ایک پیاسا، ستم رسیدہ، ضعیف شخص! جس کے سب اصحاب و انصار اس کی نگاھوں کے سامنے قتل کئے گئے۔ ایک تن تنھا سردار جس کی حرمت کو پامال کیا گیا، جس کی نسبت کا پاس و لحاظ نہ رکھا گیا، جس کی لاش پر لق و دق صحرا میں گھوڑے دوڑائے گئے، جس کی مخدرات کو اسیر کیا گیا۔ جسے مارنے والا اپنی حکومت، طاقت اور برتری کے زعم میں اس قدر غرق تھا کہ اسے قتل ھونے والے کا کچھ پاس و لحاظ نہ تھا۔ دنیا نے اس ظالم کو یوں اندھا کیا کہ وہ سمجھا کہ عالم تنھائی میں پیاسا ذبح ھونے والا یہ شخص مشت خاک کے سوا اب کچھ نھیں۔ نہ صرف یہ کہ اس نے اس کھانی کو تمام سمجھا بلکہ اپنے زعم میں اس مقتول کو نشان عبرت بنانے کے لئے عرب کے باشرف ترین قبیلے کی خواتین کو اسیر کرکے شھر شھر پھرایا۔
کھاں ہے تو اے یزید!
چودہ صدیاں بیتنے کو ہیں، نہ فقط اس مظلوم کا نام زندہ ہے بلکہ اس نام پر مر مٹنے والے غولوں کی صورت میں اس سرزمین عشق کا رخ کر رھے ہیں، جسے تو نے کبھی ایک بے آب و گیاہ ویرانہ سمجھا تھا اور جس کے بارے میں تیرا تصور تھا کہ اس روئے زمین پر کھبی کوئی ذی روح نھیں آئے گا اور نہ جان پائے گا کہ اس سرزمین پر کیا حادثہ رونما ھوا۔ تیرا خیال تھا کہ شھر مدینہ سے دور اس ریگزار کے ذروں میں یہ کھانی گم ھو جائے گی۔ دنیا بھول جائے گی کہ کوئی حسین ابن علی بھی تھا، جو مظلومی کے عالم میں مارا گیا۔
اے یزید! یہ مظلوم جس کے پاکیزہ لبوں پر تو نے اپنے نجس ھاتھوں سے چھڑی پھیری، آج کروڑوں انسانوں کے دلوں کا حاکم ہے۔ ابھی تو فقط اس کا مزار ہے، اس کی قتل گاہ ہے، وہ خیام کا مقام ہے، جھاں تاریخ کے مطابق حسین نے قیام کیا، وہ نھر علقمہ ہے، جس کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ عباس باوفا اس مقام پر پانی لینے گئے۔ اس کے باوجود سینکڑوں نھیں، ھزاروں نھیں لاکھوں انسان اس مقام کی جانب سفر کرتے ہیں۔ فرض کر یھاں حسین خود موجود ھو اور آنے والوں کا استقبال کرے تو عشاق کا کیا عالم ھوگا۔
اے یزید! اے عبد دنیا کھاں گیا تیرا وہ جاہ و جلال، کھاں ہے وہ تیری گھن گرج، کھاں ہے تیرا لاو لشکر، کھاں ہیں تیرے چاھنے والے، وہ دربار شاھی کیا ھوا، کھاں گئی تیری جھوٹی تمکنت؟ آدیکھ وہ پیاسا مظلوم کیسے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی دلوں پر حکومت کر رھا ہے۔ فقط چند برس کی حکومت کے لئے تو نے اس قدر جتن کئے، اتنا ظلم کیا، مسجد نبوی اور بیت اللہ کو بھی نہ بخشا۔ ھاں مگر وہ جسے تو مارنے نکلا تھا، اس کی حکومت کا احاطہ تیرے وھم و گمان سے بھی ماورا ہے۔ نسلیں بدلتی ہیں، حسین ابن علی کی حکومت کا پھریرا نسلوں کے بعد اگلی نسلوں میں منتقل ھوتا ہے۔ ساتھ ساتھ تیری روش سے نفرت جوان ھوتی ہے۔
اے یزید! کھاں ہے تیری وہ زبان، جس نے کھا تھا کہ کاش بدر و احد میں مارے جانے والے میرے بزرگ آج زندہ ھوتے اور دیکھتے کہ میں نے بنی ھاشم سے کیسا بدلہ لیا۔ کائنات تیری عقل پر ماتم کرتی ہے۔ دنیا اور ھوس دنیا نے تجھے ذلیل و خوار کیا۔ آج حالت یہ ہے کہ جو بھی تیرا نام لینا چاھتا ہے، پھلے تیرے وجود سے نفرت کا اظھار کرتا ہے اور وہ ضعیف و ناتواں پیاسا جسے تیری فوج نے تن تنھا سمجھ کر قتل کیا، آج قلوب پر حکمرانی کر رھا ہے۔
اے یزید! تیرا وجود، تیری حکومت، تیرا شاھی جاہ و جلال، تیری روش، تیری حکمت آج انسانیت کے لئے کتنی بڑی عبرت ہے کہ کوئی بھی شخص تجھ جیسا اقدام کرنے سے قبل ھزار مرتبہ اس کے اثرات پر سوچتا ہے اور وہ مناظر اس کی نگاھوں کے سامنے آجاتے ہیں، جو تیرے 61ھ کے اقدام کے سبب صدیوں بعد دنیا کے سامنے ظاھر ھوئے اگر شاھی لوگوں کی جانوں اور ان کے نفسوں پر حکومت کا نام ہے تو اے یزید! جس تن تنھا کو تو نے ریگزار کربلا میں پیاسا ذبح کیا، وہ اس دنیا کا سب سے بڑا شاہ ہے۔ صدیاں بیت گئیں، اس شاہ کی شاھی کو زوال نھیں۔ یہ شاہ لوگوں کی جانوں، ان کے نفسوں پر حاکم ہے، لوگ اس کے دیدار کے شوق میں سانسیں اور گھڑیاں گنتے ہیں۔ اپنی عمر بھر کی متاع اس کے دیدار پر صرف کرتے ہیں اور پھر بھی یہ حسرت دلوں میں لئے پھرتے ہیں کہ کاش ایک موقع اور ملتا کہ اس شاہ خوباں کا دیدار نصیب ھوسکتا۔
اور اے یزید تو!
نہ شاھی بچا سکا، نہ دنیا اور نہ ھی عاقبت، کیسا گھاٹے کا سودا کیا تو نے اور تیرے چاھنے والوں نے اور کیسا نفع بخش ہے اس مظلوم کا اقدام، جس نے اس دنیا کے بدلے اخروی سعادتیں سمیٹیں۔
آج حدیث رسول (ص) کی روشنی میں آخرت بھی حسین ابن علی کی ہے اور دنیا میں بھی اس کی شاھی ہے۔ کاش ھر ظالم تجھ سے عبرت پکڑ سکتا اور کوئی بھی ظلم انجام دینے سے پھلے تیری عاقبت اور حکمت کا نتیجہ پڑھ سکتا، تاھم یہ دنیا واقعاً اس قدر شاطر اور دھوکہ دہ ہے کہ بڑے بڑے زیرک انسانوں کی آنکھوں پر ھوس کی پٹی باندھ دیتی ہے۔
آج بھی کچھ حکمران تیری روش پر چلتے ھوئے مظلوموں کے ساتھ وھی رویہ رکھے ھوئے ہیں، جو 61ھ میں تو نے ایک مظلوم سے روا رکھا۔ زمانہ گواہ ہے کہ ان ظالموں کا حال بھی تجھ سے مختلف نہ ھوگا۔
اے یزید! ابھی چند برس قبل سرزمین حجاز پر ایک عالم کو باغی کہہ کر اس کا سر قلم کیا گیا، اس کا جرم بھی وھی تھا، جو تو نے حسین ابن علی کے سر تھونپا، اس مظلوم کو بھی سرزمین عرب کے کسی ریگزار میں تن تنھا مار دیا گیا اور اس قبر کو مخفی رکھا گیا، تاکہ لوگ اس کے مزار پر آکر عقیدت کے پھول نہ چڑھا سکیں۔
اے یزید! آکر ان ظالموں کو اپنی طاقت و شھامت کے بارے بتا، ان کو بتا کہ تیری حکومت کا دائرہ فقط حجاز تک نھیں بلکہ پورے عالم اسلام پر پھیلا ھوا تھا۔ تیرا لاو لشکر سلطنت روم و فارس سے طاقتور تھا۔
اے یزید! اسی طرح ایک عالم کو نائجیریا میں اس کے رفقاء کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، اس کے فرزندوں کو قتل کیا گیا، اس کے ساتھیوں پر حکومتی مشینری نے مظالم ڈھائے۔ ان ظالموں کو بھی زعم ہے کہ وہ مظلوم کی آواز کو دبا سکتے ہیں۔
اے یزید! ان کو بتا تو نے اپنے دشمنوں پر عقوبت ڈھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ تو نے اھل مدینہ سے گن گن کر بدلے لئے، تو نے بیت اللہ پر سنگ باری کروائی۔ شاید کہ تیری بات سے انھیں عبرت ھو۔
اے یزید! کچھ حاکم اپنی طاقت، قوت، اسلحہ، سرمایہ کے زعم میں ایک غریب ملک پر گذشتہ ایک سال سے حملہ آور ہیں۔ اس غریب اسلامی ملک میں ھزاروں جنازے اٹھ چکے، ان حاکموں کو بتا کہ دنیا کی شاھی کتنی مدت کی ھوتی ہے اور اس کے بعد ظالم انسان کا ٹھکانہ کونسا مقام ہے۔
اے یزید! ایک گروہ وہ بھی ہے جو خاموشی سے مظلوموں پر ھونے والے ظلم و ستم کا تماشا دیکھتا ہے، ان کو بھی بتا کہ تماشا دیکھنے والے کس زمرے میں ھوتے ہیں۔ تاریخ ان کو ظالم کا حامی کھتی ہے یا مظلوم کا پشتی بان۔ شاید کہ تیری باتیں دنیا کے لئے عبرت آمیز ھوں اور آج انسانیت پر ظلم کرنے والے اور اس ظلم پر خاموش رھنے والے عبرت پکڑ سکیں۔
تحریر: سید اسد عباس
یزید سے خطاب : کھاں ہے تو اے یزید!
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1448