18 مارچ کو یورپی اور ترک سفارتکاروں نے ایک جامع معاھدے پر دستخط کئے، جس کے تحت خطے میں جاری دھشت گردی سے متاثرہ مھاجرین کے مسئلے پر اھم فیصلے کئے گئے۔ یہ مھاجرین عراق، شام اور مشرق وسطٰی کے دیگر جنگ زدہ علاقوں سے ترکی کے راستے یورپی ممالک کی طرف امڈ آئے ہیں۔ مذکورہ بالا معاھدے کی رو سے یہ طے پایا ہے کہ یورپی ممالک سے واپس ترکی لوٹائے جانے والے ھر غیر قانونی مھاجر کے بدلے ایک ترک شھری کو یورپ میں قانونی طور پر مقیم ھونے کی اجازت دی جائے گی۔ مزید برآں، ترکی اور یورپی ممالک اس بات پر بھی متفق ھوگئے ہیں کہ یورپی یونین سے ترکی کے الحاق کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع کر دی جائے۔ اسی طرح یورپی سفارتکاروں نے ترکی سے وعدہ کیا ہے کہ اس کے شھریوں کو بغیر ویزا کے شینگن سفر کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس معاھدے کے دو دن بعد داعش سے وابستہ ایک ترک شھری نے استنبول کی استقلال اسٹریٹ پر خودکش بم دھماکہ انجام دیا۔ یہ علاقہ استنبول کے بڑے تجارتی اور سیاحتی مراکز میں شمار ھوتا ہے۔ چند دن بعد برسلز میں داعش سے وابستہ دھشت گردوں نے کئی خودکش بم دھماکے کئے، جس میں دسیوں افراد ھلاک ھوگئے۔ داعش نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ھوئے اعلان کیا کہ وہ "سرزمین کفر" میں جن اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں، برسلز میں انجام پانے والے یہ خودکش دھماکے ان کے مقابلے میں سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں۔
ترکی اور ترک صدر رجب طیب اردگان یورپ کو درپیش دھشت گردی کے خطرات کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر رھے ہیں۔ احمد داود اوگلو نے برسلز میں رونما ھونے والے دھشت گردانہ اقدامات کے بعد یورپی حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ھوئے کھا: "یورپ کیلئے اپنی علاقائی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ترکی سے بڑھ کر کوئی اتحادی نھیں۔ انھیں حقائق کو دیکھنا چاھئے اور صحیح رویہ اختیار کرنا چاھئے۔" وہ حقیقت جسے داود اوگلو نے جان بوجھ کر نظرانداز کیا، دنیا بھر میں تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کے پھیلاو میں ان کے ملک ترکی کا کردار ہے۔ ترک حکومت کو مغربی حکام کو دھوکہ دینے میں خاص مھارت حاصل ہے۔ رجب طیب اردگان یورپی اور امریکی حکام کے ساتھ اجلاس میں جمھوریت کی اھمیت اور مغرب سے انقرہ کے تعاون کا دم بھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یہ کھتے نظر آتے ہیں کہ: "سیکولرازم تمام اعتقادات اور مذاھب کا محافظ ہے۔" لیکن اپنے ترک مخاطبین سے کسی اور انداز میں بات کرتے ہیں۔
رجب طیب اردگان جب استنبول کے میئر تھے خود کو "امام استنبول" کھلواتے تھے اور کھتے تھے: "میں خدا کا شکر ادا کرتا ھوں کہ اس کا بندہ اور شریعت کا پیروکار ھوں۔" ان کی یہ بات مشھور ہے کہ: "جمھوریت ایک بس کی مانند ہے۔ جب بھی آپ اپنے مطلوبہ اسٹاپ پر پھنچ جائیں تو اس سے نیچے اتر آئیں۔" گذشتہ چند سالوں کے دوران انھوں نے ھمیشہ اس بات پر تاکید کی ہے کہ ان کا مقصد ایک مذھبی نسل کی تربیت کرنا ہے۔ یہ مذھبی نسل شام اور عراق میں جاری بدامنی کی آگ میں کود رھی ہے۔ اس وقت دنیا کے 100 ممالک سے آئے 30 ھزار سے زائد جنگجو تکفیری دھشت گرد گروہ داعش سے ملحق ھوچکے ہیں اور اس گروہ کیلئے سرگرمیاں انجام دے رھے ہیں۔ ان جنگجووں کا بڑا حصہ یعنی تقریباً 90 فیصد ترکی کے ذریعے داعش سے ملحق ھوا ہے۔ انقرہ کی جانب سے ویزا دینے کی پالیسی نے بھی داعش کی بھت زیادہ مدد کی ہے۔
دوسری طرف عراق اور شام میں داعش سے ملحق ھونے والے غیر ملکی جنگجووں میں ایسے ممالک کے شھریوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے، جنھیں ترکی سفر کرنے کیلئے ویزا لینے کی ضرورت نھیں۔ مثال کے طور پر مراکش اور تیونس کے شھری ترکی جانے کیلئے ویزا لینے کے پابند نھیں، لھذا اس وقت عراق اور شام میں داعش کی صفوں میں شامل غیر ملکی دھشت گردوں میں کئی ھزار مراکشی اور تیونسی شھری ہیں، جبکہ لیبیا اور الجزائر کے شھریوں کی تعداد بھت کم ہے۔ اگر رجب طیب اردگان مراکش، تیونس، لبنان، اردن، روس، برطانیہ اور آسٹریلیا سے آنے والے 40 سال سے کم عمر کے شھریوں کیلئے ترکی کا ویزا لازمی قرار دے دیتے تو داعش سے ملحق ھونے والے غیر ملکی دھشت گردوں کی تعداد نہ ھونے کے قریب ھوتی۔
داعش سے وابستہ دھشت گرد عناصر مستقل طور پر ترکی کی سرحد سے آمدورفت میں مصروف ہیں۔ وہ نہ صرف علاج معالجے کیلئے ترکی کی سرحد پار کرتے رھتے ہیں بلکہ تفریح اور تھکاوٹ دور کرنے کیلئے بھی ترکی آتے جاتے رھتے ہیں۔
استنبول میں بعض تاجر کھلم کھلا داعش کے نام پر تجارت کرنے میں مصروف ہیں اور یہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی تجارت سے حاصل ھونے والا نفع عراق اور شام میں سرگرم داعش دھشت گرد عناصر کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خام تیل کی اسمگلنگ کرنے والے اسمگلرز داعش سے اسمگل شدہ تیل خرید کر بازار تک پھنچاتے ہیں۔ وہ اس کام کیلئے مقامی حکومتی اھلکاروں اور حکمفرما عدالت و ترقی پارٹی کے لیڈران کو رشوت دیتے ہیں۔ ترکی کی جانب سے شدت پسند اسلامی گروھوں کی حمایت اور مدد کا دائرہ انتھائی وسیع ہے۔
رجب طیب اردگان نے اپنے 13 سالہ دورہ اقتدار میں ترکی کو مغربی طرز کے جمھوری نظام سے تبدیل کرکے بحیرہ روم میں ایک دوسرا پاکستان بنا دیا ہے۔
مثال کے طور پر ترکی انٹیلی جنس ادارے کی فاش ھونے والی خفیہ دستاویزات سے معلوم ھوا ہے کہ انقرہ شام میں سرگرم القاعدہ سے وابستہ دھشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کی حمایت میں مصروف ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے ان افراد کی گرفتاری کا حکم دیا، جنھوں نے ترک سپاھیوں کی جانب سے اسلحہ سے بھرے ٹرک شام میں سرگرم شدت پسندوں کو فراھم کرنے کی خبر فاش کی تھی۔ اسی طرح ترک صدر نے ان صحافیوں کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا، جنھوں نے ایسی تصاویر شائع کیں، جن سے ثابت ھوتا تھا کہ ترکی کی سرحد سے فوجی ساز و سامان داعش سے وابستہ دھشت گردوں کو فراھم کیا جاتا ہے۔
رجب طیب اردگان نے اس اخبار پر بھی پابندی لگا دی، جس نے یہ تصاویر شائع کیں اور اس اخبار کے ایڈیٹر اور صحافیوں کو بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح بعض ایسے ٹھوس شواھد موجود ہیں، جن سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ ترکی کی سرحد پر واقع شھر کوبانی پر قبضے کے دوران داعش کے مقابلے میں کرد فورسز کی شکست کی ایک بڑی وجہ ترک حکومت کی جانب سے داعش کی مدد تھی۔
رجب طیب اردگان نے کوبانی پر کرد فورسز کے حملے کے دوران بڑی تعداد میں داعش سے وابستہ دھشت گردوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دی، تاکہ وہ اس شھر پر کرد فورسز کا حملہ ناکام بنا سکیں۔ کوبانی کی آبادی کرد باشندوں پر مشتمل ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے شام اور عراق کے مھاجرین کے مسئلے کو شروع سے ھی ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھنے کی بجائے اپنی کمان میں موجود ایک تیر کے طور پر دیکھا ہے۔ انھوں نے اھلسنت مھاجرین کو اس شرط پر ترکی کی شھریت عطا کرنے کی پیشکش کی کہ وہ ایسے علاقوں میں مقیم ھوں، جھاں علوی باشندوں کی اکثریت ہے۔ اگرچہ دنیا والے ایزیدیوں کی نسل کشی پر داعش کو برا بھلا کہہ رھے ہیں، لیکن ان میں سے وہ افراد جنھوں نے ترکی میں سیاسی پناہ حاصل کی، دوبارہ ظلم کا شکار ھوگئے۔ اس بار ان پر حکمفرما عدالت و ترقی پارٹی سے وابستہ علاقائی میئرز نے ظلم کیا اور انھیں کسی قسم کی سھولیات دینے سے انکار کر دیا۔
یورپی حکام کی جانب سے ترک صدر رجب طیب اردگان کو یہ اختیار دیا جانا کہ وہ یورپ میں سیاسی پناہ کے طلبکار مھاجرین میں سے مطلوبہ افراد کا چناو کریں اور نیز ترک شھریوں کیلئے یورپ سفر کرنے کیلئے ویزا کی پابندی ختم کرنے کا اعلان اس بات کا باعث بنے گا کہ رجب طیب اردگان اپنے غلط رویے کو جاری رکھیں اور انھیں مغربی دنیا پر دباو ڈالنے کیلئے مزید ھتھکنڈے فراھم ھو جائیں گے۔
ترکی کا کوئی ھمسایہ ملک رجب طیب اردگان کی موجودہ پالیسیوں کو پسند نھیں کرتا۔ حال ھی میں اردن کے فرمانروا ملک عبداللہ دوم نے کانگریس کو بتایا: "حقیقت یہ ہے کہ دھشت گرد عناصر کو یورپ بھیجنا انقرہ کی پالیسیوں کا حصہ ہے اور ترکی اپنے لئے یہ ھتھکنڈہ محفوظ رکھے گا۔ یہ ھتھکنڈہ یورپی حکام کے ھاتھ سے نکل چکا ہے۔ شدت پسندی ترکی کی پیداوار ہے۔" واشنگٹن میں عبداللہ دوم کا پیغام برسلز، پیرس اور برلن میں سنا نھیں گیا۔
رجب طیب اردگان دھشت گردی کا ایک بڑا کارخانہ بنا رھے ہیں اور اس پیداوار کی فروخت کیلئے یورپی ممالک کا واحد شریک تصور کئے جاتے ہیں۔ اس امر کے انتھائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔
تحریر: مائیکل روبن (Michael Rubin)