جب انسان اس عالم ھست و بود میں آنکھیں کھولتا ہے تو اس کا ذھن کورے کاغذ کی طرح باکل صاف و شفاف ھوتا ہے، لیکن جیسے جیسے وہ اپنی حیات کے زینے طے کرتا ہے، اس کے احساس کی دنیا وسیع ھوتی جاتی ہے اور پھر لوگوں کے افعال و اطوار کو اپنے آپ میں بساتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے پاس پڑوس کا جیسا ماحول پاتا ہے، اس سے مانوس ھو جاتا ہے اور پھر۔۔۔ یوں ھوتا ہے کہ وہ بھی انھیں میں سے ایک ھو جاتا ہے۔
جیسا کہ رسول اسلام﴿ص﴾ کا ارشاد گرامی ہے: "کل مولود یولد علی الفطرۃ و ابواہ یھودانہ و ینصرانہ و یمجسانہ" جر بچہ فطرت (اسلام )پر پیدا جوتا ہے اور پھر اس کے والدین اس کو یجودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔(بحارالانوار جلد 57صفحہ 187)۔
آج دنیا میں سب سے زیادہ انھی لوگوں کی تعداد ہے جنھوں نے اللہ کو کسی کا شریک قرار دیا ہے، جبکہ مومنین کی تعداد بھی کبھی کم نھیں رھی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق "دور حاضر میں مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ھوتا جا رھا ہے اور اگر خدا نے چاھا تو وحدت پرستوں کی تعداد حیرت انگیز شکل اختیار کرلے گی۔"
لیکن ھر صاحب فکر و نظر کے ذھن میں ایک بار یہ سوال ضرور کھٹکتا ھوگا کہ اتنے سارے لوگ اپنے ھی ھاتھوں بنائے ھوئے بے جان پتلوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں؟! در آنحالیکہ ان سب کو اس بات کا خوب علم ہے کہ یہ تو نہ تو ھماری کچھ سنتے ہیں اور نہ ھی سمجھتے ہیں! درحقیقت، یہ اس قدر عاجز ہیں کہ زمین پر پڑی ھوئی مٹی سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ان کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ اگر ان پر مکھی یا مچھر بیٹھ جائے تو یہ اسے ھٹانے سے قاصر ھوتے ہیں اور ان کے پوجاری خود اپنے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ یہ ایسوں کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں، جو خود اپنے آپ میں غیروں کے محتاج ھوتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو جاتنے ھوئے بھی لوگ انھیں اپنا خدا تسلیم کرتے ہیں، جبکہ عقل سلیم رکھنے والوں نے ابتداء سے ھی بت پرستی کو بے بیناد قرار دیا ہے اور انھیں اپنی منطقی دلائل سے لاجواب بھی کیا ہے، لیکن جب انسان نہ ماننے پر تل جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس سے "ھاں" نھیں کھلوا سکتی۔
قرآن حکیم نے جناب ابراھیم کا بتوں کی عبادت کرنے سے نھی فرمانے کے بارے میں یوں بیان کیا ہے۔ "جب انھوں نے اپنے مربی باپ اور اپنی قوم سے کھا کہ یہ مورتیاں ہیں، جن کے گرد تم حلقہ باندھے ھوئے ھو۔ انھوں نے کھا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو بھی انھی کی عبادت کرتے ھوئے دیکھا ہے۔
ابراھیم نے کھا یقیناً تم اور تمھارے باپ دادا سب کھلی ھوئی گمراھی میں ھو اور خدا کی قسم میں تمھارے بتوں کے بارے میں تمھارے چلے جانے کے بعد کوئی تدبیر ضرور کروں گا۔ پھر (جناب) ابراھیم نے ان کے بڑے بت کے علاوہ سب کو چور چور کر دیا کہ شاید یہ لوگ پلٹ کر اس کے پاس آئیں۔۔۔ (جناب) ابراھیم نے کھا یہ ان کے بڑے نے کیا ہے۔۔۔ ان لوگوں نے کھا کہ ابراھیم تمھیں معلوم ہے کہ یہ بولنے والے نھیں ہیں!! (جناب) ابراھیم نے کھا کہ پھر تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسے خداؤں کی پوجا کیوں کرتے ھو، جو نہ کوئی فائدہ پھنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان!
جناب ابراھیم نے بڑے ھی سادہ اور منطقی طریقہ سے امت کو سمجھا دیا کہ دیکھو یہ تمھارے ھاتھوں سے تراشے ھوئے بت تمھاری حفاظت کے بغیر پل بھر بھی نھیں رہ سکتے اور یہ تو اس قدر بے بس ہیں کہ اپنی جان تک نھیں بچا سکتے۔ لھٰذا! تم سب بے کار اور غیر عقلی کام کو چھوڑ کر اس خدا کی عبادت کرو، جو تمھارا اور سارے عالمین کا رب ہے۔
الٰھی رھبروں کی انتھک کوشش یھی رھتی ہے کہ بھٹکے ھوئے راھی کو راہ کی طرف لائیں اور بالخصوص توحید و نبوت کے پیغامات کو لوگوں کے دلوں میں اس قدر راسخ کر دیں کہ ضلالت و گمراھی ان کو چھوکر بھی نہ گزرنے پائے۔
دور حاضر میں ھندوستان، چین، جاپان اور بنگلا دیش وغیرہ میں شرک کا بازار اپنے عروج پر ہے۔ درایں اثناء ان ممالک میں بھی لوگ زندگی بسر کر رھے ہیں اور اپنی حکمت عملی سے ان گم کردہ راہ عوام الناس کو حق کی جانب مبذول کرتے چلے آئے ہیں۔
انسانی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا صرف ایک ھو، ورنہ دنیا درھم برھم ھو جائے گی۔ ھمیں اس کائنات میں کوئی بدنظمی نظر نھیں آتی۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ایک ملک میں دو حاکم کا ھونا گویا ایک نیام میں دو تلوار کا ھونا ہے، جس کا نتیجہ بدنظمی و بدعنوانی کے سوا کچھ نھیں!
المختصر! عالم ھستی میں دو ھی نظریئے پائے جاتے ہیں، ایک توحید اور دوسرا شرک۔ یہ دونوں نظریات اس جھان میں ھمیشہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل رھے ہیں۔ مگر اس وسیع و عریض دنیا میں چاند، سورج، ستارے اور سیارے وغیرہ کا بے مثال نظم و ضبط کے ساتھ اپنے مقررہ وقت پر اپنی حرکات و سکنات کو انجام دینا، اس بات کی گواھی دیتا ہے کہ اس پورے عالمین کا ایک ھی مالک و حاکم ہے اور وہ وھی خدا ہے، جس نے سارے جھاں کو خلق کیا۔ لٰھذا! بے جان بتوں کی پرستش سے باز آجائیں اور خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو اپنی فطرت بنالیں۔
تحریر: عظمت علی
ندائے فطرت!
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1828