ان دنوں جگہ جگہ مسلمان عید میلاد ختم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منا رھے ہیں، مسلم معاشرے کی فضا خوشی اور مسرت سے لبریز دکھائی دے رھی ہے، جو بهی مسلمان پیغمبر گرامی اسلام کی ذات، شخصیت، عظمت اور بلند مقام کا ادراک رکھتا ہے، ان ایام میں وہ جشن نبی میں نعت، حمد، اشعار پڑھ کر، خطابت کرکے یا دوسری شکلوں میں بھرپور حصہ لے کر عشق رسول کا مظاھرہ کرنے کی پوری کوشش کر رھا ہے۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے ایام میں مسلمانوں کا مختلف مقامات پر اکٹھے ھوکر ایک دو گھنٹے نعت، حمد اور اشعار سن کر یا سنا کر اپنے گھروں کو لوٹنا کافی ہے؟ یا جشن عید میلاد ختم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے اس سے بالاتر ہیں؟
جواب یہ ہے کہ جشن عید میلاد پیغمبر کے تقاضے اس سے بھت بلند ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ھم مطلق جشن کو دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک جشن ظاھری ہے اور دوسرا جشن حقیقی۔ جنھیں جشن بے روح و با روح جشن سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔
جشن ظاھری یہ ہے کہ جب بھی خوشی کا موقع آتا ہے یا عید آتی ہے تو مسلمان بغیر معرفت کے نئے رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں، اپنے آپ کو سنوارتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں، شیرینی کهلاتے ہیں، لوگوں کو خوب کهلاتے پلاتے ہیں اور دوسری مختلف رسومات ادا کرتے ہیں۔
جشن حقیقی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان معرفت اور علم کے ساتھ جشن مناتے ہیں، خوشی کا مظاھرہ کرتے ہیں اور جس ھستی کا یوم ولادت ہے، اس موقع کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ اس ھستی کی عظمت اور شخصیت کو دلیل و برھان کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے بھرپور استفادہ کرتے ھوئے اس کی قولی اور عملی سیرت کو درک کرکے اس ھستی کے کردار، گفتار اور رفتار سے اپنی عملی زندگی کے لئے دروس حاصل کرتے ہیں۔
لیکن صد افسوس؛ آج ھمارے معاشرے میں پھلی قسم کے جشن کو غلبہ حاصل ہے۔ لوگ معرفت کے بغیر ظاھری خوشیاں مناکر سمجھتے ہیں کہ ھم نے جشن میلاد ختم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کر دیا ہے، جب کہ معرفت کے بغیر کئے جانے والے اعمال اور عبادات کی کوئی قیمت نھیں۔ معرفت تمام اعمال اور عبادات کی روح اور جان ہے۔ یھی وجہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں اسلامی اقدار ناپید ہیں، مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کی حاکمیت کا فقدان ہے، پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ھدف، ان کی سیرت طیبہ اور ارشادات عالیہ سے آپ کے ماننے والے نابلد ہیں، درنتیجہ مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔ وہ کونسے منکرات ہیں جو مسلمانوں کی عملی زندگی میں نھیں پائے جاتے۔ جھوٹ، رشوت، غیبت، ربا، ملاوٹ، دھوکہ، فریب، ڈاکہ زنی، بے پردگی، فحاشی، عریانیت جیسے گناہ کبیرہ تو مسلمانوں کی زندگی کا گویا حصہ بن چکے ہیں۔ عدالت، انصاف، احترام، پیار و محبت جیسے اوصاف حمیدہ مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ھوچکے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مبعوث ھوئے تهے، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے، لیکن آج مسلمانوں کی زندگی میں اخلاقی بو تک نھیں آتی۔ مسلمان دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کا فتویٰ لگا کر ان کے قتل کو کلید جنت قرار دے رھے ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کو ٹیری آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ تفرقہ اور نفرت آمیز مواد کو مسلم معاشرے میں اچھال کر ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے میں مسابقہ چل رھا ہے، ھر فرقے کی مسجد الگ، مدرسہ جدا ہے، کیا یھی سیرت پیغمبر ہے؟ کیا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھی چیزوں کی تعلیم دی تھی؟ ھرگز نھیں۔
قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو مسلمانوں کو اتحاد، اخوت، ھمدلی کی تعلیم دی ہے، مسلمانوں کو جسم واحد قرار دیا ہے۔ مادی و معنوی ترقی کا راز اتحاد کو جانا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ گذشتہ امتیں جب تک باھم اور متحد تھیں، ترقی کی راہ پر گامزن تھیں، عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ھمکنار رھیں، دنیا والوں کی رھبر اور ان پر حاکم رھیں۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا، مادیات کی طرف مائل ھوئیں، احساس برتری، قومی و فرقہ وارانہ انتشار و براگندگی کا شکار ھوگئیں، آپس میں لڑنے لگیں تو خداوند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا، خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا۔
مثال کے طور پر کسریٰ و قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ھوگئے۔ انھیں اپنا غلام بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں دهکیل دیا، انھیں ذلت و فقر اور جھالت و انتشار سے دو چار کر دیا۔
خداوند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام جیسی نعمتوں کے ذریعے اولاد اسماعیل اور تمام مسلمانوں کو متحد اور بھائی بھائی بنا دیا، انھیں بزرگی عطا فرمائی، اپنی عطاؤں کی نھریں ان کی طرف جاری کیں۔ انھیں نعمت طاقت، عزت و عظمت عطا فرمائی، ایسی پائیدار حکومت انھیں نصیب کی کہ کسی کو اسے شکست دینے کی طاقت نہ تھی۔ افسوس؛ ایسی باشکوہ ھجرت کے بعد مسلمان مختلف گروھوں اور فرقوں میں تقسیم ھوگئے، جس کے نتیجے میں اسلامی امت نے قوم و قبیلہ پرستی اختیار کر لی اور حضرت علی علیہ السلام کی تعبیر میں ھجرت کے بعد تعرب و عروبت یعنی قومیت اختیار کر لی۔
عصر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتحاد و ھمبستگی کے درخشاں آثار مدینہ میں رھنے والے قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے اختلاف و جھگڑا رکھتے تھے اور یھودیوں نے ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ھوئے ان پر سیاسی غلبہ و تسلط حاصل کر لیا تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ ھجرت کرنے اور لوگوں کی قیادت و رھبری قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان اخوت و برادری کا معاھدہ قائم کیا۔
ڈاکٹر محمد حسین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیات پیغمبر“ میں لکھا ہے، یھاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا نیا مرحلہ شروع ھوتا ہے، جس کی نظیر گذشتہ انبیاء کے یھاں نظر نھیں آتی۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور سب سے پھلا جس موضوع پر آپ نے توجہ فرمائی، یہ تھا کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔
ھیکل مزید لکھتے ہیں: اگر ھم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ منافقوں نے قبائل اوس، خزرج اور مھاجر و انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کس قدر کوششیں کیں تو ھمیں معلوم ھوگا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ میں کس قدر دقت نظر، حسن تشخیص اور دور اندیشی سے کام لیا تھا۔
قرآن مجید مسلمانوں سے تاکید کرتا ہے: ”واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا و اذکروا نعمت اللّٰہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا و کنتم علی شفا حفرة من النار فانقذکم منھا۔" تم سب اللہ کی رسی (قرآن و اسلام و تمام وسائل اتحاد) مضبوطی سے پکڑے رھو اور متفرق و پراگندہ نہ ھو اور خدا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ کس طرح تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس نعمت کی برکت سے تم ایک دوسرے کے بھائی ھوگئے۔ تم آگ کے گڑھے کے دھانے پر تھے کہ خدا نے تمھیں اس سے نجات عطا کر دی۔
