امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟
لھذا انھوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
اس بات میں کوئی شک نھیں کہ تخلیق کائنات کا مقصد یہ ہے کہ پوری کائنات میں صرف خالق کائنات کا نام و نمود ھو صرف اس کا تذکرہ ھو ، زمین پر آسمان کی طرح صرف اللہ کا سجدہ ھو غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے، صرف کلمة اللہ کا علَم بلند ھو کسی دوسرے نام کا علَم اللہ کی خلق کردہ فضا میں لھراتا ھوا نظر نہ آئے، اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں صرف قانون الھی نافذ ھو کوئی دوسرا قانون اس کے جایگزین ھونے کی کوشش نہ کرے اور روئے زمین پر صرف ایک ھی حکومت ھو اور وہ صرف اللہ کی حکومت ھو جس میں ذرہ برابر ظلم و ستم نام کی کوئی چیز نہ ھو جس میں نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ ھی ناحق کسی کو مارا جائے، جس میں انسان تو انسان جانور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے ساتھ جیئیں، جس میں عدل و انصاف کی یہ حد ھو کہ فقیر و مسکین اور مظلوم و بے کس تلاش کرنے سے بھی نہ ملیں۔ ایسے نظام حکومت کے قیام کے لیے اللہ نے ارسال رسل اور نزول کتب کا سلسلہ قائم کیا ۔ اور آخری نبی حضرت محمد مصفطی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا مقصد، خاص طور پر یھی بیان کیا :''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون (توبہ،٣٣)کہ اس نے اپنے رسول کو ھدایت اور دین حق کے ساتھ اسی لیے بھیجا کہ وہ اسے دیگر تمام باطل ادیان پر غالب کرے ، دیگر ادیان کو صفحہ ھستی سے مٹا کر دین اسلام کو سر بلندی عطا کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ٦٣ سالہ حیات مبارکہ میں انتھک کوششیں اور زحمتیں اٹھا کر اس دین کی بنیاد ڈالی اور اپنے بعد دوازدہ خلفا ء برحق کا سلسلہ قائم کر کے اس کی بنیادوں کو مستحکم اور مضبوط بنایا۔ اس لیے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے مقصد کو حاصل کرنا عادی طور پر ناممکن ہے ۔ لھذا گزر ایام کے ساتھ ساتھ جب انسانوں کے شعور بیدار ھوتے رھیں گے تودنیا میں انقلابات رونما ھوتے رھیں گے اور خود بخود اس عالمی الھی حکومت کے لیے زمین ھموار ھوتی رھے گی تاکہ جب آخری فرزند و جانشین رسول ،پردہ غیب سے نکل کر آئے گا تو پوری دنیا ان کا استقبال کرے گی اور آپ مختصر وقت میں پوری دنیا میں الھی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ھو جائیں گے۔
اگردنیا میں موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو لامحالہ انسان اس نتیجہ پر پھنچے گا کہ پوری دنیا ایک ھی سمت و سو حرکت کر رھی ہے۔ چاھے وہ مغرب سے اٹھنے والی آوازیں ھوں یا مشرق سے بلند ھونے والی صدائیں ،سب کا ایک ھی مقصد ہے اور وہ یہ کہ انسان ، انسان کے بنائے ھوئے قوانین کے ماتحت زندگی نھیں گزار سکتا ، انسان کو انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے مافوق بشر طاقت کے بنائے ھوئے قانون کی ضرورت ہے ۔
تیس پینتیس سال پھلے ایرانی قوم کے اندر یہ شعور بیدار ھوا تو انھوں نے رھبر کبیر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی انوکھی رھبریت میں اپنے شعور کو پایہ تکمیل تک پھنچایا اور اسلامی انقلاب قائم کر کے ایک نیا طرز زندگی اور جینے کا ڈھنگ دنیا والوں کو سکھایا، اسلام کو حیات مجدد عطا کی اور عالم اسلام کے لیے الھی حکومت کا ایک انمول اور بے نظیرعملی نمونہ پیش کیا۔
اسلامی بیداری میں اسلامی انقلاب کا کردار
اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ھونے کے ساتھ ایک بار پھر مستضعفین کو روئے زمین کی حکومت عطا کرنے والا اللہ کاسچا وعدہ عملی جامہ پھنتے ھوئے نظر آیا اور صاحبان ایمان کو ایک بار پھر زمین کے ایک خطہ میں الھی حکومت قائم کرنے کا موقع فراھم ھوا۔ اوراسلام کا چمکتا ھوا سورج ایک بار پھر نئی روح و حیات لے کر سر زمین ایران کی افق سے نمودار ھوا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں نور افشانی کرتا ھوا چلا جا رھا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والیں اسلامی تحریکیں اسی آقتاب عالمتاب کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈتی ھوئی نظر آرھی ہیں۔ جیسا کہ بین الاقوامی حوادث کے متعلق نظریہ پردازوں نے انقلاب اسلامی کے ذریعہ حیات مجدد حاصل کرنے والے اسلامی معاشروں کے سلسلے میں کھا:'' ایران میں امام خمینی کی حکومت کے آغاز کے ساتھ اسلام نے ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیا جس نے بہت مختصر وقت میں عالمی سطح پر اپنے ایسے سیاسی اور ثقافتی آثار و برکات نچھاور کئے جن کی ھر گز پیشنگوئی نھیں کی جا سکتی تھی''۔(ماھنامہ اسلام و غرب، شمارہ بھمن و اسفند٧٨)
'' اسلامی انقلاب اور اس کے رھبر( امام خمینی) بے شک اسلام کو نئی زندگی دینے والی تحریک کے موجد ہیں جنھوں نے دوسرے ممالک میں رھنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی اسلامی ھویت اور شخصیت کو دوبارا حاصل کرنے کا سلیقہ سکھلا دیا۔ یہ تحریک قومیت سے بالاتر اثر و رسوخ کی حامل ہے''۔ ( پروفیسر کارسٹن کوپلر، شکل اسلام، ص٦٧)
'' امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعہ نہ صرف ایرانیوں اور مشرقی وسطی کو بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا عاشق بنا دیا''۔ ( گراھام فولر امریکی، قبلہ عالم، جیوپولیٹیک ایران، ترجمہ عباس مخبر، ص١١١)
''جس طریقہ سے امام خمینی نے ایرانیوں کی زندگی کو معنی اور مفھوم دیا ہے اسی طریقہ سے کروڑوں مستضعف انسانوں کو زندگی کی امید دی ہے '' (فتحی شاقی، تحریک فلسطین کا رھبر، انتفاضہ و طرح اسلامی معاصر، ص٨٧)
''آج اسلامی انقلاب کے آثار و برکات ایرانی باڈر سے باھر نکل گئے ہیں اور مشرق وسطی میں سب سے بڑا سیاسی اور اسلامی تحریکوں کا محرک اسلامی انقلاب ہے''۔ ( ڈاکٹر ماروین زونیس، امریکہ یونیورسٹی کا استاد، رسالت نیوز اینجسنی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ٧٩،١١،١٧)
'' انقلاب امام خمینی، مسلمان قوموں کو متحد کرنے کی غرض سے ان کے اندر اسلامی بیداری کی لھر پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر ثابت ھوا ہے '' (شیخ عبد العزیز عودہ)
'' آج شمال افریقہ سے لے کر ایشیا کے جنوب مشرق تک تمام اسلامی ممالک میں اسی انقلاب کی وجہ سے اسلامی بیداری کی لھر دوڑ گئی ہے اور ھر آئے دن اس کے طرفداروں میں اضافہ ھوتا چلا جا ر ھا ہے''۔( پیتر۔ ال۔ برگر، معروف امریکی سوشیالیسٹ، افول سکولاریزم، ترجمہ افشار امیری، ص٢٣)
مسئلہ فلسطین پر انقلاب اسلامی کا اثر
خاص کر کے مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ھو گیا تھا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجھات کا مرکز بن گیا۔ اور خود فلسطینی لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور فلسطین کو غاصب صھیونیست سے آزادی دلانے کا ایک بھترین راستہ مل گیا اگر چہ ان کے درمیان امام خمینی (رہ)جیسے عظیم الشان رھبر کے نہ ھونے کی وجہ سے انھیں صحیح راھنمائی حاصل نھیں ھو سکی اور وہ آزادی حاصل نھیں کر پائے۔لیکن ابھی تک ان کے اندر جو اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ صرف انقلاب اسلامی کی دین ہے جیسا کہ ایک اسکالر کا کھنا ہے:
'' ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے فلسطینی انقلاب اور عوام پر بھت گھرا اثر ڈالا'' ۔( شیخ عبد اللہ شامی، تحولات انقلابی در ایران، جمیلہ کدیور، پایان نامہ کارشناسی ارشد، ص١٤٢)
اور'' فلسطینی عوام نے یہ احساس کر لیا کہ اسرائیل کو شکست دینا ممکن ہے''۔( فتحی شقاقی، مذکورہ حوالہ)
اسلامی ثقافت کی تجدید حیات
تحریک امام خمینی (رہ) اور اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشروں پر ایک اثر یہ بھی چھوڑا کہ اسلامی معاشروں میں شعائر اسلامی کی عظمت دوبارہ زندہ ھوئی، مسلمانوں کے اندر اپنے مقدسات کی حفاظت کا جذبہ بیدار ھوا اور ان کے تحفظ کی ھمت اور غیرت ان کے اندر پیدا ھوئی ، جوان نسل میں خاص کر اسلامی تفکر نے جگہ حاصل کی، ان کے نزدیک مذھب کا پاس و لحاظ رکھنے کا جذبہ اجاگر ھوا۔جوانوں نے جگہ جگہ اسلامی کانفرانسیں اور سمینار منعقد کروانے شروع کئے، مذھبی پروگراموں میں جوانوں کی شرکت میں اضافہ ھوا اور دینی امور میں نسل جوان پیش قدم نظر آنے لگی۔ اوراسلامی ممالک میں مخصوصا اسلامی ثقافت نے دوبارہ زندگی حاصل کی وہ اسلامی ثقافت جو ایک عرصہ سے استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کے کلچر کا نذرانہ بن چکی تھی، مسلمان اپنے تمدن کو چھوڑ کر انگریزی تمدن کو اپنانا اور ان کے جیسی زندگی بسر کرنا اپنا افتخار سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد وھی مسلمان اسلامی تمدن و ثقافت کو اپنانے میں نہ صرف کسی قسم کی شرم و عار محسوس نھیں کرتے بلکہ اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دیتے ہیں ۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی جوانوں کے لیے امام خمینی (رہ)کے مسیحا ھونے اور ان کے اندر اسلامی اور مذھبی روح پھونکنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
