www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

601931
جوں جوں ایام حج نزدیک آرھے ہیں امام خمینی﴿رہ﴾ زیادہ یاد آرھے ہیں۔ھم جانتے ہیں کہ ھر دور میں اسلامی دانشوروں اور علماء نے حقیقت حج کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے۔ عرب و عجم میں ایسے بھت سے مسلمان مفکرین و صلحاء گزرے ہیں جنھوں نے حج کی معنویت و حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے ھمیشہ مسلمانوں کو متوجہ کیا کہ حج فقط چند مناسک اور اعمال کا نام نھیں بلکہ یہ عظیم الٰھی اجتماع دین اسلام کی عظمت کو آشکار کرتا ہے۔ یہ انسانی مساوات کا عملی سبق دیتا ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کی اس اھمیت کو آشکار کرتا ہے جو اسلام نے انھیں عطا کی ہے۔
حج دین کی آفاقی تعلیمات کا ترجمان ہے۔ یہ شیطان و طاغوت کے خلاف مسلمانوں کے عزم جھاد کا نقیب ہے۔ توحید پرستی کا سمبل ہے اور اللہ کے راستے میں ھر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
البتہ اس میں کوئی شک نھیں کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی کی ایران میں عظیم کامیابی کے بعد عالمی طاغوت و استعمار کے لیے جس جھاد کا تصور سامنے آیا اس میں حج جیسے عظیم اجتماع کی اھمیت و افادیت کو نظرانداز نھیں کیا جاسکتا تھا۔
ایران میں انقلاب سے پھلے بھی بھت سے مفکرین حج کی عظمت و حقیقت کو واضح کرنے کے لیے زبان و قلم سے جدوجھد کرتے چلے آئے تھے۔ ان انقلابی مفکرین میں ڈاکٹر علی شریعتی شھید بھی شامل رہے۔ ان کی ایک ضخیم کتاب ’’حج‘‘ اس کی ترجمان ہے تاھم امام خمینی ﴿رہ﴾کو اللہ نے جو روحانی و سیاسی مقام بخشا اس کے پیش نظر آپ کے پیغام و فکر کی تاثیر بھی بے پناہ تھی۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ایک ایسے منصب پر فائز ھوئے کہ جس کے پیش نظر پیغام کی قوت ابلاغ کے ساتھ ساتھ اس کی عملی شکل بھی سامنے آنا شروع ھو گئی۔ دوسری طرف انسان دشمن عالمی نظام کے سردار اور ان کے آلۂ کار کیسے اجازت دے سکتے تھے کہ حج کی یہ ماھیت آشکار ھو اور پھراس کے اظھار کے لیے سرزمین حرمین کو استعمال کیا جائے۔ انھوں نے اسے روکنے کے لیے ایکا کر لیا اور اسے ھر قیمت پر روکنے پر کمر بستہ ھو گئے، پھر کیا ھوا اور کیسے حرم امن الٰھی حاجیوں کے خون سے رنگین ھوا تاریخ اس کے راز ضرور کچھ عرصے بعد اپنے سینے سے اگل دے گی۔
ھم البتہ ذیل میں امام خمینی﴿رہ﴾ کے چند اقوال درج کرتے ہیں جن سے ظاھر ھوتا ہے کہ وہ کس طرح کا حج برپا کرنا چاھتے تھے اور حج کے مختلف اعمال میں ان کی نظر میں کیا کیا سبق پنھاں تھا۔ ویسے تو حج کے حوالے سے ان کے پیغامات اور خطابات کو کتابی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے، ھم مضمون کی گنجائش کے مطابق چند عبارات نذر قارئین کرتے ہیں:
O حج بیت اللہ انسانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے اور گھر کے مالک سے مربوط کرنے کے لیے ہے اور حج صرف اعمال، دعاؤں اور الفاظ کا ایک سلسلہ نھیں ہے۔
O حج بیت اللہ الٰھی تعلیمات کے دل میں موجود ہے جن سے آدمی کو زندگی گزارنے کے تمام پھلوؤں پر مبنی اسلام کی پالیسی کو تلاش کرنا چاھیے۔
O حج بیت اللہ توحیدی انسان کو منظم کرتا ہے، مشق کرواتا ہے اور اسے ثابت قدم بناتا ہے۔
O حج بیت اللہ مسلمانوں کی مادی، روحانی اور مخفی صلاحیتوں کے اظھار کا مقام ہے۔
ھم اس بڑے غم کوکھاں لے جائیں کہ حج بیت اللہ کو قرآن عظیم کی طرح ھی ناشناس اور مھجور بنا دیا گیا ہے۔۔۔ دسیوں لاکھ مسلمان ھر سال حج کو جاتے ہیں اور حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت حاجرہ علیھا السلام کے نقش ھائے مبارک پر قدم رکھتے ہیں پھر بھی کوئی اپنے آپ سے یہ نھیں پوچھتا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون تھے؟ انھوں نے کس کام کی تکمیل کی تھی اوران کا مقصد کیا تھا؟ وہ ھم سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ ایسا معلوم ھوتا ہے کہ یہ وہ واحد چیز ہے جس کے متعلق مسلمان حج کے دوران میں نھیں سوچتے۔
O مسلمان محققین کو چاھیے کہ وہ فلسفہ حج کو درست طور پر پیش کریں، اس کی وضاحت کریں اور توھمات و انحرافات سے چھٹکارا حاصل کریں جو بادشاھوں سے وابستہ جعلی علماء نے پیدا کر رکھے ہیں۔
