www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

902141
آج اس دور میں خود شیعہ کے اندر تشیع لندنی ایجاد کر کے مختلف شبھات ایجاد کئے جا رھے ہیں اور تشیع کا شاندار و تابناک چھرہ گرد آلود کرنے کی کوشش کی جا رھی ہیں کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مقام معظم رھبری آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے قوم شیعہ کو ان کے فتنہ سے ھوشیار رھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
پوری دنیا کے اندر مجالس حسین علیہ السلام کہ جو اسلام حقیقی کا بھترین ذریعہ ہیں ان مجالس کے اندر بعض منحرف ذاکر و خطبا، شیعہ عقاید، شیعہ کردار و رفتار جو معصومین علیھم السلام سے بیان شدہ ہے اس کے خلاف جب بیان کرنا شروع کیا تو آیت اللہ محمد حسین نجفی زید عزہ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا اور آج جسے تشیع لندنی کھا گیا ہے اس فقیہ اھلبیت علیھم السلام نے سالھا سال پھلے ان کی گمراھی سے آگاہ کیا۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت:
جب امام رضا علیہ السلام کی عمر مبارک 47 سال ھوتی ہے تو سال 195ھ میں امام محمد تقی علیہ السلام کا تولد پر برکت اور نور پرافروز 10 رجب المرجب کی رات کو امام رضا علیہ السلام کے گھر میں طلوع ھوتا ہے۔ امامت کے سلسلہ کی نویں کڑی امام کے وجود پر برکت سے تکمیل ھوتی ہے۔ عالم، امام کے نور سے منور ھوتا ہے۔ امام کے دل میں سکون اور اطمینان نھمین آفتاب امامت کی زیارت سے ایجاد ھوتا ہے۔ دشمنوں کی تمام کوششیں نقش بر آب ھوتی ہیں اور مومنین اس زمان سے قیامت تک امام کے وجود پر برکت سے اس دن خوشحال و مسرور ھوتے رھیں گے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت سے قبل عالم اسلام کی سیاسی صورتحال:
امام موسی کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام علی رضا علیہ السلام کے سامنے مختلف چیلنجز ہیں ایک طرف سے بعض منحرف شیعہ امام کی امامت کے خلاف لوگوں کے ذھنوں میں شبھات ایجاد کرتے ہیں تو دوسری طرف معتزلہ اسلام کا حقیقی چھرہ مامون کی سرپرستی میں خراب کر رھے ھوتے ہیں۔
امام رضا علیہ السلام کے زمانہ میں بھت سارے اسلامی اور شیعی فرقے وجود میں آچکے ھوتے ہیں، یھاں تک کہ بعض لوگ امام رضا علیہ السلام کی امامت کے منکر ھو جاتے ہیں۔
سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ ھارون کے مرنے کے بعد امین اور مامون کے درمیان جنگ شروع ھو جاتی ہے اور امین مامون کی فوج کے ھاتھوں مارا جاتا ہے اور اس کا سر طشت میں رکھ کر مامون کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
اسی زمانے میں شیعیان حیدر کرار اور علویان کی تعداد و قوت اس قدر نمایاں حیثیت رکھتی ہے کہ مامون مجبور ھو جاتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلائے اور اس طریقہ سے امام رضا علیہ السلام اور پیروان امام کو کنٹرول کر سکے، امام کو مدینہ سے خراسان بلا لیتا ہے۔ مامون ظاھری طور پر امام کا حد سے زیادہ احترام کرتا ہے، امام کو حکومت پیش کرتا ہے جس میں کامیاب نھیں ھوتا تو امام کو ولیعھدی پر مجبور کرتا ہے جسے امام مصلحت کے تحت بعض شرائط سے قبول کر لیتے ہیں۔
جب علی ابن موسی رضا علیہ السلام کی ولایت عھدی کی خبر مکہ، مدینہ، عراق، ایران اور شام گویا تمام مملکت اسلامی میں پھنچتی ہے تو ان تمام مقامات پر لوگوں کی زبان پر اھلبیت کے فضائل ھوتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر وہ شھر ہیں کہ جن میں صرف عام لوگ معمولی جگھوں پر نھیں بلکہ اپنے خیال کے مطابق اھل علم جمعہ کے دن، جمعہ کے خطبات میں مسجد کے اندر ھزاروں نمازیوں کی موجودگی میں آل محمد (ع) کو برا بھلا کھتے تھے اور کسی کو ان کو روکنے کی جرات نھیں ھوتی تھی۔ امام رضا علیہ السلام کی ولیعھدی قبول کرنے سے آل محمد کے ماننے والوں کے دلوں میں سکون و اطمینان ایجاد ھوتا ہے جبکہ آل محمد سے بعض بےخبر لوگ ان کی عظمت اور شان سے آشنا ھو کر ان کو اپنا امام ماننے پر مجبور ھو جاتے ہیں۔ مامون نے جن اھداف کے تحت امام علیہ السلام کو مدینہ سے بلایا تھا وہ ھمیشہ ان کی تکمیل میں لگا رھتا جبکہ امام علیہ السلام بھی اس موقع سے کماحقہ استفادہ کرنے کی کوشش میں ھمیشہ مصروف رھتے تھے۔ مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ مختلف ادیان کے لوگوں کے ساتھ مناظرے کروائے، ان مناظروں میں بھی امام علیہ السلام کامیاب رھے اور لوگوں کے دلوں میں آل محمد علیہ السلام کی محبت روز بروز زیادہ سے زیادہ ھو رھی تھی۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا داخلی طور پر گمراہ و منحرف افراد سے مقابلہ:
