www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

701800
جب رسول خدا (ص) حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت کے موقع پر علی (ع) و فاطمہ (س) کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیھا نے کیا دیکھا کہ رسول خدا (ص) بلند آواز سے گریہ کر رھے ہیں۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے آپ سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا "بیٹی، میری اور تمھاری وفات کے بعد اس پر بھت زیادہ مصیبتیں آئیں گی۔"
کتب تاریخی میں شریکۃ الحسین کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشھور القاب درج ذیل ہیں، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ھاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، کاملہ، عاقلہ، عابدہ، زاھدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔
عالمہ غیر معلمہ کا بچپن معصومین کی زیرنگرانی رھا۔ آپ کی خوش قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی ماں سیدہ نساءالعالمین حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں، وہ فاطمہ جو دختر رسول ہے، جس کی رضا میں خدا راضی اور جسکے غضب سے خدا غضبناک ھوتا ہے۔ وہ فاطمہ جو بضعۃ الرسول ہے، جو خاتون جنت ہے، وہ فاطمہ کہ جس کی عبادت پر پروردگار مباھات فرماتا ہے، وہ فاطمہ جس کی چکی جبرئیل علیہ السلام چلاتے ہیں۔
اگر باپ کو دیکھیں تو حیدر کرار جیسا باپ ہے، آپ نے امام علی علیہ السلام جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پائی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کے لئے "اسوہ حسنہ" ہیں، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں۔ لھذٰا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا (ص)، امام علی علیہ السلام اور فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جیسی بےمثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کس قدر بھترین اور مقدس ماحول میں ھوئی۔
آپ کی شادی 17 ھجری میں آپ کے چچازاد بھائی عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ھوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند اور بنی ھاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے، جن کے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔ (البتہ آپکی اولاد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے) کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بےمثال واقعہ ہے۔ لھذٰا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے ایک مقدس اور اعلٰی ھدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب سلام اللہ علیھا اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نھیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام قربانیان ضائع ھو جاتیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کھا ہے، "کربلا در کربلا می ماند گر زینب نبود۔" لٰھذا اگر ھم آج شھدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب عقیلہ بنی ھاشم سلام اللہ علیھا کی مجاھدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پھنچانے کا نتیجہ ہے۔
بلاشبہ اسی وجہ سے انھیں "شریکۃ الحسین" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کی راہ میں جھاد کیا تو شریکۃ الحسین سلام اللہ علیھا نے اپنے کلام اور اپنے خطبات کے ذریعے اس جھاد کو اس کی اصلی منزل تک پھنچایا۔
کربلا میں سیدالشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو شھید کرنے کے بعد دشمن یہ سمجھ رھا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ھوئی ہے اور اس کے مخالفین کا ھمیشہ کے لئے خاتمہ ھوگیا ہے، لیکن نائبۃ الحسین سلام اللہ علیھا کے پھلے ھی خطبے کے بعد اس کا یہ وھم دور ھوگیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اس کی ھمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے، یزید کا نام ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ختم ھوگیا اور حسین آج بھی زندہ ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ھوتا ہے ھر کربلا کے بعد
تحریر: محمد جان حیدری
منابع:
آفتاب در مصاف۔ رھبر معظم انقلاب
زینب کبریٰ ولادت سے شھادت تک۔ آیت اللہ کاظم قزوینی

Add comment


Security code
Refresh