www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

603950
اس بات میں کوئی شک نھیں کہ دنیا کی تمام چیزیں انسان کے لئے سرمایۂ حیات ہیں، وہ نفعے اور فائدے سے خالی نھیں اور انعامات الٰھیہ کا شمار بھی ممکن نھیں۔ لیکن ان تمام چیزوں میں اللہ نے انسان کے لئے جو بھترین سرمایہ پیدا کیا ہے، وہ ایک نیک سیرت، پاکدامن، اعلٰی اخلاق و کردار کی حامل فرمانبردار بیوی ہے، جسے اسلام نے بھترین بیوی قرار دیا ہے۔
ایسی خاتون جس کے متعلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا ہے: ’’خَيْرُ نِسَائِكُمُ‏ الْعَفِيفَةُ الْغَلِمَة‘‘﴿١﴾ بھترین عورت وہ ہے، جو اپنے شوھر کی نسبت زیادہ شھوت پرست ھو، لیکن نامحرموں کی نسبت عفیف اور پاکدامن۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے بھترین عورت وہ ہے، جو سب سے زیادہ شوھر کی اطاعت کرے اور اس سے عشق و محبت اور آمادگی کا اظھار کرے، لیکن اس کے مقابلے میں وہ عورت جو اپنے شوھر کی جنسی خواھشات کو پورا کرنے سے انکار کرے تو اسے بدترین عورت سمجھا گیا ہے۔
اسی لئے امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: ’’خَيْرُ النِّسَاءِ مَنِ‏ الَّتِي‏ إِذَا دَخَلَتْ‏ مَعَ‏ زَوْجِهَا فَخَلَعَتِ‏ الدِّرْعَ‏ خَلَعَتْ‏ مَعَهُ‏ الْحَيَاءَ وَ إِذَا لَبِسَتِ‏ الدِّرْعَ‏ لَبِسَتْ‏ مَعَهُ‏ الْحَيَاءَ‘‘﴿۲﴾ بھترین اور شائستہ ترین عورت وہ ہے، جو خلوت میں شوھر کیساتھ ملے تو لباس کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کو بھی دور پھینکے اور پوری محبت اور پیار کیساتھ اپنے شوھر کی جنسی خواھشات کو پورا کرے اور جب لباس پھن لے تو شرم و حیا کا لباس بھی زیب تن کرے اور اپنے شوھر کے سامنے جرأت اور جسارت سے باز آئے۔
ایک مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے :’’فَانَّ الْمَرْاةَ رَيْحَانَةٌ‘‘ ﴿۳﴾ عورت پھول کی مانند ہے، اسے چاھئے کہ ھمیشہ پھول کی طرح کھلتی رھے اور خاندانی گلستان میں خوشیوں کا باعث بنے، دینی اور دنیاوی کاموں میں شوھر کی معاون بنے۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: ’’ثَلَاثَةٌ لِلْمُؤْمِنِ‏ فِيهِنَ‏ رَاحَةٌ دَارٌ وَاسِعَةٌ تُوَارِي‏ عَوْرَتَهُ‏ وَ سُوءَ حَالِهِ مِنَ النَّاسِ وَ امْرَأَةٌ صَالِحَةٌ تُعِينُهُ عَلَى أَمْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْنَةٌ أَوْ أُخْتٌ يُخْرِجُهَا مِنْ مَنْزِلِهِ بِمَوْتٍ أَوْ بِتَزْوِيجٍ‘‘﴿۴﴾ یعنی تین چیزوں میں مؤمن کے لئے سکون اور راحت ہے، ان میں سے ایک وہ شائستہ عورت ہے، جو اس کے دینی اور دنیاوی امور میں مددگار ثابت ھو، کیونکہ عورت اگر چاھے تو مرد کو دینی اور دنیاوی امور میں بھترین شوق دلانے والی بن سکتی ہے، یھاں تک کہ مستحبات کی انجام دھی اور مکروھات کے ترک کرنے میں بھی۔
