حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا آسمان انسانیت پر آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں، کوئی بھی ان سے بلند و برتر نھیں ہے۔ حضرت صدیقہ طاھرہ سلام اللہ علیھا کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ''انا اعطیناک الکوثر'' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نھیں۔ اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا۔ ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نھیں کھتا ''خیر'' بلکہ کھتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر''۔ جناب سیدہ زھراء سلام اللہ علیھا رھتی دنیا تک کے لئے بھترین سیرت چھوڑ گئیں، ھم اس مقالے میں سیرت زھراء مرضیہ سلام اللہ علیھا کو مورد بحث قرار دیں گے۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی سیرت کے بعض نمایاں پھلو
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا ،حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی دختر گرامی جس طرح ازدواج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں، اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔ جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ھوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ھو جاتی تھیں، نماز پڑھتیں، دعا کرتیں، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لئے دعائیں کرتی تھیں، امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت امام حسن بن علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رھتی تھیں اور جب دعا کے لئے ھاتھ اٹھاتیں تو باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نھیں کھتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان! آپ دوسروں کی طرح اپنے لئے کیوں دعائے خیر نھیں کرتیں؟ آپ نے کھا: میرے بیٹے! پڑوسیوں کا حق پھلے ہے۔
عبادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رھتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدر لمبی ھو جاتی تھی کہ آپ کے پاھائے اقدس متورم ھو جاتے تھے۔ حسن بصری (متوفی ۱۱۰) کھتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زھد و عبادت اور تقویٰ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے زیادہ نھیں تھا۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حصول علم
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے شروع ھی سے وحی الٰھی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے لئے بیان فرماتے تھے، حضرت علی علیہ السلام ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ان کو جمع فرماتیں، جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ھوگئی۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ھوگئیں، اس لئے ان کے علمی آثار بھت کم ھم تک پھنچے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے انکا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ھوا ہے، جسے صرف اھل تشیع نے ھی نقل نھیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے۔ یھی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ھوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ھوسکتی ہے۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا دوسروں کو علم سکھانا
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا احکام اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رھی اور جب بھی وہ کوئی بات کھنا چاھتی تو قرآن کی آیت کے ذریعے اپنی بات کو بیان کرتیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے نہ تھکتی تھیں، بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ، ھمت اور پیھم کوشش کرتی رھتی تھیں۔ ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کھنے لگی: میری والدہ بھت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ھوگئی ہے، انھوں نے مجھے بھیجا ہے، تاکہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے اس کے سوال کا جواب دیدیا، وہ خاتون دوسری اور تیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی، اس خاتون نے تقریباً دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ھر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا، وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ھوگئی اور کھنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نھیں دوں گی، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا، تم جس قدر بھی سوال کروگی، میں ناراض نھیں ھوں گی، کیونکہ میں نے اپنے والد ماجد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: قیامت کے روز علماء ھمارے بعد محشور ھوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطا کئے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ھوگا، جس قدر انھوں نے بندگان الٰھی کی ھدایت و ارشاد میں کوشش کی ھوگی۔
اسلام کی خاطر لڑی جانے والی جنگوں میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا کردار
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سالہ حکومت میں 27 یا 28 غزوہ1 اور 35 سے90 تک سریہ2 تاریخ میں ذکر ھوئے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ مشترکہ زندگی اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رھتیں، آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاھد، شوھر نامدار اچھی طرح سے جھاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شھیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، ان سے ھمدردی کا اظھار کرتیں اور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کیلئے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا عورتوں کے ساتھ احد کے میدان (احد، مدینہ سے چھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ بھت زیادہ زخمی ھوگئے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے جسم اقدس پر بھی بھت زیادہ زخم لگے تھے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھرہ سے خون صاف کرتی تھیں۔
حجابِ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لئے پردہ کی اھمیت پر بھت زور دیتی تھیں۔ آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقعہ و چارد میں نھاں ھو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے لئے مسجد میں تشریف نھیں لائیں، بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے، اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لئے سب سے بھتر کیا چیز ہے، یہ بات سیدہ کو معلوم ھوئی تو آپ نے جواب دیا کہ عورت کے لئے سب سے بھتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ھوا تو حضرت نے فرمایا، کیوں نہ ھو فاطمہ میرا ھی ایک ٹکڑا ہے۔
آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اسوقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں، وہ برطرف ھو جائیں گے۔ آج کے دور میں مسلم خواتین دعویدار ہیں کہ ھم پيرو حضرت زھرا سلام اللہ علیھا ہیں، اگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا كی پيروکار ھونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان كي سيرت پر عمل بھی كرنا چاھیے۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامی قوانين کی رعايت كرتے ھوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔