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے خود تشیع میں گمراہ ھونے والے افراد کے بارے میں سکوت اختیار نھیں کیا بلکہ فرقہ واقفيہ کے بارے میں کہ جو لوگ امام موسي كاظم علیہ السلام کی غیبت کے قائل تھے اور اسی بھانہ کی وجہ سے بھت زیادہ شرعی رقوم کو ھڑپ کر لیا تھا، ایسے لوگوں کو اس آیت شریفہ "وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بھت سے چھرے ذلیل اور رسوا ھوں گے"، کا مصداق شمار کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ شیعوں کو ان لوگوں کے پیچھے نماز نھیں پڑھنا چاھیئے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے زمانے کے غالیوں کو جنھوں نے ابو الخطاب کی رھنمائی میں حضرت علي علیہ السلام کو الوهيت اور ربوبيت کی حد تک پھنچا دیا تھا،کے بارے میں فرمایا: ابو الخطاب، اس کے ساتھیوں اور جو لوگ اس پر لعنت کرنے میں توقف کریں یا شک کریں، ان سب پر خدا کی لعنت ھو۔ اس فرقہ کے متعلق حضرت علیہ السلام کا سخت رویہ اس حد تک پھنچ گیا تھا کہ آپ (ع) اسحاق انباری سے ایک روایت میں فرماتے ہیں:" ابو المھری اور ابن ابي الرزقاء کو جس طرح بھی ھو سکے قتل کیا جائے"۔
آج کے دور میں امام کی سیرت پر عمل کرتے ھوئے تشیع لندنی کی سازشوں کا ناکام کرنا:
آج اس دور میں خود شیعہ کے اندر تشیع لندنی ایجاد کر کے مختلف شبھات ایجاد کئے جا رھے ہیں اور تشیع کا شاندار و تابناک چھرہ گرد آلود کرنے کی کوشش کی جا رھی ہیں کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مقام معظم رھبری آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے قوم شیعہ کو ان کے فتنہ سے ھوشیار رھنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ پوری دنیا کے اندر مجالس حسین علیہ السلام کہ جو اسلام حقیقی کا بھترین ذریعہ ہیں ان مجالس کے اندر بعض منحرف ذاکر و خطبا، شیعہ عقاید، شیعہ کردار و رفتار جو معصومین علیھم السلام سے بیان شدہ ہے اس کے خلاف جب بیان کرنا شروع کیا تو آیت اللہ محمد حسین نجفی زید عزہ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا اور آج جسے تشیع لندنی کھا گیا ہے اس فقیہ اھلبیت علیھم السلام نے سالھا سال پھلے ان کی گمراھی سے آگاہ کیا۔ ھم سب کو امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے دن امام (ع) سے عھد کرنا چاھیئے کہ اے امام جواد ھم دنیا کو آپ کی پاکیزہ سیرت سے اور مکتب اھلبیت سے آشنا کروانے کی ھر ممکن کوشش کریں گے اور داخلی و خارجی ھر سازش کو ناکام بنائیں گے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا یحیٰی بن اکثم سے مناظرہ:
امام محمد تقی علیہ السلام کا آٹھ سال کی عمر مبارک میں وہ مقام عظمت ہے کہ مامون جسے درک کر لیتا ہے اور امام کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی بیٹی امام کی زوجیت میں دینے کا ارادہ کرتا ہے کہ جس کی بنو عباس کے باقی افراد مخالفت کرتے ہیں۔ مامون ان کو قانع کرنے کے لئے امام کی عظمت اور علم کا دعوی کرتا ہے کہ جسے ثابت کرنے کے لئے مختلف مناظرات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔
ایک مناظرہ میں عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے "یحییٰ بن اکثم" کو اس کی علمی شھرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد علیہ السلام کے علم و آگھی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحیٰی نے مامون کی طرف رخ کر کے کھا، اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کھا خود ان سے اجازت لو، یحیٰی نے امام محمد تقی علیہ السلام سے اجازت لی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: یحیٰی! تم جو پوچھنا چاھو پوچھ لو۔
