www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

502220
س۹۱۱۔ جو لوگ اپنی ملکیت کی زمین میں سے کوئی خزانہ پاجاتے ھیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ھے؟
ج۔ اگر یہ احتمال نہ ھو کہ جو خزانہ اس نے پایا ھے وہ اس زمین کے سابقہ مالک کا مال ھے تو دفینہ اس پانے والے کی ملکیت مانا جائے گا اور جب وہ ( دفینھ) ۲۰ دینا رسونا یا دو سو درھم چاندی ھو اور اگر ان دونوں کے علاوہ ھو تو قیمتاً کسی ایک کے مساوی ھو ایسی حالت میں اس کے پانے والے کو اس کا خمس نکالنا ھوگا یہ حکم اس صورت میں ھے کہ جب کہ اس کو کوئی اس پر ملکیت جتانے سے روکنے والا نہ ھو۔ لیکن اگر اس کو حکومت منع کرے یا کوئی اور مانع ھوجائے اور زور اور غلبہ سے اس چیز پر قبضہ کرلے جو ا س نے پایا تھا تو اس صورت میں اگر اس کے پاس نصاب کے برابر بچا ھو تو صرف اس میں اس کو خمس دینا ھوگا۔ اب اگر اس کے پاس نصاب سے کم ھے تو جو کچھ اس سے زور اور غلبہ سے لیا گیا ھے، اس کے خمس کی ذمہ داری اس پر نھیں ھے۔
س۹۱۲۔ اگر چاندی کے ایسے سکے میں جن کو کسی شخص کی مملوکہ عمارت میں دفن ھوئے تقریباً سو سال گذر چکے ھوں تو کیا یہ سکے عمارت کے اصلی مالک کی ملکیت سمجھے جائیں گے یا یہ قانونی مالک ( خریدار عمارت) کی ملکیت مانے جائیں گے؟
ج۔ اس کا حکم بعینہ اس دفینہ کا ھے جس کو ابھی سابقہ مسئلہ میں بیان کیا جاچکا ھے۔
س۹۱۳۔ ھم ایک شبھہ میں مبتلا ھیں وہ یہ کہ موجود ہ دور میں کانوں سے نکالی گئی معدنیات کا خمس نکالنا واجب ھے کیونکہ فقھا عظام کے نزدیک جو مسلم احکام ھیں ان میں معدنیات کے خمس کا وجوب بھی ھے اور اگر حکومت اسے صرف شھروں اور مسلمانوں میں خرچ کرتی ھے تو یہ وجوب خمس کی راہ میں مانع نھیں بن سکتا اس لئے کہ معدنیات کا نکالنا یا تو حکومت کی جانب سے عمل میں آتا ھے اور یھی وجہ ھے کہ وہ اس کو لوگوں پر خرچ کرتی ھے تو اس صورت میں حکومت اس شخص کی مانند ھے کہ جو معدنیات کو نکالنے کے بعد ان کو تحفہ ، ھبہ یا صدقہ کی شکل میں کسی دوسرے شخص کو دے دے اور خمس کا اطلاق اس صورت کو شامل ھے کیونکہ اس صورت میں وجوب خمس کے مستثنیٰ ھونے پر کوئی دلیل نھیں ھے۔ یا پھر حکومت لوگوں کی وکالت کے طور پر معاون کو نکالتی ھے ۔ یعنی حقیقت میں نکالنے والے خود عوام ھیں اور یہ ان سب وکالتوں کی طرح ھے جن میں خود موکل پر خمس نکالنا واجب ھوتا ھے یا حکومت عوام کے سرپرست اور ولی کی حیثیت سے نکالتی ھے تو اس صورت میں یا ولی کو معاون نکالنے والا مانا جائے گا۔ یا وہ نائب کی طرح ھوگا اور اصل نکالنے والا وہ ھوگا جس پر اس کو ولایت حاصل ھے ۔ بھر صورت معدنیات کے عمومات خمس سے خارج کرنے پر کوئی دلیل نھیںھے۔ جیسا کہ یہ بھی مسئلہ ھے معدنیات جب نصاب تک پھنچ جائیں تو اس پر خمس واجب ھوتا ھے اور یہ منافع کے مانند نھیں ھے کہ اگر ان کو خرچ کیا جائے یا ھبہ کیا جائے تو وہ سال کے خرچ میں شمار ھوگا اور خمس سے مستثنیٰ ھوگا۔ لھذا اس اھم مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ھے بیان فرمائیں؟
ج۔ معادن میں خمس کے واجب ھونے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ھے کہ اس کو ایک شخص زمین سے نکالے یا کئی لوگ مل کر نکالیں بشرطیکہ ان میں سے ھر ایک کا حصہ حد نصاب تک پھونچے وہ بھی اس طرح کہ جو کچھ وہ نکالے وہ اس کی ملکیت ھو اور چونکہ وہ معدنیات جن کو خود حکومت نکلواتی ھے وہ کسی خاص شخص یا اشخاص کی ملکیت نھیں ھوا کرتی بلکہ مقام اور جھت کی ملکیت ھوتی ھیں اس لئے ان میں شرط وجوب خمس نھیں پائی جاتی لھذا کوئی وجہ نھیں کہ حکومت پر خمس واجب ھو۔ اور یہ حکم معدن میں خمس کے واجب ھونے ( کی دلیل) سے مستثنیٰ نھیں ھے۔ ھاں وہ معادن جن کو شخص واحد یا چند اشخاص نکالتے ھیں تو ان پر اس میں خمس نکالنا واجب ھے یہ اس صورت میں کہ جب شخص واحد کا یا چند اشخاص میں سے ھر ایک کا حصہ معادن نکلوانے اور تصفیہ کروانے کے مخارج کو جدا کرنے کے بعد نصاب تک پھونچے کہ وہ نصاب ۲۰ دینار سونے کا اور دو سو درھم چاندی کا ھے چاھے خود سونا یا چاندی ھو یا قیمت۔
س۹۱۴۔ اگر حرام مال کسی شخص کے مال سے مخلوط ھوجائے تو اس مال کا کیا حکم ھے ؟ اور اس کے حلال کرنے کا کیا طریقہ ھے؟ اور جب حرمت کا علم ھو یا نہ ھو تو اس صورت میں اس کو کیا کرنا چاھئیے؟
ج۔ جب یہ یقین پیدا ھوجائے کہ اس کے مال میں حرام مال بھی ملا ھوا ھے لیکن اس کی مقدار واقعی کے بارے میں نہ جانتا ھو اور صاحب مال کو بھی نہ جانتا ھو تو اس کے حلال بنانے کا طریقہ یہ ھے کہ اس کا خمس نکال دے لیکن اگر اپنے مال میں حرام مال کے مل جانے کا صرف شک کرے تو کچھ بھی اس کے ذمہ نھیں ھے۔
س۹۱۵۔ میں نے شرعی سال شروع ھونے سے قبل ایک شخص کو کچھ رقم بطور قرض دی اور وہ شخص اس مال سے تجارت کی نیت رکھتا ھے جس کامنافع ھمارے درمیان نصف نصف تقسیم ھوگا اور واضح رھے کہ وہ مال فی الحال میری دسترس سے باھر ھے اور میں اس کا خمس بھی نھیں ادا کررھا ھوں تو اس کے لئے آپ کی کیا رائے ھے؟
ج۔ اگر آپ نے مال قرض کے عنوان سے دیا ھے تو ابھی آپ پر اس کا خمس ادا کرنا واجب نھیں ھے ھاں جب آپ کو واپس ملے گا تب ھی آپ پر اس کا خمس دینا واجب ھوگا لیکن اس صورت میں اس منافع میں آپ کا کوئی حق نھیں ھے جو قرض دار کے عمل سے حاصل ھوا ھے اور اگر آپ اس کا مطالبہ کریں گے تو وہ سود اور حرام ھوگا۔ اور اگر آپ نے اس رقم کو مضاربہ کے عنوان سے دیا ھے تو معاھدہ کے مطابق منافع میں آپ دونوں شریک ھوں گے اور آپ پر اصل مال کا خمس ادا کرنا واجب ھوگا۔
س۹۱۶۔ میں بینک میں کام کرتا ھوں اور بینک کے کاموں میں براہ راست دخیل ھونے کی وجہ سے لامحالہ ۵ لاکہ تومان بینک میں رکھنا پڑا۔ فطری بات ھے کہ رقم میرے ھی نام سے ایک طولانی مدت کے لئے رکھی گئی ھے اور مجھے ھر ماہ اس کا نفع دیا جارھا ھے تو کیا اس رکھی ھوئی رقم میں میرے اوپر خمس ھے قابل ذکر ھے کہ اس رکھی ھوئی رقم کو چار سال ھورھے ھیں؟
ج۔ امانت کے طور پر رکھی ھوئی رقم کو اگر آپ نکال کر اپنے اختیار میں نھیں لے سکتے تو اس وقت تک اس پر خمس عائد نھیں ھوگا جب تک کہ آپ کو مل نہ جائے۔
س۹۱۷۔ یھاں بینکوں میں اموال کے رکھنے کا ایک خاص طریقہ ھے کہ صاحبان اموال کا ھاتہ اس تک اصلاً نھیں پھنچ سکتا۔ لیکن وہ اموال ایک معین نمبر میں اس کے حساب میں رکہ دئیے جاتے ھیں۔ تو کیا ان اموال میں خمس واجب ھے؟
ج۔ اگر بینک میں رکھا ھوا مال سالانہ منافع کے ساتھ ھے اور صاحب مال کے لئے خمس کے حساب کا سال آتے ھی اس مبلغ کو حاصل کرنا اور بینک سے واپس لینا ممکن ھو تو خمس کا سال آتے ھی اس مال میں خمس ادا کرنا واجب ھے۔
س۹۱۸۔ جو مال کرایہ دار رھن یا قرض الحسنہ کے طور پر مالک کے پاس رکھتے ھیں کیا اس میں خمس ھے؟ اگر ھے تو کیا مالک پر ھے یا کرایہ دار پر؟
ج۔ اگر وہ رقم دینے والے کے کاروباری منافع میں سے ھے تو واپس ملنے کے بعد کرایہ دار پر واجب ھے اس کا خمس ادا کرے اور مالک مکان نے قرض کے عنوان سے جو رقم لی تھی اس پر خمس نھیں ھے۔
س۹۱۹۔ نوکری پیشہ لوگوں کی وہ تنخواھیں جو چند سال سے حکومت نے نھیں دی ھیں آیا سال جاری میں ملنے پر اس کو اسی سال کے منافع میں سے حساب کیا جائے گا اور خمس کا سال آنے پر اس کا حساب کرنا واجب ھے یا یہ کہ ایسے مال پر سرے سے خمس ھی نھیں ھے؟
ج۔ وہ تنخواہ اسی سال کی منفعت میں شمار کی جائے گی اور سال کے اخراجات کے بعد باقیماندہ رقم میں خمس واجب ھے۔

Add comment


Security code
Refresh