور وھی بھترین فیصلہ کرنے والا ھے ۔

متعدد آیات کے مطالعے سے معلوم ھوتا ھے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی انسانی فرمانروائی کی طرح نھیں ھے ، جو طاقت اور سطوت کے بل بوتے پر حاصل ھوتی ھے ، بلکہ ان اشاروں کے سھارے جو آیات میں موجود ھیں اسکی فرمانروائی کا راز جبروت ، استغنا ، قدرت ، علم ، حکمت ، ربوبیت ، عدل و انصاف اور اللہ کے دیگر صفات  جمالیہ وجلالیہ میں تلاش کرنا چاھئے ۔ اس طرح سے اگر خدا وند عالم حاکمیت اور فرمانروائی اپنے بندوں کو عطا کرتا ھے تو محض اس لئے کہ وہ بھی اس کی حکمت کے تابع اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ھیں۔ پیغمبر اکرم  کی فرمانروائی کے سلسلے میں ارشاد ھوتا ھے :

”فلا و ربک لا یوٴمنون حتیٰ یحکموک فیما شجربینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما “ (۱۳)

پس آپ کے پروردگا ر کی قسم یہ ھرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپکو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں ۔

” و ان حکمت فا حکم بینھم بالقسط ان اللہ یحب المقسطین “ ’(۱۴)’ اور اگر فیصلہ کرو تو ان کے ما بین انصاف سے فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ منصفوں کو دوست رکھتا ھے “ ۔

 اس سلسلے میں اور بھی بھت سی آیات ھیں ۔

 حق اور انصاف کے ساتھ فرمانروائی کا حکم اللہ نے محض اپنے پیغمبروں تک ھی محدود نھیں رکھا بلکہ تمام مومنوں پر بھی یہ حکم نافذ ھوتا ھے کہ جب کبھی کوئی فیصلہ کریں تو حق اور انصاف کا پورا پورا خیال رکھیں اوراسکے پابند رھیں ۔

” ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا با لعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعا بصیرا“ (۱۵)

” بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پھنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمھیں بھترین نصیحت کرتا ھے بیشک اللہ سمیع بھی ھے اور بصیر بھی ۔

آیت کے دو حصے ھیں ۔ ” ان اللہ یامرکم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔واذاحکمتم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔“ ان دونوں حصوں میں اگر واو کو قرینہ مانا جائے تو امانت سے مراد امامت ، حکومت اور عدالت ھے لیکن اگر امانت کو کلی بھی مان لیا جائے تو اس میں ھر قسم کی امانتیں شامل ھوں گی اور اگر اس بحث میں نہ بھی پڑیں تب بھی ماننا پڑے  گا کہ امامت و حکومت تمام انواع امانت میں نمایاں ترین امانت ھے اور یقینی طور پر آیت سے یھی حکم ملتا ھے کہ یہ امانت یعنی حکومت ، اھل افراد کے حوالے کی جائے ، کیونکہ اگر ایک نا چیز مادی شئی کو امانت کا نام دیکر اھل کے حوالے کرنا فرض ھے تو حکومت وقضا ، سیاست و تدبیر معاشرہ ، امانت کا برتر و بھتر مصداق کیوں نہ اھل کے سپرد ھو ؟ چنانچہ تفاسیر میں ” امانت “ کو امامت و زعامت سے تعبیر کیا گیا ھے اور ” انا عرضنا الامانة “ میں امانت سے متعلق واضح ترین تفسیر یھی ھے ائمہ اھل بیت (ع)کی روایات اس کی طرف رھنمائی کرتی ھیں ۔

بھرحال یہ دیکھا جائے کہ اس امانت کا اھل کون ھے ؟ کیا ظلوم و جھول افراد ھیں “ جو ” لا ینال عھد ی الظالمین “ کے مصداق ھیں ؟ یا صالح ،مومن ، بے لوث اور عالم و متقی افراد ھیں ؟ ظاھر ھے کہ دوسرا جواب صحیح ھے ۔

بھر حال ، خدا وند کریم نے مومنوں کو امانت کی نمایاں قسم امامت و سیاست کو ان اھل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ھے جو خلافت الٰھی کی صلاحیت اور پیغمبروں کی نیابت رکھتے ھوئے امة مسلمہ کی قیادت اور اسلامی قدروں کی حفاظت کر سکتے ھوں ،صرف یھی نھیں ” حکم بین الناس “ کے سلسلے میں بھی لوگوں کو یہ ھدایت کی گئی ھوا ھے کہ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بھترین نصیحت ھے ۔

 ولایت

 جس طرح سے لفظ ” حکم “ کا تعلق ابتداء ًاللہ سے پھر اس کے بندوں سے ھے اسی طرح لفظ ” ولایت “ جو سر پرستی اور سربراھی کے معنی رکھتا ھے ، پھلے اللہ پھر پیغمبر اور اولی الامر سے تعلق رکھتا ھے ۔

” انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکوٰة و ھم راکعون “ ( ۱۶)

ایمان والوں بس تمھارا ولی اللہ ھے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں ، نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔

” النبی اولی بالمومنین من انفسھم “ (۱۷)

”بیشک نبی تمام مومنین کی جانوںپر خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ھے “۔

” یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم “ (۱۸)” اے ایمان لانے والو ! اللہ ، رسول اور ان والیان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ھیں “ ۔

والیان امر کون ھیں ؟ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت کون رکھتا ھے ؟ آیا مسند حکومت پر ھر بیٹھنے والے شخص کی اطاعت واجب ھے ؟

نعوذ باللہ ، ایسا ھرگز نھیں ھے کیا قرآن یہ نھیں کھتا ؟ ” و لا تطیعوا امر المسرفین الذین یفسدون فی الارض و لا یصلحون “ ( ۱۹)

اور ان زیادتی ( اسراف ) کرنے والوں کی جو زمین پر فساد کرتے ھیں اور اصلاح نھیں کرتے اطاعت نہ کرو ۔

 قرآن کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ھے جو اللہ کے پیغمبروں سے بے رخی اختیار کرتے اور ظالم و جابر افراد کے نقش قدم پر گامزن رھتے ھیں ۔

” و عصوا رسلہ و اتبعوا امر کل جبار عنید “ (۲۰) ” یہ قوم عاد کے افراد ھیںجو اس کے رسولوں کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور ھر کینہ ور ظالم کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے “ ۔

 اسی طرح فرعون کے بارے میں ارشاد ھے:

” وما امر فرعون برشید “ (۲۱) ” فرعون کا حکم صحیح نہ تھا “ ۔

 ولایت اور امر کے متعلق جو آیتیں پیش کی گئیں ان پر غور و فکر کرنے سے یہ نتیجہ عائد ھوتا ھے کہ ظالم و جابرادر بے صلاحیت حکام جو ضدی ، مسرف ، غاصب، ظالم اور عقل و علم کے دشمن ھیں ھرگز ” اولی الامر “ کا مصداق نھیں ھو سکتے ۔

 ” اولی الامر “ کا اطلاق ان رھبروں پر ھوتا ھے جو صالح ، عالم اور منصف ھوں ، پھلے مرحلے میں اولی الامر سے مراد اگر پیغمبر  کے ذریعے منتخب افراد ھیں تو دوسرے مرحلے میں اس سے مرادوہ افرادھیں جو علم ، زھد و تقویٰ ، عصمت اور عدل و انصاف کے لحاظ سے تمام انسانوں پر برتری رکھتے ھو ۔

 یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو تھوڑی سمجہ بوجہ رکھنے والا بھی آسانی سے سمجہ سکتا ھے ،۔ اگر کوئی شخص اس تعریف کے باجود ” اولی الامر “ جیسی مقدس اصطلاح کو ظالم و جابر افراد کے لئے استعمال کر کے انھیں اللہ و رسول  کی صف میں کھڑا کرے تو تعجب کا مقام ھے، لھذا اسلامی معاشرے کو سیاست کرنے کی ذمہ داری ، اسی شخص کو زیب دیتی ھے جو صراط مستقیم پر ایمان رکھتا ھو اور انبیاء و رسل کی راہ پر چلتا اور برحق اماموں کے مشن کی توسیع و تبلیغ کرتا ھو ۔

 امامت

قرآن مجید میں اصطلاح ( امام ) کا ذکر متعدد آیات میں ھواھے ، بعض جگھوں پراسے انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام سے تعبیر کیاگیا ھے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے بھی بالا و برترھے ، بعنوان مثال درج ذیل آیت ملاحظہ ھو :

 ” و اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن ، قال انی جاعلک للناس اماما ، قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین “ (۲۲) ” اور (اس وقت کو یاد کرو ) جبکہ ابراھیم (ع)کا اس کے رب نے چند کلمات سے امتحان لیا اور ابراھیم (ع)نے اس کو پورا کر دیا، ( خدا نے ) فرمایا کہ میں تم کو تمام انسانوں کا امام مقرر کرنے والا ھوں ،( ابراھیم نے ) عرض کی ،اور میری اولاد میں سے ،( خدا نے ) فرمایا جو ظالم ھوں گے ان تک میرا عھدہ نھیں پھونچے گا ۔

اگر چہ یہ آیت نفوس و قلوب کے اس معنوی مقام و منزل کی نشاندھی کرتی ھے جس کا تعلق عالم ملکوت اور ولایت تکوینی تک محدود ھے اور اس سے ھٹ کر عام چیزوں سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اس لفظ کے عام مفھوم اور آیت کے آخری حصے کو مد نظر رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ظالم افراد قیادت و امامت کے لائق نھیں ھیں ۔ لفظ ظلم کی ضد یعنی عدالت ، امامت و رھبری کے لئے بنیادی شرط ھے لیکن جن آیات میں لفظ امام استعمال ھوا ھے ( اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ امام کے معنی رھبر و پیشوا اور مقدم کے ھیں ) اگر ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ رھبر و پیشوا دو قسم کے ھیں جو ھمیشہ سے انسانوں کو الگ اور متضاد سمتوں میں لے جاتے رھے ھیں ۔

بعنوان مثال لائق اور بر حق اماموں کی بابت یوں بیان ھوا ھے :

” و جعلنا ھم ائمة یھدون بامرنا و اوحینا الیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰة و ایتاء الزکوٰة و کانوا لنا عابدین “ (۲۳)

” اور ان کو ھم نے ایسا امام بنایا جو ھمارے حکم کے بمطابق ھدایت کرتے ھیں اور ان کی طرف ھم نے نیکیاں کرنے ، نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کی وحی کی اور وہ سب کے سب ھماری بندگی کرنے والے تھے “ ۔

 اگر چہ مذکورہ آیت پیغمبروں اور ان کے بار رسالت و ھدایت کے بارے میں نشاندھی کرتی ھے ، لیکن اس کے باوجود انسان کی راھنمائی اور قیادت کو محض پیغمبروں ھی تک محدود نہ کرنا چاھئے اور نہ ھی ان کے دائمی وجود کی کوئی شرط ھونا چاھئے۔اس لئے کہ بھرحال پیغمبروں کی زندگی کا دور بھی اختتام پذیر ھے ۔ اگر یہ طے پائے کہ تا قیامت انسانوں کی راھنمائی الٰھی شریعت کا جذبہ ھی کرتا رھے جو کر رھا ھے ، تو اس جذبے اور اس کے اثرات کو شریعت کے دوسرے ابعاد کی طرح جاری و ساری رھنا چاھئے ۔ لھذا فکری ، دینی ، سماجی اور سیاسی قیادت و رھبری انھیں لوگوں کو زیب دیتی ھے جن کی خصوصیات مذکورہ آیت میں بیان کردہ خصوصیات کے مطابق ھوں ،یعنی خالص بندگیٴ خدا ، پابندی ٴنماز و روزہ اور محرومین و مستضعفین کی مدد کا جذبہ ان میں پایا جاتا ھو ۔ اسی ضمن میں دوسری آیتوں میںبیان شدہ خصوصیات ( علم ، عدل ، پرھیزگاری اور انسان دوستی ) کا حامل بھی ھونا چاھئے ۔

 یہ مختصر بیان انسانوں کے سچے اور حقیقی رھنماؤں کے سلسلے میںتھا۔گمراہ اور لیاقت سے عاری رھنماؤں کے بارے میں بھی قرآن ایک اھم نکتہ بیان کرتا ھے :

” و جعلنا ھم ائمة یدعون الیٰ النار و یوم القیامة لا ینصرون “ ” ھم نے ان کو ایسا امام بنایا ھے جو جھنم کی طرف دعوت دیتے ھیں اور روز قیامت ایسے لوگوں کاکوئی مدد گار نہ ھوگا “ ۔

 یہ آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ مصر میں حکومت ،فرعون اورآل فرعون کے پاس تھی جولوگوں کو جھنم کی اس آگ کی طرف لے جا رھے تھے جس سے نجات پانا مشکل ھے ۔

 اس میں کوئی شک نھیں کہ تاریکی و ظلمت کے دلال بننے ، دوزخ کا بیج بونے اور لوگوں کو دنیا و آخرت سے محروم کرنے کے سوا ظلم و جور کے سر براھوں کا پیشہ اور کچہ نھیں رھا ھے ۔ ان کی ھزاروں سال پر مشتمل حکومت کا نتیجہ یھی تھا کہ انھوں نے ھمیشہ جنگ کی آگ کو بھڑکایا اور ظلم و جور کا سھارا لیکر خود اپنے اور دوسروں کے لئے آخرت کی آگ فراھم کی ۔

 اس قسم کی سیاست و رھبری کے مد مقابل لوگوں کے فرائض کیا ھیں ؟

اس کا جواب کسی دوسرے موقعہ پر بیان کیاجائےگا ۔ فی الحال اسی سلسلے میں قرآن کریم کی ایک آیت مندرجہ ذیل ھے :

”فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم “ (۲۴)” سرداران کفر کو یھاں تک مارو کہ وہ باز آجائیں ۔ بے شک وہ ایسے ھیں جن کی قسم کوئی حیثیت نھیںرکھتی “ ۔

فتنہ و فساد کے اختتام اور الٰھی حکومت کے مستقر ھونے تک کفر و استکبار کے خلاف جنگ ( وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین  للّہ ) (۲۵)

اسلامی سیاست کا وہ جز ھے ، جسے فوجی سیاست یا اصول ِ دفاع کا نام دیا جا سکتا ھے یہ بحث کافی طویل ھے اور اس مختصر مقالے میں بحث کی گنجائش نھیں ۔

Add comment


Security code
Refresh