چنانچہ روایت میں موجود ہے: ’’فَسَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ‏ وَجَدْتَ‏ أَهْلَكَ‏ قَالَ‏ نِعْمَ‏ الْعَوْنُ‏ عَلَى‏ طَاعَةِ اللَّهِ‏ وَ سَأَلَ فَاطِمَةَ فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْلٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْمَعْ شَمْلَهُمَا وَ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمَا وَ اجْعَلْهُمَا وَ ذُرِّيَّتَهُمَا مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ‏ وَ ارْزُقْهُمَا ذُرِّيَّةً طَاهِرَةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً وَ اجْعَلْ فِي ذُرِّيَّتِهِمَا الْبَرَكَةَ وَ اجْعَلْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِكَ إِلَى طَاعَتِكَ وَ يَأْمُرُونَ بِمَا يُرْضِيكَ ثُمَّ أَمَرَ بِخُرُوجِ أَسْمَاءَ وَ قَالَ جَزَاكِ اللَّه‏‘‘﴿۵﴾ حضرت زھرا (س)کی شادی کے بعد پیغمبر (ص) نے علی (ع) سے پوچھا: یاعلی؛ فاطمہ (س) کو کیسا پایا؟ تو جواب دیا: فاطمہ (س) کو خدا کی فرمان برداری میں بھترین مددگار پایا، اسی طرح فاطمہ (س) نے بھی یھی جواب دیا کہ علی کو بھترین شوھر پایا، اس کے بعد رسول گرامی نے دعا کی، اے اللہ! ان دونوں کے امور کو ایک دوسرے کے موافق قرار دے، ان دونوں کے دلوں میں الفت پیدا کر، ان کو اور ان کی اولادوں کو جنت النعیم کا وارث قرار دے، ان دونوں کو پاک اور طیب اولاد عطا کر اور ان کی ذریت پاک میں برکت نازل کر، ان کو ایسا امام قرار دے، جو تیرے حکم کے مطابق تیری بندگی کی طرف ھدایت پالیں اور یہ لوگ تیری رضایت کے مطابق حکم کریں۔ پھر فرمایا: اے فاطمہ (س) اللہ تعالٰی تجھے جزائے خیر دے۔
ظاھر ہے کہ جب بیوی ایسی ھو تو اولاد بھی حسنینؑ اور زینب و کلثوم (س) جیسی ھوتی ہے، ھم اور آپ علی (ع) اور فاطمہ (س) جیسے تو نھیں بن سکتے، لیکن ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرکے معاشرے کو اچھی اور صالح اولاد تو دے سکتے ہیں۔
اس عظیم مقصد کے لئے ھم پر لازم ہے کہ ھم اپنی اولاد کو اصول و فروع دین کی تعلیم دیں اور مذھبی عبادات و رسوم جیسے نماز، روزہ، انفاق، تلاوت، نماز جماعت اور مذھبی مراسم، جلسے جلوس میں شرکت کرنے پر تأکید کریں۔
مطالب بالا اور روایات کو مدنظر رکھتے ھوئے یھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے وہ بیوی جو شوھر کی فرمانبردار، پاکدامن، اعلٰی اخلاق کی حامل اور دین کے امور میں اپنے شوھر کی معاون و مدد گار ثابت ھو، اسے بھترین بیوی ھونے کا مقام دیا ہے۔ البتہ اسکے علاوہ اسلام نے بھترین بیوی کی اور بھی صفات بیان کی ہیں، مگر مقالہ کی تنگی کو مدنظر رکھتے ھوئے ذکر نھیں کئے ہیں ۔
تحریر: سید حسن
حوالہ جات:
١۔ الکافی، ج۱۰، ص۵۷۲، كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق ، مصحح: دارالحديث‏، ناشر: دار الحديث‏، قم، 1429ق، چاپ اول۔
۲۔ تھذیب الاحکام، ج۷، ص۳۹۹، طوسى، محمد بن الحسن‏، محقق ، مصحح: خرسان، حسن الموسوى‏، ناشر: دار الكتب الإسلاميه‏، تھران، 1407 ق‏، چاپ چہارم۔
۳۔ الکافی، ج۱۱، ص۱۷۰، كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق ، مصحح: دارالحديث‏، ناشر: دار الحديث‏، قم، 1429ق، چاپ اول۔
۴۔ بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۲۱۸، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، 1403 ق‏، چاپ دوم۔
۵۔ بحار الانوار، ج43، ص117، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، 1403 ق‏، چاپ دوم۔

Add comment


Security code
Refresh