اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم، فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شھرت رکھتا تھا، لیکن اسلام قبول نھیں کرتا تھا اور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ھوئے فیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے،
کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ھم آھنگ اور مطابقت نھیں رکھتی ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ھوتا ہے کہ قرآن میں (نعوذ باللہ) نا ھم آھنگی پائی جاتی ہے۔ اس لئے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے، جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم ھوا کہ لوگوں سے الک تھلگ ھوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصروف ھوگیا، یھاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ھوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نھیں ہے، جو اپنے استاد کو دلیل و برھان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا: ھم اس کے شاگرد ہیں، اس لئے اعتراض نھیں کرسکتے۔
امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کھوں گا، اس تک پھنچا سکتے ھو۔؟ شاگرد نے کھا: ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤاور وه جو کام کرنا چاھتا ہے، اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کھو استاد ایک سوال ہے، اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وه تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کھو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کھے کہ میری مراد یہ نھیں ہے، جو تم سمجھ رھے ھو) کیا آپ یہ احتمال نھیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وه مفهوم و معانی نھیں ہیں، جو آپ نے سمجھا ہے؟ وه کھے گا: ھاں یہ احتمال پایا جاتا ہے، چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وه تمهارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کھو: آپ کو یہ یقین کھاں سے حاصل ھوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وھی معنی مراد لئے گئے ہیں، جو آپ سمجھ رھے ہیں؟! ھوسکتا ہے کہ قرآن کا مفهوم کچھ اور ھو، جس تک آپ کی رسائی نہ ھوسکی ھو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاھیم کے سانچے میں ڈھال رھے ھوں۔!
شاگرد اپنے استاد کے پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ھو بھو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کر دیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دهرانے کے لئے کھا، اس کے بعد وه فکر میں غرق ھوگیا۔ اس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمهارے ذھن میں کھاں سے آیا، شاگرد نے کھا: بس ایسے ھی میرے ذھن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔ استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رھا اور شاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رھا۔ آخر کار اسحاق کندی نے کھا: یہ سوال تمهارے ذھن کی پیداوار نھیں ہے اور ممکن ھی نھیں ہے کہ تم اور تمهارے جیسے افراد کے اذھان میں اس طرح کے سوال آجائیں۔
اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ھوئے جواب دیا: ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کھا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوه کسی اور کے ذهن میں نھیں آسکتا ہے۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا، اسے آگ میں ڈال کر جلا دیا۔
تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے، شدید قحط پیش آگیا، خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوند متعال سے بارش کی دُعا کریں۔ مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ھی کیا، لیکن بارش نہ برسی۔ چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لئے صحرا گئے۔ وھاں مسیحی راھب نے اپنے ھاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔ اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلئے ایسا ھی کیا اور راھب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ھوگئی اور لوگ سیراب ھوئے۔ لوگوں کو راھب کے اس عمل پر تعجب ھونے لگا اور وہ اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے۔ خلیفۂ وقت کیلئے یہ مسئلہ بھت پریشانی کا باعث بن گیا۔ لھذا اس مشکل سے نکلنے کیلئے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو آزاد کر دے اور انھیں اس کے پاس لے آئے۔
حضرت نے خلیفہ سے فرمایا: لوگوں سے کھو کہ کل پھر حاضر ھوں۔ خلیفہ کھنے لگا: لوگوں کی ضرورت پوری ھوگئی ہے اور دوبارہ طلب باران کی اب ضرورت نھیں۔ حضرت نے فرمایا، میں چاھتا ھوں لوگوں کے اذھان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنھیں نجات بخشوں۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راھب تیسرے دن بھی طلب باران کے لئے حاضر ھوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔ خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے۔ تمام مسیحوں نے حسب عادت ھاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا، اُس راھب نے بھی ایسا ھی کیا، اچانک آسمان پر بادل نمودار ھونے لگے اور بارش برسنے لگی۔ اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں کا شک و شبھہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راھب سے فرمایا کہ اپنے ھاتھوں کو کھولے، جب اُس نے ھاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ھڈی ہے۔ پس امام علیہ السلام نے مسیحی راھب کے ھاتھ سے وہ ھڈی لے لی، ایک کپڑے میں لپیٹ دی اور پھر راھب سے فرمایا: اب طلب باران کرو۔ راھب نے پھر اُسی طرح کیا، لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاھر ھوگیا۔
لوگوں کو اس واقعے سے مزید تعجب ھوا۔ اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا: یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں۔
حضرت نے فرمایا: ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ھڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ھڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاھر ھو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ھو جاتی ہے۔ لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کر لیا، پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کرکے دیکھا تو قضیہ ویسے ھی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذھان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ھوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ھوگئے۔ یھاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رھائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے۔
حوالہ جات
مناقب، ج۴، ص۴۲۴۔
زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علیاکبر جھانی، ص۱۳۵
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی