www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

603360
حدیث غدیر خم اسلام کی متواتر احادیث میں سے ہے، جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نھیں، کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے۔﴿١﴾ غدیر خم کا واقعہ تاریخ اسلام کے اھم ترین واقعات میں سے ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ھوئے، غدیر خم کے مقام پر پھنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ھونے کا حکم دیا۔ جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے، واپس آئے اور جو پیچھے رہ گئےتھے، وہ بھی پھنچ گئے۔ آپ نے نماز ظھر باجماعت ادا کی اور اس کے بعد ایک منبر بنانے کا حکم فرمایا۔ منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا۔ خدا کی حمد و ثناء نیز چند اھم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر بلند کیا، تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں۔ اس کے بعد فرمایا: "من کنت مولاه فهذا علی مولاه" جس جس کا میں مولا ھوں، اس کے علی بھی مولا ہیں۔
اھل سنت نے لفظ مولا کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے، لیکن اھل تشیع کے نزدیک مولا سے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رھبری ہے، کیونکہ لفظ مولا کا ایک معنٰی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ھوگا جو بھی مجھے بطور مولا دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتٰی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے، ان سب کا "علی" بھی مولا ہے۔ بہ عبارت دیگر حضرت علی علیہ السلام بھی دوسروں پر ایسی ھی ولایت رکھتے ہیں۔
اس نظریہ کی اثبات کے لئے بھت سارے عقلی و نقلی قرائن موجود ہیں، جن میں سے چند قرائن بطور مختصر ذکر کئے جا رھے ہیں۔
1۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کے ابتدائی حصہ میں مسلمانوں پر اپنی اولویت کا ذکر کرتے ھوئے فرمایا:"النَّبىِ‏أَوْلىَ‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ"﴿۲﴾ بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولٰی ہے۔ آیت کا یہ حصہ حدیث میں موجود لفظ "مولا" کے لئے واضح قرینہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے بعد میں فرمایا : "من کنت مولاه فهذا علی مولاه" جسے اکثر راویوں نے اس مقدمہ کو حدیث غدیر کے ساتھ نقل کیا ہے۔
2۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ "من کنت مولاه ..." کو بیان کرنے سے پھلے اسلام کے تین بنیادی اصول توحید، نبوت اور معاد کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے اس سلسلے میں اقرار بھی لیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: "تمھارا مولیٰ کون ہے۔"؟ مسلمانوں نے جواب دیا: خدا اور اس کا رسول۔ اس وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: جس کا خدا اور اس کا رسول مولا ہے، یہ "علی" بھی اس کا مولا ہے۔ اس پیغام کے اصول دین کے اقرار سے مربوط ھونے سے واضح ھو جاتا ہے کہ یھاں ولایت سے مراد امت اسلامی کی رھبری اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ھونا ہے۔
3۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے "من کنت مولاه ..." کو بیان کرنے سے پھلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مسلمانوں کی رھبری کے بارے میں فکر مند تھے اور اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرنا چاھتے تھے۔
4۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں آیت کریمہ "الْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.." کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دین اسلام کے کامل ھونے اور مسلمانوں پر خدا کی نعمتوں کے تمام ھونے نیز خداوند متعال کا آپؐ کی رسالت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر راضی ھونے پر خوشی کا اظھار فرمایا۔ واضح رھے کہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب امت اسلامی کی رھبری کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں ہے۔
5۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ عقلمند، حکیم اور مھربان ہونے میں کوئی شک نھیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مومنین کے دوست ہیں یا مومنین پر واجب ہے کہ آپ سے محبت و دوستی کریں، جسے ایک عام مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے، کیونکہ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا ایمان کی ضروریات میں سے ہے۔
بنابریں اس واضح مسئلہ کو اس غیر معمولی حالات میں اور وہ بھی گرم ترین علاقے میں اس اھتمام کے ساتھ بیان کرنا حکیمانہ نھیں ہے، جبکہ ھمیں تاریخ اسلام کے واقعات کی اس طرح سے تفسیر نھیں کرنا چاھیے کہ جس سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و تدبیر پر حرف آئے، لیکن امت اسلامی کی رھبری کا مسئلہ اس قدر اھمیت کا حامل ہے کہ ایسے سخت حالات اور تمھید کے ساتھ اس نکتہ کی وضاحت کرنا عاقلانہ و حکیمانہ ہے۔﴿۳﴾ غدیر کے واقعہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاج بیت اللہ کے کاروان کو شدید گرمی کے دنوں میں دوپھر کے وقت ایک بنجر اور بے آب و گیاہ سرزمین پر ٹھہرنے کا حکم فرمایا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنی عبا کے آدھے حصے کو اپنے سروں پر اوڑھ لیا تھا اور باقی آدھے حصے کو اپنے نیچے فرش کے طور پر بچھایا تھا۔ ظاھر سی بات ہے کہ اس تمھید و اھتمام کے بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا کلام فرمانا ھوگا، جو امت کی ھدایت میں کلیدی اھمیت کے حامل اور تقدیر ساز ھو۔ حقیقت میں مسلمانوں کے جانشین کے تقرر کے علاوہ کونسی چیز کلیدی اور تقدیر ساز ھوسکتی تھی۔؟ اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الٰھی کے پھنچانے کے بعد حاضرین سے چاھا کہ اس خبر کو غائبین تک پھنچائیں۔ لھذا یہ قرائن و شواھد دلالت کرتے ہیں کہ آپ نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا تھا۔﴿۴﴾
بعض افراد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کو حکیمانہ قرار دیتے ھوئے لکھتے ہیں: حدیث غدیر میں مولا سے مراد دوستی و نصرت ہے، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے یمن کے سفر میں جنگی غنائم کے بارے میں ایسا فیصلہ فرمایا جو باقی افراد کی ناراضگی کا سبب بنا اور ان لوگوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ کی شکایت کی، لٰھذا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں اس اقدام کے ذریعے مسلمانوں تک حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ھونے کا حکم پھنچانا چاھتے تھے۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ یمن کے سفر کا مسئلہ مسلمانوں کی قلیل تعداد کے ساتھ مربوط تھا، یعنی یہ مسئلہ فقط یمن کے حاجیوں سے مربوط تھا، جبکہ اس سخت حالات میں تمام حاجیوں کو جمع کرنے کا کیا مطلب ھوسکتا ہے۔؟
علاوہ ازیں مناسب یہ تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فوراً اقدام فرماتے اور ان افراد کی غلطیوں کی نشاندھی کرتے۔ لھذا اس سلسلے میں غدیر خم تک کوئی اقدام نہ کرنے کا کیا فلسفہ ھوسکتا ہے۔؟ تاریخی شواھد کے مطابق پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کے فوراً بعد ان لوگوں کی غلطیوں کی نشاندھی فرمائی اور ان افراد سے فرمایا: "یاایها الناس لا تشکوا علیا، فوالله انه لاخشن فی ذات الله"﴿۵﴾ اے لوگو! تم علی کی شکایت نہ کرو، خدا کی قسم علی خدا کے معاملے میں زیادہ محتاط ہیں۔ اگر ھم اس کو صحیح بھی مان لیں تو یہ صرف عقلی قرینہ کو باطل کرتا ہے نہ نقلی قرینہ کو۔ ایسی صورت میں ھم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں مسلمانوں کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے اعلان کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت کو بھی لازم قرار دیا ہے، کیونکہ لفظ مولا سے دونوں معانی مراد لے سکتے ہیں نیز لفظ مولا مشترک معنوی ہے نہ مشترک لفظی۔ بنابریں لفظ مولا کا جامع ترین معنی جو کہ اولی اور زیادہ حقدار ھونا ہے، ارادہ کرسکتے ہیں۔
اگر ھم اس فرض کے قائل ھو جائیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور آپ کی مدد کرنے کا اعلان فرمایا ہے، تاکہ اگر کوئی مسلمان آپ کی نسبت دل میں کوئی کینہ رکھتا ھو تو اسے اپنی غلطی کا احساس ھو جائے اور آپ سے محبت کرنے اور آپ کی مدد کرنے کو اپنا فرض سمجھے، لیکن اس کے باوجود یہ سوال پیش آتا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور آپ کی نصرت کرنے کو کیوں اس قدر اھمیت حاصل ہے۔؟
