وحدت مسلمين قرآن کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا واجب اور اس کو ترک کرنا حرام ہے۔ مذھب تشیع اور مذھب تسنن کا ایک ھوجانا محال ہے جبکہ شیعہ اور سنی کا ایک ھوجانا واجب ہے۔
یعنی دو مذاھب و مکاتب باقی رہیں گے اور ان کے درمیان علمی بحث جاری رھے گی لیکن بحث کو جھگڑے میں تبدیل کرنا حرام ہے۔
وحدت کے معنی ایک مذھب کا تحلیل یا نابود ھوجانا نھیں ہے؛ اور اس کے یہ معنی نھیں ہیں کہ سارے اسلامی مکاتب و مذاھب ایک مکتب و مذھب میں تبدیل ھوجائیں بلکہ وحدت یہ ہے کہ علمی بحث اور افکار و آراء کا تبادل جاری رھے اور شیعہ و اھل سنت مشترکہ مفادات اور مشترکہ دینی اصولوں اور عقائد کی بنیاد پر متحد ھوجائیں۔
شیعہ اگر مسلمانوں کو وحدت کی دعوت دیتے ہیں اس کی بنیاد تقیہ نھیں ہے بلکہ اس کی بنیاد یہ ہے کہ سچائی کے ساتھ کھتے ہیں کہ "ھمارا مفاد اس میں ہے کہ اھل سنت کے ساتھ متحد ھوجاؤں" اور سنیوں سے کھتا ہے کہ دشمنان اسلام سنیوں کے دشمن بھی ہیں اور اتحاد سنیوں کے مفاد میں بھی ہے اور کھیں ایسا نہ ہو کہ بعض سنی کفر و استکبار کی حمایت سے خوشنود ھوجائے اور سوچ لے کہ اگر کسی دن سنی انتھاپسند ـ بالفرض ـ کفر و استکبار کی مدد سے اھل تشیع کو شکست دیں تو سنی مذھب کے پیروکار ان کی جارحیت اور تعرض و تجاوز سے محفوظ رھیں گے اور مستکبرین عالم اسلام کا اقتدار ان کے سونپ دیں گے۔ اور جان لیں کہ سنی انتھاپسندی کے لئے استکبار کی حمایت کے دو اھم مقاصد ہیں:
۱۔ شیعہ کو شکست دینا؛ کیونکہ وہ شیعہ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں جس طرح کہ وہ سنی کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں بس ان کو الگ الگ کرکے مارنا چاھتے ہیں۔
۲۔اسلامی ممالک کو ایک بار آئندہ کئی صدیوں تک نوآبادیات میں بدلنا۔
لھذا اس سلسلے میں جو بھی استکبار و استعمار کے ساتھ تعاون اور ھمراھی کرے گا اور اسلام کے محاذ کو کمزور کرے گا وہ اسلامی ممالک پر استعمار کے تسلط کے جرم میں شریک ھوگا اور یقیناً وہ جب پچھتائیں گے تو چڑیاں کھیت چر گئی ھونگی۔
شیعہ چاھتا ہے کہ سب جان لیں کہ اگر استکبار اور صھیونیت اھل تشیع کے خلاف جنگ کے بھانے ان کے گھروں میں قدم جمائیں یا انھیں ھتھیار اور مالی امداد دے دے کر قرضوں تلے دبا دیں تو پھر انھيں ھرگز اپنے حال پر نھيں چھوڑیں گے۔ ھوسکتا ہے کہ شیعہ پھر بھی ھمیشہ کی طرح تمام سازشوں اور دشمنیوں سے عھدہ برآ ھوکر پھر بھی زندہ اور پایدار رھیں۔ لیکن استکبار و استعمار کے دوستوں کا گھر پھر ان کا گھر نہ بن سکے گا۔ کیونکہ صرف اتحاد کی صورت میں شیعہ کا گھر شیعہ کے پاس رھے گا اور سنی کا سنی کے پاس اور اتحاد ھی کی صورت میں شیعہ کا گھر اور سنی کا گھر کفر و استکبار کے زیر قبضہ نھیں آئے گا؛ بصورت دیگر مسلمانوں کی آئندہ نسلیں ایک بار پھر اور اس بار کئی صدیوں تک جبر و ستم کی قوتوں کے زیرتسلط ھونگیں۔
شیعہ جانتا ہے اور سنی بھی جان لے کہ جن قوتوں نے اسلام فوبیا کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور دنیا والوں کو قرآن اور اسلام سے خوفزدہ کرنے کے لئے کوئی بھی لمحہ ھاتھ سے نھیں جانے دیتے اور اسلام و قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی توھین کرتے ہیں کسی صورت میں بھی اسی دین اور اسی کتاب اور اسی رسول (ص) کے پیروکاروں کا دوست نھیں ھوسکتا مگر یہ کہ بعض مسلمان دعوی کریں کہ ان کا خدا اور رسول اور ان کی کتاب مسلمانوں سے الگ ہے۔
اگر تفرقہ اچھا ہے ان لوگوں کے لئے جو سنی ھونے کا دعوی کررھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گویا انھیں اھل تشیع کے خلاف لڑنا چاھئے وہ ھمارے اس سوال کا جواب دیں کہ عالمی کفر ان تفرقہ انگیز اقدامات کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا عالمی کفر کی حمایت کا یھی مطلب نھيں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا فتنہ باطل ہے اور غلط ہے؟
اگر ایک شیعہ کا گلا کاٹنا اسلام کے مفاد میں ہے اور کفر کے لئے نقصان دہ ہے تو پھر استکباری طاقتیں قاتل و خونخوار گروپوں کو مالی امداد کیوں دیتی ہیں اور عالمی استکبار کے مفادات کے محافظ عالمی اداروں کی طرف سے ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام کیوں نھیں ھوتا۔
اگر شیعہ کا گلا کاٹنا اسلام کے دعویداروں کے منظور نظر کسی مذھب کے مفاد میں ہے تو قرآن و سنت میں اس کا منبع کیا ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت سے ایسی کوئی بات ثابت ھوتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے ترویج اسلام کے لئے کتنے لوگوں کے گلے کاٹے؟ وہ مسلمانوں کے گلے کاٹتے ھوئے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا انھيں قرآن نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے یا پھر پیغمبر اکرم (ص) نے انھیں حکم دیا ہے کہ وہ اھل قبلہ کے گلے کاٹیں تا کہ ان کا مکتب نشو ونما پائے۔
کفر و استکبار کے علمبردار اسلام فوبیا کے حوالے سے اپنی تشھیری مھم کے ضمن میں زور دے کر کھتے ہیں کہ اسلام کشت و خون اور قتل و غارت کے بدولت اور شمشیر کی طاقت سے فروغ پاچکا ہے اور اسلام کے دعویدار دھشت گرد بھی اپنے منظور نظر مکتب کی ترویج کے لئے سنگدلی اور خونریزی اور درندگی کا سھارا لیتے ہیں۔ کیا ان کا یہ عمل کفار کی تشھیری مھم کے لئے دستاویز فراھم نہیں کرتا؟ کیا یہ کفار کی تشھیری مہم کی تأئید نھیں ہے؟ کیا اتنی قساوت قلبی، خونریزی اور درندگی کے ھوتے ھوئے مذاکرات اور گفت و شنید کی میز پر ممکن ھوگا کہ مسلمان مبلغین مغربیوں کے سامنے کھہ سکیں کہ اسلام ـ تلوار اور طاقت کے استعمال سے نھیں بلکہ ایک عقلی فلسفے اور انسان ساز مکتب کی بنا پر فروغ پاچکا ہے؟
