دنیا میں ھر انسان کی یہ خواھش ھوتی ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں، اس کی بات مانیں، اس کا دل سے احترام کریں اور اس کے ساتھ محبت و چاھت کا برتاؤ کریں۔ جس کے لئے انسان مختلف طریقے اپنا لیتے ہیں۔ خوب کهلاتے پلاتے ہیں، لوگوں کا کھا مانتے ہیں، ان کے سامنے فروتنی کا مظاھرہ کرتے ہیں، دوسروں کی ضروریات کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں و... ان اسباب کے ذریعے انسان کو ظاھری اور وقتی کامیابی ضرور ملتی ہے، لیکن یہ کامیابی دیرپا نھیں ھوتی، بلکہ ھمیشہ معرض خطر میں ھوتی ہے۔ جس دن یہ اسباب منقطع ھوجائیں، محبت کی بھی موت واقع ھوجاتی ہے اور انسان کی فطری محبت کی چاھت اپنی جگہ تشنہ رہ جاتی ہے۔
تاریخ بشریت میں اس کی مثالیں فروان پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایران کے سابق رضا شاہ پھلوی کی مثال لیجئے۔ ایشیا میں محمد رضا شاہ پھلوی امریکہ کا سب سے بڑا دوست تھا۔ یورپی پریس اسے ”امریکن گورنر“ کھتا تھا، وہ امریکی وفاداری میں بھت آگے چلا گیا، امریکہ نے اسے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حکم دیا اور اس نے امریکہ کی اندھی محبت میں ایران میں اپنی پوری توانائیاں خرچ کیں۔ اس کے دور میں کوئی باپردہ عورت گھر سے نکلتی تھی تو پولیس سرے عام اس کا برقع پھاڑ دیتی تھی، شاہ ایران نے تمام زنانہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ کو یونیفارم بنا دیا، شراب نوشی، رقص اور بدچلنی فیش بن گیا۔ شاہ کے دور میں ایران دنیا کا واحد ملک تھا، جس میں کالجوں میں شراب کی دکانیں تھیں، یونیورسٹیوں میں خواتین کی بے حرمتی ھوتی تھی۔ اس مکروہ کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔
شاہ کے زمانے میں دو جرنیلوں کے ھم جنس پرست بیٹوں نے آپس میں شادی کی۔ سرکاری سطح پر نہ صرف ان کی دعوت ولیمہ ھوئی بلکہ شاہ اور اس کی کابینہ نے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کی۔ شاہ نے امریکہ کی محبت میں ایران میں موجود 42 ھزار امریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی، امریکہ نے شاہ ایران کے دفتر میں ”گرین فون“ لگا رکھا تھا اور اسے امریکہ سے جو ھدایت ملتی تھیں۔ وہ ان پر فوری عمل درآمد کراتا تھا، لیکن ایران میں امام خمینی﴿رہ﴾ نے ایرانی قوم کو شعور دے کر بیدار کیا، انقلاب کامیاب ھوا تو رضا شاہ ملک سے فرار ھوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ امریکہ اب اس کی وفاداریوں کا بدلہ دے گا، لیکن جونھی شاہ ایران کا طیارہ ایران کی حدود سے نکلا، امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں۔ شاہ پھلے مصر گیا، پھر مراکش، پھر بھاماس اور پھر میکسیکو۔ وہ اس دوران امریکہ سے مسلسل مدد مانگتا رھا، لیکن وائٹ ھاﺅس نے اس کا ٹیلی فون تک نھیں سنا۔ شاہ ایران سوا سال تک مارا مارا پھرتا رھا، لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ امریکہ نے اس کے اکاﺅنٹس تک منجمد کر دیئے۔ آخر میں انور السادات کام آیا اور اس نے رضا شاہ کو پناہ دے دی۔ جولائی 1980ء میں قاھرہ میں اس کا انتقال ھوا۔ انتقال کے وقت اس کے پاس اس کی تیسری بیوی کے سوا کوئی نہ تھا۔ لوگ اس کا جنازہ تک پڑھنے نہ آئے، چنانچہ اسے اس کے بیڈ روم ھی میں دفن کردیا گیا۔ یہ صرف رضا شاہ پھلوی کی کھانی نھیں، امریکہ کا ھر دوست حکمران اسی انجام کا شکار ھوا۔
صدام حسین کی کھانی تو پوری دنیا جانتی ہے۔ انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے صدام حسین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدام حسین نے امریکہ کی ایماء پر 22 ستمبر 1980ء کو ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 20 اگست 1988ء تک 8 سال جاری رھی اور اس میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ھلاک اور 20 لاکھ سے زیادہ زخمی ھوئے۔ صدام حسین 1990ء تک امریکہ کا دوست رھا، لیکن پھر امریکہ نے تیل کے لالچ میں عراق پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں 86 ھزار عراقی شھری شھید ھوئے۔ 2003ء میں امریکہ نے ایک بار پھر عراق پر حملہ کیا۔ صدام حسین گرفتار ھوا اور امریکی ھدایات پر اسے 30 دسمبر 2006ء کو بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔
شاہِ ایران سے لے کر صدام حسین تک امریکی تاریخ دوست کشی کی ھزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو ”ڈسپوزل ڈپلومیسی“ کھتے ہیں۔ ان کا فلسفہ ہے خریدو، استعمال کرو اور پھینک دو۔ چنانچہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو کاغذ کے گلاس، پلیٹ، ٹشو اور گندی جوراب سے زیادہ اھمیت نھیں دیتے۔