اسی طرح مسلمانوں پر حضرت علی علیہ السلام کی محبت کیوں واجب قرار دی گئی ہے۔؟ کیا یھی دلیل نھیں کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایسے مقام پر فائز ہیں کہ مسلمانوں کو آپ کے ساتھ محبت کرنے کے علاوہ آپ کی نصرت بھی کرنی چاھیں۔ کیا یہ مقام امت اسلامی کی رھبری اور امامت کے علاوہ کوئی اور چیز ھوسکتی ہے؟ بھرحال جس زاویہ سے بھی حدیث غدیر کا مطالعہ کریں تو نتیجہ یھی نکلتا ہے کہ یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شواھد بھی اسی مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ بعض احادیث میں ہے کہ مسلمانوں نے غدیر خم میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی۔ خلیفہ دوم کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشھور ہے کہ انھوں نے غدیر خم میں "بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولیٰ کل مومن و مومنة" کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تھنیت پیش کی تھی۔﴿٦﴾
بنابریں کیا یہ سارے اھتمام حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت کرنے اور آپ کی نصرت کا پیغام دیتے ہیں یا آپ کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور امام ھونے کا پیغام دیتے ہیں۔؟ ایک اور شاھد کہ حدیث غدیر میں مولیٰ سے مراد امامت و رھبری ہے نہ دوستی اور محبت، حارث بن نعمان کا واقعہ ہے، جسے محدثین و مفسرین نے نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب غدیر خم کے واقعہ کی خبر مختلف شھروں میں پھیل گئی تو حارث بن نعمان نے بھی اس واقعہ کو سنا تو وہ سخت ناراض ھوا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کھا: آپ نے ھمیں نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کا حکم دیا، ھم نے قبول کیا لیکن آپ نے اس پر اکتفا نھیں کیا اور ایک جوان کو اپنا جانشین منتخب کر دیا۔ کیا یہ کام آپ نے خود انجام دیا ہے یا یہ خدا کا حکم تھا؟
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدائے واحد کی قسم یہ خدا کی طرف سے تھا۔ اس وقت حارث نے کھا: خداوند! جو کچھ محمد نے کھا ہے، اگر سچ ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے۔ اتنے میں ایک پتھر گرا اور وہ ھلاک ھوگیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ھوئی: {سال سائل بعذاب واقع}﴿۷﴾۔ ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ھونے ھی والا ہے۔
نتیجہ بحث:
حدیث غدیر خم اسلام کی متواتر احادیث میں سے ہے، جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نھیں، کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر پھنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ھونے کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا۔ خدا کی حمد و ثناء نیز چند اھم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر بلند کیا، تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں، اس کے بعد فرمایا: "من کنت مولاه فهذا علی مولاه" جس جس کا میں مولیٰ ھوں، اس کے علی بھی مولیٰ ہیں۔
اھل سنت نے لفظ مولیٰ کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے، لیکن اھل تشیع کے نزدیک مولٰی سے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رھبری ہے کیونکہ لفظ مولٰی کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔
اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ھوگا، جو بھی مجھے بطور مولٰی دوسروں کے امور میں تصرف کرنے حتٰی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے، ان سب کا "علی" بھی مولٰی ہے۔ علامہ امینی نے الغدیر میں 60 راویوں کا نام ذکر کیا ہے، جنھوں نے حدیث تھنیت کو نقل کیا ہے۔﴿۸﴾
حضرت عمر کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشھور ہے کہ انھوں نے غدیر خم میں "بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولیٰ کل مومن و مومنة" کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تھنیت پیش کی تھی۔
حوالہ جات:
1۔ السیرۃ الحلبیۃ، ج3، ص283۔ تذکرۃ الخواص الامۃ، ص 18۔ دائرۃ المعارف، فرید وجدی، ج3، ص543۔ تذکرۃ الخواص الامۃ
2۔ احزاب،6
3۔ المراجعات، مراجعہ 54۔ الغدیر، ج1، ص371
4۔ عقائد امامیہ، جعفر سبحانی، ص230
5۔ السیرۃ الحلبیۃ، ج3، ص283
6۔ مناقب خوارزمی، ص97۔ تاریخ بغداد، ج1، ص 290
7۔ معارج،1
۸۔ الغدیر، ج1، ص272 – 283
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی

Add comment


Security code
Refresh