اللہ کی اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمان تھوڑی سی تعداد ھونے کے باوجود اپنے دشمنوں پر غالب آگئے، لیکن جنگ احد میں اختلاف و نزاع کے باعث شکست سے دوچار ھوئے۔ ”ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر“ خداوند عالم نے تم سے (احد میں دشمن پر کامیابی کے سلسلہ میں) وعدہ کو پورا کیا۔ جبکہ تم (آغاز جنگ میں) اس (اللہ) کے حکم سے دشمنوں کو قتل کر رھے تھے (اور یہ کامیابی جاری تھی) یھاں تک تم سست ھوگئے اور (مورچہ چھوڑ دینے کے سلسلہ میں) باھم نزاع کرنے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام ایک اور خطبے میں یوں فرماتے ہیں ”ایھا الناس شقوا امواج الفتن بسفن النجاة، و عرجوا عن طریق المنافرة ، وضعوا تیجان المفاخرة، افلح من نھض بجناح، او استسلم فاراح، ھذا ماء اجن، و لقمة یغص بھا اکلھا، و مجتنی الثمرة لغیر وقت ایناعھا کالزارع بغیر ارضہ“ اے لوگو ! فتنہ کی موجوں کو سفینہ نجات (علم، ایمان اور اتحاد) کی کشتیوں سے چاک کر دو اور اختلاف و پراگندگی کی راہ سے دوری اختیار کرو۔ باھمی تفاخر، اظھار برتری کے تاج کو سروں سے اتار دو۔ وہ کامیاب ھوا جو اپنے ناصر و مددگار اور کافی طاقت کیساتھ اٹھا اور جس شخص نے کافی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے کنارہ گیری اختیار کی، اس نے لوگوں کو سکون بخشا”
لوگوں پر حکومت کرنا ایسا بدبو دار پانی یا ایسا لقمہ ہے جو گلو گیر ھو جاتا ہے، جو لوگ پھلوں کو پکنے سے پھلے توڑ لیتے ہیں، وہ ان لوگوں کے مانند ہیں، جو ریگستان اور شورہ زار زمین میں بیج بوتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بڑے ادب کا سلوک کرتے تھے اور ان پر لعن و تکفیر کے بجائے فرماتے تھے: ”انا لم تقاتلھم علی التکفیرلھم و لم تقاتلھم علی التکفیر لنا، و الکنرا ینا انا علی حق و راوا اجھم علی حق“ ھماری جنگ ایک دوسرے کے ساتھ اس بنیاد پر نھیں تھی کہ ھم انھیں کافر جانیں یا وہ ھم کو کافر جانیں، بلکہ ھماری نظر اس پر تھی کہ ھم حق پر ہیں اور وہ یہ دیکھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں۔“
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ھونے کی دعوت دی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے متحد ھوکر مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آج کفار متحد ہیں، مگر مسلمان انتشار کا شکار ہیں۔ یہ سب جھالت اور داخلی و بیرونی اسلام دشمن عناصر کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
دشمن کبھی نھیں چاھتا ہے کہ مسلمان متحد رھیں، دشمن اس حقیقت کو بخوبی سمجھ چکا ہے کہ جس دن مسلمان متحد ھوجائیں گے، وہ دن ھماری موت کا دن ھوگا، اس خطرے کے پیش نظر اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و انتشار پیدا کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی خرچ کرکے کام کیا، اپنا سب سے زیادہ سرمایہ اس کام کے لئے وقف کیا ہے۔
جشن میلاد ختم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان شخصیت پیغمبر کو نقطہ اتحاد قرار دیں اور آپ کی سیرت طیبہ کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی محدود زندگی کے لمحات گزاریں، ختم مرسل کی پاکیزہ زندگی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیں، آپ کی تعلیمات کے منافی حرکات اور افعال سے یکسر طور پر اجتناب کریں۔
تحریر: محمد حسن جمالی
جشن عید میلاد ختم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1437