یحیٰی نے کھا، یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا، اے یحیٰی! تمھارا سوال بالکل مھمل ہے پھلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باھر) کیا تھا یا حرم میں؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاھل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ھو گیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پھلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پھلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نھیں بتایا جا سکتا۔
امام محمد تقی علیہ السلام نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحیٰی بن اکثم حیران و ششدر رہ گیا، اس کے چھرہ سے ناتوانی اور شکستگی کے آثار ظاھر ھوگئے تھے امام علیہ السلام کےسامنے اس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اور گنگ ھو گئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاھدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ھو جاؤں بھتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیں تاکہ ھم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمد تقی علیہ السلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے علیہ السلام نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باھر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ھو اور بڑا بھی ھو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ھو، اور اگر حرم میں شکار کیا ھو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ھو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ھرن ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ھو لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہے تو یھی کفارے دگنے ھو جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو "منیٰ " میں قربانی کرے گا، اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو "مکہ" میں اس کی قربانی کرے گا اور شکار کے کفاروں میں عالم و جاھل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں (کفارہ کے واجب ھونے کے علاوہ) گنہگار بھی ہے، لیکن بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نھیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نھیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ھوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نھیں ہے تو اس پر عذاب ھوگا۔
مامون نے کھا: احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بھتر ہے آپ بھی یحیى بن اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ (ع) سے سوال کیا ہے۔
امام علیہ السلام نے یحیی سے کھا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کھا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ھو جاؤں، اگر مجھ سے ھو سکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی علیہ السلام نے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں کیا کھتے ھو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ھوگئی، پھر ظھر کے وقت حرام ھو گئی، عصر کے وقت پھر حلال ھوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ھو گئی، عشاء کے وقت پھر حلال ھوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ھوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ھو گئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ھی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ھوتی رھی؟
امام محمد تقی علیہ السلام کے سوال کو قاضی القضاة یحیٰی بن اکثم سن کر مبھوت ھوکر کھنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نھیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ھونے کا سبب بھی نھیں معلوم ہے، اگر مناسب ھو تو آپ اس کے جواب سے ھمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی، اس پر حلال ھوگئی، ظھر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ھوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ھوگئی، مغرب کے وقت اس سے "ظھار" کیا جس کی وجہ سے پھر حرام ھو گئی، عشاء کے وقت ظھار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ھوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بنا پر پھر حرام ھو گئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ھو گئی۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے ان علمی کامیابیوں اور مناظرہ میں عظمت کا واقعہ پوری مملکت اسلامی میں پھیل گیا، علویان اور شیعیان حیدر کرار کی عظمت کے چرچے تھے جو لوگ معصومین علیھم السلام کو نھیں جانتے تھے ان تک جب آل محمد کی عظمت اور سیرت پھنچتی ہے تو وہ دل سے آل محمد کی تعلیمات کو قبول کرتے ہیں اور دشمنی و بغض اھلبیت کو ھمیشہ کے لئے دل سے نکال دیتے ہیں۔
آج کے اس دور میں تمام شیعیان حیدر کرار کو اور خصوصا طلاب، علماء دین کو مکتب آل محمد کی حقیقی تصویر دکھانے کی ضرورت ہے، جسے مرجعیت اور ولایت فقیہ کے راھنما اصولوں کو ھمیشہ مدنظر رکھ کر اس فریضہ کی ادائیگی میں جلد ھی کامیاب ھوا جا سکتا ہے۔
امت مسلمہ کی وحدت کیلئے امام محمد تقی علیہ السلام کے ماننے والوں کا کوشش کرنا:
دنیا کے اندر اس وقت نمائندہ ولی فقیہ معصومین علیھم السلام کی سیرت طیبہ سے الھام لیتے ھوئے اور امام خمینی (رہ) و مقام معظم رھبری کے راھنما اصولوں کے پیش نظر اپنی سیاسی بصیرت سے استعمار، امریکہ اور اسرائیل کی تمام کوششوں کو ناکام کرتے ھوئے امت مسلمہ کی وحدت کی طرف صرف نام کی حد تک اور صرف نظری طور پر ھی نھیں بلکہ عملی طور پر متحدہ مجلس عمل کی صورت میں آغاز کر چکے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ ھر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ولایت و قیادت ھاتھوں کو مضبوط کرے، اس لئے کہ اس سے امت مسلمہ میں اتحاد و وحدت کی راھیں مضبوط ھو سکتی ہیں۔ مسلمین کی وحدت، امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اخوت، امام خمینی (رہ) اور مقام معظم رھبری کا ایک خواب ہے کہ جس کی تعبیر کے لئے ھم سب کو ماضی کے تمام تلخ حالات کو بھلاتے ھوے ولایت و قیادت کی آواز پر لبیک کھنے کے لئے تیار رھنا چاھیئے۔
جن لوگوں کو کل تک شیعہ سے دور رکھنے کی ھر کوشش کی گئی قیادت کی بصیرت سے آج وہ اپنی بقا کا راز مکتب تشیع کو سمجھ رھے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے بغیر گلدستہ امت اسلامی میں خوشبو سے معطر نھیں ھوا جا سکتا۔
مقام معظم رھبری اس حوالے سے امام محمد تقی علیہ السلام کے ایک فرمان کی روشنی میں فرماتے ہیں: امروز هر حنجره‌ای كه به وحدت دنیای اسلام دعوت كند، حنجره‌ی الٰهی است، ناطق من اللّه است، هر حنجره‌ای و زبانی كه ملتهای مسلمان را، مذاهب اسلامی را، طوایف گوناگون اسلامی را به دشمنی با یكدیگر تحریك كند و عصبیتها را علیه یكدیگر تحریك كند، ناطق من الشیطان است. «من اصغی الی ناطق فقد عبده فان كان النّاطق عن اللّه فقد عبد اللّه و ان كان النّاطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس»۔ آنهائی كه از زبان ابلیس حرف مزنند، خودشان و مستمعین خودشان را به طرف جهنم میبرند؛ خودشان را هم دچار ھلاكت میكنند۔ كسانی كه امروز دنیای اسلام را از اتحاد و یكپارچگی دور میكنند در حالی كه احتیاج به یكپارچگی، امروز بیشتر از همیشه است، اینها به نفع شیاطین كار میكنند، به نفع ابلیس‌ها كار میكنند"۔ ۱۳۹۲/۰۳/۱۸
آج ھر وہ گلا کہ جو عالم اسلام کی وحدت کی طرف دعوت کرتا ہے وہ گلا، الٰھی گلا ہے یعنی خدا کی طرف سے بول رھا ہے۔ ھر وہ گلا اور زبان جو مسلمان اقوام کو، اسلامی مذاھب کو اور اسلام کے مختلف گروھوں کو ایک دوسرے کے خلاف دشمنی پر ابھارتا ہے اور ان کے تعصبات کو ایک دوسرے کے خلاف حرکت میں لاتا ہے تو ایسا شخص شیطان کی طرف سے بول رھا ھوتا ہے۔
یہ مطلب امام محمد تقی علیہ السلام کے اس فرمان سے لیا گیا ہے۔ "من اصغی الی ناطق فقد عبده فان كان النّاطق عن اللّه فقد عبداللّه و ان كان النّاطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس". مقام معظم رھبری فرماتے ہیں کہ آج جو لوگ عالم اسلام کو وحدت، اتحاد اور ایک پارچہ ھونے سے دور کر رھے ہیں جبکہ اس زمانے میں بیشتر از ھمیشہ ایک پارچہ ھونے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد شیاطین کے منافع کے لئے کام کر رھے ہیں، ابلیسھا کے منافع کے لئے کام کر رھے ہیں۔ اللہ تعالی امام جواد علیہ السلام کے صدقہ میں ھم سب کو اسلام ناب محمدی کی نصرت کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: محمد اشرف ملک

Add comment


Security code
Refresh