'' اس انقلاب کے بانی امام بزرگوار نے مسلمانوں کو نشاط بخشا، اسلام کو زندہ کیا اور آج اسلام، نسل جوان اور روشن فکروں کی آرزو اور امید ہے'' (سخنرانی معظم لہ دومین سالگرد رحلت امام(رہ) ١٤،٣،٧٠ش)
دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی
آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پھنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رھا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ھمکنار کر دے۔ لھذا ایسے میں سوائے اسلامی و الھی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نھیں نکال سکتی۔" اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور"( بقرہ،٢٥٧)
امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لھذا انھوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بھت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ھو گئی ھو، جس کا اعتبار ختم ھو گیا ھو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کھنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ھو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ھیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ھو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وھم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نھیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔
ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نھیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ھو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذھان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ھونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذھنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نھیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ھوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انھیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ھمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نھیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نھیں ھوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمھوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رھی ہے۔
تحریک امام(رہ) کا دیگر ممالک میں پھیلنا
آج جو اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم الشان لھر پھیلی ہے اس کی پیشنگوئی خود امام خمینی (رہ) کر چکے تھے جیسا کہ انھوں نے اپنی متعدد تقریروں میں فرمایا:'' آج آپ کی تحریک اور آپ کے انقلاب کی موج پوری دنیا میں جا چکی ہے ( صحیفہ نور، ج ١٧، ص٦٣)۔'' آ پ کا انقلاب الحمد للہ دنیا میں پھیل چکا ہے نہ کہ پھیلے گا''۔ ( وھی حوالہ، ج١٨،ص١٦٩)۔'' اسلام نے الحمد اللہ پوری دنیا میں جلوہ نمائی کی ہے ''۔(وھی، ج ١٨ص١٤٠)۔ ''آپ لوگ جان لیں کہ مرکز ایران سے اسلام کا سایہ پوری دنیا میں پھیلا ہے '' (وھی، ج ١٩ص١٩٥)۔'' ھمارا انقلاب پھیل چکا ہے اور ھر جگہ اسلام کا نام ہے اور مستضعین نے اسلام سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں''۔ ( وھی، ج ١٥،ص٢٠٠)
''پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے چاھنے والے ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ۔۔میں اپنی شجاع قوم کی خدمت میں عرض کروں کہ خداوند عالم نے آپ کی معنویت کے آثار و برکات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے''۔( وھی حوالہ، ج٢٠،ص٣٣)
امام خمینی رضوان اللہ علیہ سالھا قبل یہ واضح طور پر فرما چکے تھے کہ ھمارا انقلاب ایرانی حدود سے نکل چکا ہے ھمیں اس کے اکسپورٹ کرنے کی ضرورت نھیں ہے اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کی عقلوں پر یہ بات گراں گزری تھی اور انھیں ھضم نھیں ھوئی تھی۔ لیکن آج ان کی باتوں کی صداقت ھر آنکھ مشاھدہ کررھی ہے کہ کس قدر دوسری قوموں نے انقلاب اسلامی کی پیروی میں اور اس سے اثر قبول کرتے ھوئے انقلابات برپا کرنے کی کوششیں کیں اور کر رھے ہیں انشا اللہ ان کی یہ کوششیں مثمر ثمر واقع ھوں۔
خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ضمیر بیدار ھوں اور وہ دین الھی کی اھمیت کو سمجھیں اور اسے بلادستی اور سربلندی عطا کرنے کی کوشش کریں۔