چنانچہ ان کے دوست جنرل اگستو پنوشے ھوں، جنرل رضا شاہ پھلوی ھوں یا جنرل صدام حسین، یہ لوگ اس وقت انھیں دوست سمجھتے ہیں، جب تک وہ ان کے لئے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور جس دن انھیں محسوس ھوتا ہے، یہ شخص ان کی ”ذمہ داری“ بنتا جا رھا ہے، یہ اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق جیسا سلوک کرتے ہیں۔
پس ضروری ہے کہ انسان ایسے اسباب کی تلاش کرے، جن سے حاصل ھونے والی محبوبیت، عزت، کرامت اور احترام کو دوام اور استحکام حاصل ھو، یہ اسباب وحی سے متصل منابع میں ڈھونڈنا پڑیں گے۔ اللہ کی لاریب کتاب میں لازوال محبت کے دو سبب صریح طور پر بیان ھوئے ہیں، پھلا ایمان اور دوسرا عمل صالح، جو بھی انسان ان دو الٰھی قوتوں سے مالامال ھوگا، خدا اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت ڈال دیتا ہے، جو ابدی اور لازال ہے۔ جس کا سب سے بڑا نمونہ حسین ابن علی (ع) کی ذات گرامی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ کو ایمان کامل اور عمل صالح کا مجسم بنایا، تو خدا نے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت ڈالی، بقول فرمان نبی مکرم اسلام "لا تبرد ابدا" کہ اس محبت کی حرارت کی شدت اور حدت کبھی بھی ٹھنڈی نھیں ھوگی۔ آج پورے کرہ ارض کے انسانوں کے دلوں میں حسین (ع) کی محبت ہے۔
مسلم و غیر مسلم حسین ابن علی (ع) سے محبت کرتے ہیں۔ اگر کسی نے اس حقیقت کی عملی تصویر دیکھنی ھو تو دیکھو ذرا کربلا کی طرف۔ 20 ملین پر مشتمل عاشقان حسین (ع) کس طرح ضریح مقدس حضرت سیدالشھداء (ع) کے گرد طواف میں محو ہیں؟ اس عظیم اجتماع میں عراقی لوگ زائرین امام حسین (ع) کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر کس طرح سبقت لے رھیں ہیں۔؟
یہ دنیا کا واحد بڑا اجتماع ہے کہ جس میں تمام فضائل اخلاقی اور صفات محسنہ کی عملی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے، جن میں سرفھرست سخاوت، امانت، ایثار و فداکاری، خدمت خلق، تواضع و فروتنی، رحم، کرم، تکریم انسانی، خود گزشتگی، عفو، شجاعت، بلند ھمتی، بلند حوصلہ، دشمنوں سے خائف نہ ھونا وغیرہ کے بے نظیر نمونے نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
عشق حسین (ع) کے جرم میں مارنے والو؛ حسینت کو کچلنے کی کوشش کرنے والو؛ پوری دنیا میں حسین کی یاد منانے پر پابندی لگانے والے یزیدیو؛ کھاں مرے ھوئے ھو تم، آج کربلا میں چھلم فرزند زهراء کے لئے جمع ھونے والے 20 ملین زائرین سے زائد کا عظیم اجتماع دیکھو اور فیصلہ کرو، حسینت کامیاب ھوئی یا تم۔ سنو وقت کے یزیدیو، گلگت بلتستان اور کوئٹہ و تفتان کے راستے میں زائرین امام حسین (ع) کو مختلف بھانوں، مکروفریب، دهوکہ دھی، دھمکی، جھوٹ اور پروپگنڈوں کے ذریعے ستا کر جسمانی اور روحی اذیتیں پھنچا کر تم کھبی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نھیں ھوگے، بلکہ یہ نااھل ظالم حکمرانوں کی نابودی اور سرنگونی کے لئے پیش خیمہ ثابت ھوگا۔
ممکن ہے وقتی طور پر صدام اور رضا شاه کی طرح نااھل حکمران اس ناروا سلوک کے ذریعے زرخرید غلام اپنے آقا سعود آل یھود کی خشنودی حاصل کرکے کچھ سعودی ریال حاصل کرنے میں کامیاب ھوجائیں، لیکن بدون شک تمھارا انجام بھی وھی ھوگا جو صدام و رضا شاہ کا ھوا ہے۔ کان کھول کر سنو، کربلا اس کائنات کا بے نظیر انقلاب اور قیام تھا۔ تحریک کربلا حق و باطل میں حد فاصل بنی ھوئی تھی اور ہے، جو ھمیشہ انسانیت کے لئے مشعل ھدایت بن کر نور افشانی کرتی رھے گی۔
جس طرح کہ حسین بن علی (ع) اپنے مختصر مگر باایمان و شجاع انصار و اصحاب کے ساتھ بے شمار اور سنگدل یزیدی افواج کے سامنے ڈٹ گئے اور کربلا کی سرزمین کو عشق و حماسہ و حریت کے دائمی میدان میں تبدیل کر دیا۔ دنیا کے حریت پسند انسان بھی غاصبوں اور اھل ستم کے خلاف جدوجھد کرتے ھوئے اپنی تعداد اور ظاھری طاقت اور وسائل کو بنیاد نھیں بناتے، نیز جھاد و استقامت کے وقت دشمن کی تعداد اور طاقت کو بھی خاطر میں لائے بغیر، شوق و جذبہ جھاد میں محو ھوکر لڑتے ہیں، سرکٹاتے ہیں، لیکن کبھی سر نھیں جھکاتے۔ سیدالشھداء سے تعلق ھمیشہ شیعوں کے درد و غم کا مداوا بنا ہے اور بنا رھے گا، ھمارا یہ شعار ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ھوتا ہے ھر کربلا کے بعد
تحریر: محمد حسن جمالی
عشق حسین کے جرم میں مارنے والو، آدیکھ ذرا کربلا کی طرف
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1451