ھم سب جانتے ہیں کہ یہ خونخواری اور درندگی ایسے وقت شروع ھوئی ہے جب اسلام مغرب میں فروغ پانے لگا تھا اور دھشت گردوں نے مغربی اپنے جرائم کے ویڈیوز اور تصویریں بنا کر رو بہ زوال مغربی تھذیب کو سھارا دیا اور اسلام کے فروغ کے سامنے عظیم رکاوٹیں کھڑی کردیں اور فروغ اسلام کی رفتار سست ھوگئی۔ اب مغربی اور صھیونی ذرائع ابلاغ یہ ویڈیو اور تصاویر اپنے مغربی معاشروں کے سامنے رکھ کر ان سے کھتے ہیں کہ "اسلام یہ ہے"!۔ کیا واقعی اسلام یھی ہے؟ البتہ اس میں کوئی شک نھيں ہے کہ مغرب خود ھی مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ھاتھوں مسلم کشی کی ترویج کا ذمہ دار ہے اور اس سے وہ کئی محاذوں پر استفادہ کررھا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ ان دھشت گردوں نے ابھی تک کسی بھی امریکی یا اسرائیلی کو قتل نھیں کیا اور انھوں نے کبھی بھی اسلام دشمنوں کے خلاف کوئی اقدام نہيں کیا! اور یہ بات نظرانداز کرنا بھی دور از انصاف ھوگی کہ یہ لوگ صرف اھل تشیع کے گلے کاٹتے ہیں بلکہ وہ تو ان سنیوں کو بھی بڑے سکون و اطمینان سے ذبح کرتے یا گولی مارتے ہیں جو ان کے بعض خیالات سے اتفاق نھیں کرتے یا دھشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے یہ اقدامات ان کے اپنے عقیدے کے فروغ کا سبب بھی نھيں بن سکے ہیں بلکہ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں لیکن گلہ یہ ہے کہ علماء اور سیاستدان اور حکمران ان کے خلاف نہ فیصلہ کن اقدام کرتے ہیں اور نہ ھی ان کی مذمت کرتے ہيں اور نہ ھی ان کے خلاف اتحاد کی کوئی صورت نکالتے ہیں بلکہ کئی بڑے بڑے علماء جو صاحب فتوی ہیں دبک کر بیٹھ گئے ہیں اور پہھاڑوں اور غاروں میں بیٹھے دھشت گرد ان کے بجائے فتوے دے رھے ہیں۔
موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ھوئے، انتھا پسندوں اور دھشت گردوں کی دھشتگردی اور قتل و غارت سے اسلام کو کوئی فائدہ نھيں پھنچتا بلکہ اسلام اور قرآن کے لئے بھت زیادہ نقصان دہ ہے؛ وہ حتی اپنے نظریات کی ترویج میں بھی ناکام رھے ہیں اور کسی کو اپنے ساتھ نھیں ملا سکے ہیں سوائے جرائم پیشہ گروھوں، مفرور قاتلوں اور مجرموں، سزا یافتہ درندوں، بےروزگار اور ان پڑھ نوجوانوں اور مخصوص مدارس میں دھشت و شدت و قتل کا سبق سیکھنے والے نام نہاد طالبان کے۔ وہ دوسروں کے عقائد کو بھی اپنے حق میں نھیں بدل سکے ہیں؛ جس کہ مطلب یہ ہے کہ یہ شدت پسندی اور درندگی حتی ان کے اپنے خاص نظریئے والے اسلام کے لئے بھی مفید واقع نھیں ھوسکی ہے۔ اور ھمارا سوال یہ ہے کہ اگر یہ روش اسلام، قرآن اور امت کے لئے مفید نھيں ہے تو کس کے لئے مفید ھوسکتی ہے؟ سوائے اس کے، کہ اس تکفیری روش نے دھشت گردی کا شکار ممالک کے امن و امن اور معیشت اور سماجی حیات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری جانب سے یہ اقدامات اسلام ہھراسی(Islam Phobia) کے سلسلے میں مغربی تشھیری مھم کو ایندھن فراھم کررھے ہیں اور کفر و عالمی استکبار کے لئے تشھیری اوزار کا کام دے رھے ہیں۔