www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

020319
1988میں برطانیہ میں مقیم ایک ھندوستانی نژاد سلمان رشدی نے رسول اکرم﴿ص﴾کی توھین پر مبنی ایک کتاب تحریر کی جس میں رسول اکرم﴿ص﴾ کے توھین کے علاوہ یہ ھرزہ سرائی بھی کی گئی کہ قران مجید اللہ کی طرف سے حضرت محمد ﴿ص﴾ پر نازل نھیں ھوا بلکہ یہ خود ان کے اپنے افکاروخیالات کا مجموعہ ہے۔
سلمان رشدی کی اس کتاب کے سامنے آتے ھی تمام عالم اسلام میں شدید غم وغصے کی لھر دوڑ گئی ۔مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ اس سے دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پھنچی ہے اسلام کے خلاف پروپگینڈے کا بازار گرم کردیا۔
مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے شیطانی آیات نامی اس کتاب کے مصنف پر انعامات کی بارش کردی اور برطانیہ کی ملکہ نے تو بےشرمی کی تمام حدود کو پھلانکتے ھوئے ملعون سلمان رشدی کو" سر" کا خطاب دے دیا۔
مغربی ممالک کی طرف سے اس متنازعہ کتاب کی حمایت ایک عادی اور روزمرہ کی بات نہ تھی وہ اس حمایت کے ذریعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات بالخصوص قرآن اور پیغامبر گرامی﴿ص﴾ کے خلاف توھین کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاھتے تھے۔
امام خمینی ﴿رح﴾ نے ایک دور اندیش رھبر کی حیثیت سے مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ھوئے 14 فروری 1988 کو قران وسنت کی روشنی میں سلمان رشدی کے واجب القتل ھونے کا تاریخی فتوی صادر کیا۔اس فتوی کو تمام عالم اسلام میں زبردست پذیرائی ملی۔ امام خمینی ﴿رح﴾ کی رحلت کے بعد رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس فتوی پر تاکید کی اور اسے ناقابل واپسی قرار دیا۔
امام خمینی﴿رح﴾ کے اس تاریخی فتوی پر مغربی ممالک کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ایران میں تعینات گیارہ یورپی ملکوں نے تھران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے اور ایرانی حکومت اور عوام کو شدید ترین سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔
ایرانی قوم اور اور حکومت کی استقامت اور پامردی اس بات کا باعث بنی کہ بارہ کے بارہ یورپی ممالک کے سفیر بغیر کسی شور شرابے کے تھران واپس آگئے۔
غاصب صھیونی حکومت اور برطانیہ ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رھے ہیں لیکن اس کے باوجود سلمان رشدی اس فتوی پر عمل درآمد کے خوف سے سیکوریٹی کے انتھائی سخت انتظامات میں زندگی گزار رھا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh