مسئلہ فلسطین پر انقلاب اسلامی کا اثر
خاص کر کے مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ھو گیا تھا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجھات کا مرکز بن گیا۔ اور خود فلسطینی لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور فلسطین کو غاصب صھیونیست سے آزادی دلانے کا ایک بھترین راستہ مل گیا اگر چہ ان کے درمیان امام خمینی (رہ)جیسے عظیم الشان رھبر کے نہ ھونے کی وجہ سے انھیں صحیح راھنمائی حاصل نھیں ھو سکی اور وہ آزادی حاصل نھیں کر پائے۔لیکن ابھی تک ان کے اندر جو اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ صرف انقلاب اسلامی کی دین ہے جیسا کہ ایک اسکالر کا کھنا ہے:
'' ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے فلسطینی انقلاب اور عوام پر بھت گھرا اثر ڈالا'' ۔( شیخ عبد اللہ شامی، تحولات انقلابی در ایران، جمیلہ کدیور، پایان نامہ کارشناسی ارشد، ص١٤٢)
اور'' فلسطینی عوام نے یہ احساس کر لیا کہ اسرائیل کو شکست دینا ممکن ہے''۔( فتحی شقاقی، مذکورہ حوالہ)
اسلامی ثقافت کی تجدید حیات
تحریک امام خمینی (رہ) اور اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشروں پر ایک اثر یہ بھی چھوڑا کہ اسلامی معاشروں میں شعائر اسلامی کی عظمت دوبارہ زندہ ھوئی، مسلمانوں کے اندر اپنے مقدسات کی حفاظت کا جذبہ بیدار ھوا اور ان کے تحفظ کی ھمت اور غیرت ان کے اندر پیدا ھوئی ، جوان نسل میں خاص کر اسلامی تفکر نے جگہ حاصل کی، ان کے نزدیک مذھب کا پاس و لحاظ رکھنے کا جذبہ اجاگر ھوا۔جوانوں نے جگہ جگہ اسلامی کانفرانسیں اور سمینار منعقد کروانے شروع کئے، مذھبی پروگراموں میں جوانوں کی شرکت میں اضافہ ھوا اور دینی امور میں نسل جوان پیش قدم نظر آنے لگی۔ اوراسلامی ممالک میں مخصوصا اسلامی ثقافت نے دوبارہ زندگی حاصل کی وہ اسلامی ثقافت جو ایک عرصہ سے استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کے کلچر کا نذرانہ بن چکی تھی، مسلمان اپنے تمدن کو چھوڑ کر انگریزی تمدن کو اپنانا اور ان کے جیسی زندگی بسر کرنا اپنا افتخار سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد وھی مسلمان اسلامی تمدن و ثقافت کو اپنانے میں نہ صرف کسی قسم کی شرم و عار محسوس نھیں کرتے بلکہ اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دیتے ہیں ۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی جوانوں کے لیے امام خمینی (رہ)کے مسیحا ھونے اور ان کے اندر اسلامی اور مذھبی روح پھونکنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
'' اس انقلاب کے بانی امام بزرگوار نے مسلمانوں کو نشاط بخشا، اسلام کو زندہ کیا اور آج اسلام، نسل جوان اور روشن فکروں کی آرزو اور امید ہے'' (سخنرانی معظم لہ دومین سالگرد رحلت امام(رہ) ١٤،٣،٧٠ش)
دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی
آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پھنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رھا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ھمکنار کر دے۔ لھذا ایسے میں سوائے اسلامی و الھی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نھیں نکال سکتی۔" اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور"( بقرہ،٢٥٧)
امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لھذا انھوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بھت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ھو گئی ھو، جس کا اعتبار ختم ھو گیا ھو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کھنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ھو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ھیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ھو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وھم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نھیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔
ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نھیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ھو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذھان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ھونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذھنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نھیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ھوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انھیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ھمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نھیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نھیں ھوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمھوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رھی ہے۔
تحریک امام(رہ) کا دیگر ممالک میں پھیلنا
آج جو اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم الشان لھر پھیلی ہے اس کی پیشنگوئی خود امام خمینی (رہ) کر چکے تھے جیسا کہ انھوں نے اپنی متعدد تقریروں میں فرمایا:'' آج آپ کی تحریک اور آپ کے انقلاب کی موج پوری دنیا میں جا چکی ہے ( صحیفہ نور، ج ١٧، ص٦٣)۔'' آ پ کا انقلاب الحمد للہ دنیا میں پھیل چکا ہے نہ کہ پھیلے گا''۔ ( وھی حوالہ، ج١٨،ص١٦٩)۔'' اسلام نے الحمد اللہ پوری دنیا میں جلوہ نمائی کی ہے ''۔(وھی، ج ١٨ص١٤٠)۔ ''آپ لوگ جان لیں کہ مرکز ایران سے اسلام کا سایہ پوری دنیا میں پھیلا ہے '' (وھی، ج ١٩ص١٩٥)۔'' ھمارا انقلاب پھیل چکا ہے اور ھر جگہ اسلام کا نام ہے اور مستضعین نے اسلام سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں''۔ ( وھی، ج ١٥،ص٢٠٠)
''پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے چاھنے والے ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ۔۔میں اپنی شجاع قوم کی خدمت میں عرض کروں کہ خداوند عالم نے آپ کی معنویت کے آثار و برکات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے''۔( وھی حوالہ، ج٢٠،ص٣٣)
امام خمینی رضوان اللہ علیہ سالھا قبل یہ واضح طور پر فرما چکے تھے کہ ھمارا انقلاب ایرانی حدود سے نکل چکا ہے ھمیں اس کے اکسپورٹ کرنے کی ضرورت نھیں ہے اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کی عقلوں پر یہ بات گراں گزری تھی اور انھیں ھضم نھیں ھوئی تھی۔ لیکن آج ان کی باتوں کی صداقت ھر آنکھ مشاھدہ کررھی ہے کہ کس قدر دوسری قوموں نے انقلاب اسلامی کی پیروی میں اور اس سے اثر قبول کرتے ھوئے انقلابات برپا کرنے کی کوششیں کیں اور کر رھے ہیں انشا اللہ ان کی یہ کوششیں مثمر ثمر واقع ھوں۔
خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ضمیر بیدار ھوں اور وہ دین الھی کی اھمیت کو سمجھیں اور اسے بلادستی اور سربلندی عطا کرنے کی کوشش کریں۔
- << Prev
- Next