آج کل باحجاب خواتین کی بھی مختلف Categreis ہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں، اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے اور یھی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں، جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ھو رھی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ "مسلمان سب بھن بھائی ہیں،" یہ وہ جملہ ہے جو ھمارے معاشرے میں بھت سننے کو ملتا ہے، "حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں،" عورت کے لئے جس کو خدا نے نامحرم قرار دیا ہے، وہ اسکے لئے نامحرم ہے، خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نھیں کیا، لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ "عورت کو چاھیے کہ نامحرم سے نرم و زیبا لھجے میں بات نہ کرے۔" اميرالمؤمنين علی (ع) پیامبر گرامی (ص) سے نقل کرتے ہیں؛ ايک نابينا شخص نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل ھونے كے لئے اجازت چاھی تو اس وقت حضرت زھرا سلام اللہ علیھا پردے كے پيچھے چلی گئیں، پھر اس کو اندر آنے كي اجازت دی۔
رسول خدا (ص) نے سوال كيا یا فاطمه، يه نابينا ہے، اس كو تو كچھ نظر نھيں آتا، كيوں پرده كر رھی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے جواب میں فرمايا؛ بابا جان وه مجھے نھيں ديكھ سكتا، ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی ھوں، مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بو استشمام كر لے گا، یہ سن کر پيامبر (ص) بے اختیار شهادت ديتے ھوئے فرماتے ہیں: "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي" فاطمه ميرے جگر كا ٹكڑا ہے۔ عورت کے لئے اسلام ميں حجاب کی بھترين نوع چادر ہے، يہ چادر حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی عصمت و عفت کی يادگار ہے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے كے بارے ميں امر كرنا مرد پر واجب ہے، روایت میں ملتا ہے کہ "قیامت کے روز ھر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بھن اور ماں ہیں۔" آج کی عورت کو بھی چاھیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ھی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یے۔
شادی کے بعد شوھر کے گھر میں آپ کی سیرت
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا، وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ھاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ، لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوھر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لئے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو رسول خدا نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی، جو فضہ کے نام سے مشھور ہے۔
جناب سیّدہ سلام اللہ علیھا اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نھیں کرتی تھیں، بلکہ اس سے ایک برابر کی دوست جیسا سلوک کرتی تھیں۔ وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جھاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں۔ بیکار نہ بیٹھیں، مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔ اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باھر کے تمام کام اور اپنی قوت ُ بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے حرچ کا سامان مھیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا انجام دیتی تھیں۔
ھمیں مسلمان ھونے کی حیثیت سے ازدواج اور شادی جیسے اھم مسئلہ میں حضرت زھراء سلام اللہ علیھا جیسی ھستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا چاھئے، تاکہ بھت سارے مفاسد اور اخروی عقاب سے نجات مل سکے۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی سیرت پر چلنے والے مردوں اور عورتوں کے لئے شادی کے موقع پر حضرت زھراء کی سیرت کو بالائے طاق رکھ کر موجودہ زمانے کے خرافات کو ازدواج اور شادی کی رسم قرار دینا باعث پشیمانی ہے۔ لھذا روایت میں آیا ہے کہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی ایک ھزار سے زیادہ لوگوں نے خواستگاری کی تھی، لیکن پیغمبر اکرم اور حضرت زھراء سلام اللہ علیھا نے کسی کو قبول نھیں کیا، جبکہ دولت، شھرت اور سرمایہ کے حوالے سے حضرت علی سے مقائسہ ھی بے معنی ہے، کیونکہ حضرت علی اس زمانے کے فقیر ترین افراد کی مانند زندگی گزار رھے تھے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوھر کے انتخاب میں ایمانداری اور امانت داری معیار ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اپنے شوھر حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فداکار زوجہ تھیں۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں۔ آپ نے شادی سے پھلے کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور چار سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضٰی (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت، گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا۔ انھوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پھلے سیکھا تھا، اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا۔ وہ ایک ایسی سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں، اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں۔
فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا بحیثیت مادر
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول، صدیقہ طاھرہ کی نسل سے ھوں، اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی، تربیت اولاد ظاھر میں ایک مختصر سا جملہ ہے، لیکن اس میں بھت مھم اور وسیع معنی مخفی ہیں۔ تربیت صرف اسی کا نام نھیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراھم کر دیئے جائیں اور بس، بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کی ایک عظیم ذمہ داری کی یاد آوری قرار دیتا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عھدہ پر فائز ھونا بھی تربیت والدین کا مرھون منت ہے، فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے، فاطمہ سلام اللہ علیھا ان خواتین میں سے نھیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں، بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بھت بڑا اور حساس گردانتی تھیں۔ آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی۔ اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا، ایسا نہ ھو ھم خود کو ان کا پیرو شمار کرتے رھیں، لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ھو، ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈال دیں۔
نتیجہ
سیرت حضرت زھراء اطھر سلام اللہ علیھا کو ملاحظہ کرنے کے بعد صنف نسوان سے تعلق رکھنے والی تمام ماوں اور بھنوں سے یہ التماس ہے کہ خود کو نہ صرف زبانی کلامی حد تک سیرت زھراء سلام اللہ علیھا کا پیروکار بنائیں بلکہ عملی میدان میں بھی سیرت دخت رسول اسلام ھونے کا ثبوت دیں، تاکہ بروز محشر آپ علیھا السلام کے سامنے جانے کی اھلیت حاصل ھو جائے۔
خدا ھم سب کو سیرت زھراء مرضیہ سلام اللہ علیھا پر چلنے کی توفیق دے۔
تحریر: سید قمر عباس حسینی
منابع:
1۔ دیوان اقبال
2۔ اقبال در مدح اھلیبیت علیھم السلام
3۔ زن در نگاہ اقبال لاھوری
1۔ غزوہ اس جنگ کو کھتے ہیں، جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ھو۔
2۔ سریہ اس جنگ کو کھتے ہیں، جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت نھیں فرمائی، بلکہ کسی اور کو اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا۔
سیرت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا پر ایک نظر
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2038