O مسلمان مکہ معظمہ جو ایسا مقام ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کے لیے مرکز قرار دیا ہے، میں جمع تو ھوتے ہیں لیکن نھیں جانتے کہ وہ کیا کررھے ہیں، وہ اس سے اسلامی فائدہ نھیں اٹھا پاتے، اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں تبدیل کردیا گیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے تمام مسائل غفلت کا شکار ھو گئے ہیں۔
O مسلمان اگر حج کی حقیقت کو سمجھ لیں اور اسلام کی طرف سے حج میں جو سیاست اختیار کی گئی ہے صرف اسی کو جان لیں تو حصول استقلال و آزادی کے لیے کافی ہے لیکن افسوس ھم نے اسلام کو کھو دیا ہے۔
O حج کے تمام پھلوؤں میں سب سے زیادہ غفلت اور لاپرواھی کا شکار ان عظیم مناسک کا سیاسی پھلو ہے۔ خیانت کاروں کی سب سے زیادہ کوشش اس امر سے غافل کرنے میں رھی ہے اور رھے گی کہ اس کا یہ پھلو کسی گوشے میں بند ھو جائے۔ آج کے دور میں جب جنگل کا قانون چل رھا ہے ماضی کی نسبت مسلمانوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پھلو کے بارے میں اظھار نظر کریں اور اس سے متعلق ابھامات دور کریں کیونکہ بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی مسلمانوں کو غافل اور پسماندہ رکھنا چاھتے ہیں۔ مفاد پرست حکمران، نادان اور غفلت زدہ افراد درباری و کج فھم ملا اور جاھل عابد سب دانستہ یا نادانستہ مل کر اس تقدیر ساز اور مظلوموں کے نجات دھندہ پھلوکو ختم کردینے کے درپے ہیں۔
O یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ اگر اس عظیم عالمی اجتماع میں جھاں اسلامی اقوام کے مظلوم اور ھر مکتب، قوم، زبان، فرقے، رنگ اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات ایک جیسے لباس میں ھر قسم کی تصنع اور بناوٹ سے پاک ھو کر اکٹھے ھوتے ہیں، اسلام، مسلمانوں اور دنیا کے تمام مظلوموں کے بنیادی مسائل حل نہ ھوں اور ظالم و جابرحکومتوں سے نجات پانے کی کوئی سبیل نہ کی جائے تو پھر چھوٹے علاقائی اور لوکل اجتماعات سے کچھ نہ بن پڑے گا اور کوئی ھمہ گیر راہ حل ھاتھ نہ آئے گا۔
O فریضہ حج حق کی آواز پر لبیک کھنے اور حق تعالیٰ کی طرف ھجرت کرنے کا نام ہے اور یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں سے ہے۔ یہ شیطان زادوں سے اظھار برائت کرنے کی جگہ ہے۔
O لبیک لبیک کہہ کر تمام بتوں کی نفی کریں اور تمام چھوٹے چھوٹے طاغوتوں کے خلاف لا کی فریاد بلند کریں۔ طواف حرم حق عشق کی علامت ہے، طواف کرتے ھوئے دلوں سے غیر اللہ کی محبت نکال دیں۔ اپنی روح کو پاک کریں، حق کے ساتھ عشق کے موقع پر چھوٹے بڑے بتوں، طاغوتوں اور ان کے ھمکاروں سے اظھار نفرت کریں۔ اللہ اور اس کے پیاروں نے ان سے اظھار بیزاری کیا ہے اور دنیا کے تمام آزاد انسان ان سے بیزار ہیں۔
O فطری آرزوؤں اور انسانی تمناؤں کو حاصل کرنے کے لیے اعمال حج میں شرط ہے کہ تمام مسلمان حج کے مراحل و مقامات پر جمع ھوں اور مسلمانوں کے گروھوں میں وحدت کلمہ ھو، زبان، رنگ، قبیلہ، گروہ ،سر حد اور قومیت کے فرق اور دور جاھلیت کے تعصبات کے بغیر متحد ھو کر اس مشترکہ دشمن پرٹوٹ پڑیں جو اسلام عزیز کا دشمن ہے اور موجودہ دور میں اس نے اس اسلام سے زخم کھائے ہیں۔
یوں معلوم ھوتا ہے جیسے امام خمینی﴿رہ﴾ یہ باتیں آج سے تیس پینتیس برس پھلے نھیں بلکہ آج ھی فرما رھے ہیں اور آج ھی کے عازمین حج ان کے مخاطب ہیں۔ ھم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ایسی باتوں کو سیاسی کہہ کر روکنا درحقیقت اپنے مقام پر ایک شیطانی سیاست ہے۔
ھم اللہ کی بارگاہ سے توقع رکھتے ہیں کہ خانۂ خدا کا حقیقی ابراھیمی و محمدی حج بالآخر ضرور برپا ھوگا اور جو عالم انسانیت کی طاغوت اور شیطان کے خلاف اجتماعی آواز بن جائے گا۔ اس کی نوید اسلامی روایات میں بھی دی گئی ہے، ھاں وھی دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ایک عالمی قائد ظاھر ھوگا جو خانۂ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر ساری انسانیت کو اللہ کی کبریائی کے جھنڈے تلے جمع ھونے کی دعوت دے گا، جس کے ھاتھوں دنیا عدل و داد سے یوں پُر ھو جائے گی جیسے وہ آج ظلم و جور سے بھری ھوئی ہے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت بھی اسی نوید کی ترجمان معلوم ھوتی ہے:
﴿﴿وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ﴾﴾
ھمارا ارادہ ہے کہ ھم ان پر احسان کریں جنھیں زمین میں کمزور کردیا گیا ہے اور انھیں پیشوا بنائیں اور انھی کو ھم وارث بنائیں۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh