www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

200421
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشھور و معروف استاد حضرت آیت ‎الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شھر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ واقعہ کی ابتدائی آیات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے بیان کیا : خداوند عالم قرآن کریم میں چاھتا ہے کہ ھم لوگ قیامت کی یاد میں رھیں اور اس امور کی بھت تاکید بھی کی ہے ، قرآن کریم نے قیامت کی یاد میں رھنے کے لئے ھم لوگوں کے لئے جو راستہ اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ھم لوگوں کو خود اپنی یاد کی تاکید کی ہے ۔
انھوں نے وضاحت کی: جب ھم لوگ مبدا و ماخذ کی یاد میں ہیں تو یقینا قیامت کو بھی یاد کریں گے اور اسی وجہ سے موت کی یاد بھی ھم میں زندہ ھو جائے گی ، صحیح امور کو انجام دینے کے لئے موت کی یاد سب سے اھم علت ہے ، کیوں کہ ھم لوگ موت کو فاسد ھونا نھیں جانتے ہیں تا کہ نابودی و ذھنی پریشانی میں مبتلی ھوں بلکہ موت کو آزادی و حصار سے نکلنا جانتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشھور و معروف مفسر نے اس بیان کے ساتھ کہ موت کی یاد شکوفائی و حرکت کی سب سے اھم علت میں سے ہے بیان کیا: نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں «اذکرو هادم الذات» یعنی گزری ھوئی خوشیوں کو یاد کرو ، یاد کرو کہ ایک روز تمھاری عمر ختم ھونے والی ہے اور قیامت کے روز اس کا جواب دینا ھوگا اور پھلی حدیث کے مطابق قیامت کے روز انسان سے جو سوال ھوگا یھی ہے کہ اپنی عمر کو کس چیز میں خرچ کی ہے ۔
انھوں نے اظھار کیا: خداوند عالم انسان کو نیک عمل کی ترغیب کی ہے ، فقہ کے ذریعہ انسان کو نیک و صالح عمل کی تشویق کرتا ہے ، بعض عمل کو واجب تو بعض کو مستحب قرار دیا ہے اور بعض اعمال کے لئے سزا اور بعض کے لئے اجر معین کیا ہے ، لیکن انسان کو نیک و صالح عمل کی طرف حوصلہ افزائی کرنے کے لئے دوسرا راستہ اعمال کے اسرار و بطون کا تعارف کرایا ہے ۔
حضرت آیت‌الله جوادی آملی نے بھشت کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے بیان کیا : خداوند عالم سورہ مبارکہ واقعہ میں فرماتا ہے کہ قیامت کے روز اھل بھشت ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کے پشت پر نھیں ہے ، یہ دنیا میں ممکن نھیں ہے ، تب آخرت میں کیسے ممکن ھوگا ؟ بعض مفسر کھتے ہیں اس آیت کا مراد لقاء الھی کے زمانہ میں ہے کہ جب سب حاضر ہیں اور کوئی بھی غیبت میں نھیں ہے اور اسی دلیل کی بنا پر متقابل ہیں ۔
انھوں نے بیان کیا : بعض مفسرین نے اس آیت کے سلسلہ میں کھا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اھل بھشت ایک دوسرے کی غیبت نھیں کرتے ہیں ، یقینا یہ بات صحیح ہے کہ بھشت میں غیبت و لغویات کا وجود نھیں ہے «لا لغو فیها و لا تأثیم» ، بھشت میں جھوٹ اور غیبت کی جگہ نھیں ہے ، لیکن یہ نتیجہ اس آیت کے نازل سے حاصل کیا گیا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے اس اشارہ کے ساتھ کہ بھشت میں کوئی بھی بوڑھا نھیں ھوگا بیان کیا: بھشت میں کوئی نھیں مرتا ہے یھاں تک کہ وھاں بوڑھاپا بھی نھیں ہے ، بھشت میں تھکاوٹ و سستی بھی نھیں ہے ۔
حضرت آیت‌ الله جوادی آملی نے اس تاکید کے ساتھ کہ عقل دو مقام پر اپنا نور کھو دیتا ہے بیان کیا : جب عقل پر ھوا و ھوس کا سایہ پڑ جاتا ہے اس وقت عقل کی نور افکنی ختم ھو جاتی ہے لیکن دوسرا زمانہ کہ جب عقل کا نور کام نھیں کرتا ہے یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ نور کو حاصل کرتا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh