ایک سوال ھمیشہ سے میرے ذھن میں کھٹکتا رھتا تھا، جس سے میرا ذھن ھمیشہ اضطراب میں رھتا تھا، میری ھمیشہ سے کوشش یہ رھتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کئے بغیر نھیں رھوں گا۔ اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پھنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شھروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ھوا، شاید یہ سوال آپ کے ذھن میں بھی موجزن ھو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ھم اپنا پیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ھم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ھی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ھمارے والدین کی تربیت کے باعث ھمارے ذھنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟
میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ھر جگہ ان ھستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نھیں ھوا، شاید دینی پیشوا ھونے کی بنا پر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ھو، اس کے بعد میرے ذھن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بھترین حل یہ ہے کہ میں غیر مسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرا مطالعہ کرکے دیکھتا ھوں کہ وہ ان ھستیوں کے بارے میں کیا کھتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ھوا کرتی ہے، جس کی شھادت دشمن بھی دے۔
میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔ مسیحیوں اور دوسرے غیر مسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراھم کیا، پھر میں نے تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی۔ ان کے حوالے سے مختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیر مسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کھنا ہے: ھاں میں ایک مسیحی ھوں، وسعت نظر ھوں، تنگ نظر نھیں ھوں، میں خود تو مسیحی ھوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاھتا ھوں، جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کھنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ھستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علی علیہ السلام کو سب سے برتری حاصل ہے۔
یتیموں اور فقراء کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ھوکر آپ کی حالت ھی غیر ھوجاتی تھی۔ اے علی آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رھتا ہے اور گرد و نواح کا گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نھیں کرسکتا۔
وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ھو، وہ ھرگز فقیر نھیں ھوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شھادت نوش کرنے والا مسکراھٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے۔" پھر میں نے فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv) کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا "حضرت علی علیہ السلام کا احترام شیعوں کے نزدیک بھت زیادہ ہے اور یہ بجا بھی ہے، کیونکہ اس عظیم ھستی نے اسلام کی ترویج کے لئے بھت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاھرہ کیا، ساتھ ھی علم، فضائل، عدالت اور دوسری صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیر تھے۔
آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شھدت نوش کرگئے۔
حضرت علی علیہ السلام وہ باعظمت ھستی ہیں، جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ ھی وہ ھستی ہیں، جس کا ھر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ھوا کرتا تھا۔ آپ ھی وہ ہستی ہیں، جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ھوا کرتی تھیں۔ اس کے بعد مادام دیالافوائے مسیحی اپنے آپ سے یوں مخاطب ھوتا ہے: اے میری آنکھوں! آنسو بھا لو اور میری آہ و بکاء میں اسے شامل کر لو اور اولاد پیغمبر کی جنھیں مظلومیت کے ساتھ شھید کیا گیا۔ عزاداری کرو!
ان غیر مسلموں کی کتابوں کا میں جتنا مطالعہ کرتا گیا، ان کا غیر جانبدارانہ اظھار عقیدت حضرت علی علیہ السلام سے میری عقیدت میں مزید اضافہ کرتا گیا۔ میرے مطالعے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ پھر مجھے ایک مشھور برطانوی مستشرق جرنل سر پرسی سایکس (Journal Sir Percy Sykes) کے اظھار عقیدت اور حقیقت بیانی کو پڑھنے کا موقع ملا، "حضرت علی علیہ السلام دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بھت مشھور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نھیں ھوتے تھے اور نہ ھی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ آپ کے حریف، غدار اور داغدار چھرہ معاویہ سے آپ کا کوئی تعلق نھیں تھا۔ وہ تو اپنے ھدف کو پانے کے لئے بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بھی دریغ نھیں کرتا تھا ۔ساتھ ھی اپنے مقصد کو پانے کے لئے پست ترین چیزوں کا بھی سھارا لیتا تھا۔
امانتوں کے معاملے میں حضرت علی علیہ السلام کی بھت زیادہ باریک بینی اور آپ کی ایمانداری کے باعث لالچی عرب آپ سے نالاں تھے۔ جنھوں نے اتنی بڑی سلطنت کو غارت کر رکھا تھا۔ سچائی، پاکیزہ عمل، کامل دوستی، حقیقی عبادت و ریاضت، اخلاص، وارستگی اور بھت ساری صفات حمیدہ سے آراستہ ھونے کے باعث آپ کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ ایرانی جو ان کی ولایت کے قائل ھوگئے ہیں اور ان کو خدا کی طرف سے حقیقی امام اور مربی مانتے ہیں، حقیقت میں بھی ان کا یہ اعتقاد بھت ھی قابل تحسین اور اھمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کا مقام و رتبہ اس سے کھیں بلند و بالا ہے۔"
حقائق کے دریچے کھلتے گئے، میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ایک فرانسوی پروفیسر اسٹانسیلاس (Professor Astansylas) کا ایک منفصفانہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا، "معاویہ نے مختلف جھات سے اسلام کی مخالفت کی ہے۔ علی بن ابی طالب علیہ السلام جو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد سب سے باعظمت، سب سے دلیر، سب سے افضل اور عرب کے بھترین خطیب ہیں، معاویہ ان سے جنگ پر تلے آئے، اب مسیحی میخائیل نعیمہ(Makahial Naima) نے جو علی کی شجاعت کی تصویر کشی تھی، وہ مزید میری دلچسپی کا سبب بنی، "حضرت علی علیہ السلام کی پھلوانی صرف میدان کارزار تک محدود نہ تھی بلکہ آپ روشن فکری، پاکیزہ وجدان، فصیح بیان، انسانیت کی گھرائی اور کمال پر فائز ھونے کے علاوہ ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے، آپ کے حوصلے بلند اور فکر وسیع تھی، آپ ظالم و جابر کے مقابلے میں ستمدیدہ و مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتے تھے۔ حق کے لئے آپ صاحب حق کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے اور باطل کے خلاف آپ پھلوان ھوتے تھے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جتنا بھی ذھین اور برجستہ شخصیت کا حامل اور نکتہ سنج ھی کیوں نہ ھو، اس کے لئے بھی ممکن نھیں کہ وہ 1000 صفحات میں حضرت علی علیہ السلام کی کامل تصویر کشی کرسکے، نہ ھی آپ کی زندگی میں جو حالات رونما ھوئے ہیں، ان سب کو مناسب انداز میں کوئی بیان کرسکتا ہے۔ بنابریں علی علیہ السلام نے جن چیزوں کے بارے میں غور فکر کیا ہے، وہ بھی بیان سے بالاتر ہے، اسی طرح عرب کی اس عظیم شخصیت نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان جو راز و نیاز کی باتیں کی ہیں اور جن چیزوں کو عملی جامہ پھنچایا ہے، یہ سب ایسے امور ہیں، جنھیں نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارا گیا یا جو زبان سے ظاھر ھوا، وہ سب ان امور کے شمار سے بھت ھی کم ہے۔" مجھے نہ تھکاوٹ محسوس ھو رھی تھی اور نہ ھی بھوک پیاس کا احساس تھا، فضیلتوں کے باغوں کی سیر نے دنیا و مافیھا سے میری توجہ کو ھٹا دیا تھا۔
بعدازاں جب میری نظر "گبرےیل ڈانگیرے" (Gabriel Dangyry) کی تحریر پر پڑی تو مجھے ایسا لطف اور ایسا کیف محسوس ھو رھا تھا کہ جس کے بیان کے لئے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نھیں، "حضرت علی علیہ السلام میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آج تک کسی بھی پھلوان میں جمع نہ ھوسکی۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پھلوان ھونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جھاں آپ میدان جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ھونے والے کمانڈر ہیں تو الٰھی علوم کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ھوتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتب فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواھش نہ ھوتے ھوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذھبی پیشوا مانتے ہیں، جبکہ ھمارے نامور مذھبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں۔ علی ایک زبردست خطیب، بھترین قلمکار، بلند پایہ قاضی تھے اور مکاتب فکر کے موسسین میں آپ پھلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے۔ علی شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ھو۔"
میرے سامنے فضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ھوا سمندر نمودار ھوا، جن کی شمارش سے میں قاصر تھا۔ میں نے جلدی جلدی بعض اھم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔ "حضرت علی علیہ السلام نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ذھن رکھتے ہیں اور بھادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) "حضرت علی علیہ السلام کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی رھے گی، خطابت ھو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔
برطانوی ماھر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) "حضرت علی علیہ السلام لڑائی میں بھادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔" (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) "سادگی حضرت علی علیہ السلام کی پھچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا(ص) کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) "حضرت علی علیہ السلام ھمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رھیں گے۔" (برطانوی ماھر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984) "حضرت علی علیہ السلام کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ھی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔"
معروف برطانوی ماھر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013) "خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علی جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ھوا۔ نبی اکرم (ص) سے انھیں وھی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ھارون کو تھی۔" معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826) "خانہ خدا میں حضرت علی علیہ السلام کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نھیں۔" برطانوی ماھر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) "علی ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رھتا تھا۔" امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859) "میرے نزدیک علی کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔" بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974) اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیر مسلموں کے حضرت علی علیہ السلام سے اظھار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ھاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رھی۔
اب میں اس حقیقت تک جا پھنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاھی بھی بن جائیں، تب بھی حضرت علی علیہ السلام کی فضیلتوں کے سمندر کے کنارے تک بھی پھنچنا ممکن نھیں۔ اب بھی اگر لوگ علی کا دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں موازنہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابھت دینے کی مانند ہے۔ اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرم(ص) کے بعد سب سے افضل ھستی امام علی علیہ السلام ہیں۔
تحریر: ایس ایم شاہ
حوالہ جات:
1.www.yjc.ir
2.farsi.balaghah.net
3. Dawn News pk
فضیلت حضرت علی علیہ السلام غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1675